”ابلنا، جوش مارنا“ کے لیے ”غَلْي“ ، ”نَضَخَ“ اور ”فَار“ ، ”(فور)“ کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔
غَلْي
غلا کے بنیادی معنی اپنی حدود سے تجاوز کرنا اور اوپر اٹھنا ہے اس سے غَلَا القِدْر ہانڈی کا جوش مارنا اور غلا السّعر (نرخوں کا بلند ہو جانا) ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
كَغَلْيِ الْحَمِيمِ
”جیسے پگھلا ہوا تانبا ، پیٹوں میں اس طرح کھولے گا جیسے گرم پانی کھولتا ہے۔“
[44-الدخان:46]
نَضَخَ
پانی کا چشمہ اسے زور سے پھوٹنا مگر نضخ میں جوش مارنے کی وجہ کثرت آب اور دباؤ ہوتی ہے نہ کہ حرارت اور نَضَّاخ موسلادھار بارش کو بھی کہتے ہیں۔ اور عَیْنٌ نَضَّاخَةوہ چشمہ ہے جو کثرت آب کی وجہ سے جوش مار رہا ہو۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فِيهِمَا عَيْنَانِ نَضَّاخَتَانِ
”ان دونوں باغوں میں دو چشمے ابل رہے ہیں۔“
[55-الرحمن:66]
فَار
فار کا لفظ ہانڈی کے جوش مارنے چشمہ سے پانی ابلنے کے لیے اور آگ کے جوش مارنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے مگر یہ لفظ اس صورت میں استعمال ہوگا جبکہ ابال جلد جلد اٹھ رہا ہو کیونکہ الفور کے معنی بہت جلدی کے ہیں۔ کہا جاتا ہے رجع من فورہ، وہ بلا توقف جلد جلد واپس ہوا۔ اور لفظ فوّارہ بھی اسی سے مشتق ہے جس میں پانی میں تسلسل قائم رہتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
حَتَّى إِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ
”یہاں تک کہ ہمارا حکم آپہنچا اور تنور جوش مارنے لگا۔“
[11-هود:40]