”آہستہ آہستہ“ کے لیے ”رُوَيْد“ ، ”(رود)“ ، ”رُخَاءً“ ، ”(رخو)“ ، ”عُرف“ ، ”يُسْر“ ، ”استدرج“ اور ”دَليّٰ“ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان تمام الفاظ میں آہستگی کا مفہوم پایا جاتا ہے۔
رُوَيْد
”الرَّود“ سے مشتق ہے اور ”اَرْوَدُ“ کا مصدر مصغر ہے۔ کہتے ہیں: ”امش على الرود.“ آہستہ چلو اور ”سَارُوْا سَيْراً رُوَيْداً .“ وہ نرمی سے اور آہستہ آہستہ چلے اور ”اَرْوَدْ“ بمعنی اپنے کام میں آہستگی کرنے والا نیز کہتے ہیں۔ ”الدَّهْرُ اَوْرَدْ ذُوْ غِيْرٍ“ یعنی زمانہ چپکے چپکے کام کرتا رہتا ہے۔ پتا نہیں لگنے دیتا۔ نیز کہتے ہیں ”رُوَيْدَ زَيْداً“ مہلت دو۔ گویا ”رُوَيْد“ کا مفہوم آہستہ آہستہ اور چپکے چپکے رسی دراز کرتے جانا یا تھوڑی تھوڑی مہلت دیتے جانا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَمَهِّلِ الْكَافِرِينَ أَمْهِلْهُمْ رُوَيْدًا
”تو تم کافروں کو مہلت دو بس چند روز ہی مہلت دو۔“
[86-الطارق:17]
رُخَاءً
اتنی نرم اور آہستہ چلنے والی ہوا جو کسی چیز کو نہ ہلائے ہوا کا نرمی سے دھیرے دھیرے چلنا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَسَخَّرْنَا لَهُ الرِّيحَ تَجْرِي بِأَمْرِهِ رُخَاءً حَيْثُ أَصَابَ
”پھر ہم نے ہوا کو ان کے زیر فرمان کر دیا کہ جہاں وہ پہنچنا چاہتے ان کے حکم سے نرم نرم چلنے لگتی۔“
[38-ص:36]
عُرف
دھیمی دھیمی چلنے والی راحت بخش ہوا العرْف بمعنی بُو۔ اکثر اس کا استعمال خوشبو کے لئے ہوتا ہے اور ایسی ہوائیں عموماً دھیمی رفتار سے چلتی ہیں۔ جیسے نسیم سحر۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَالْمُرْسَلَاتِ عُرْفًا
”قسم ہے چلتی ہواؤں کی دل کو خوش آتی ۔ (عثمانی)“
[77-المرسلات:1]
يُسْر
معنی آسانی اور سہولت اور اس کی ضد عُسْر تنگی ہے اور یُسْراً کا لفظ اس حالت کو بھی ظاہر کرتا ہے جب کوئی کام آسانی اور سہولت کے ساتھ بلاتکلف سرانجام دیا جائے اور اس میں کسی قسم کا جھول واقع نہ ہو۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَالْجَارِيَاتِ يُسْرًا
”پھر قسم ہے ان ہواؤں کی جو آہستہ آہستہ چلتی ہیں۔ (جالندھری)“
[51-الذاريات:3]
استدرج
سیڑھی کے زینہ کو کہتے ہیں جبکہ اوپر کو چڑھا جائے اور اس کے معنی آہستہ آہستہ اور بتدریج کے ایک چیز کو دوسری چیز کے قریب کرنے کے ہیں تاکہ اسے کچھ معلوم نہ ہو سکے گویا استدراج میں تدریج اور آہستگی دو چیزوں کی رعایت ضروری ہوتی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ
”اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ، ان کو بتدریج اس طرح پکڑیں گے کہ انہیں معلوم ہی نہیں ہوگا۔(جالندھری)“
[7-الأعراف:182]
دَليّٰ
دَلْوٌ کے معنی ایسا ڈول ہے جو پانی سے خالی ہو اور اَدْلٰی کے معنی خالی ڈھول کو پانی سے بھرنے کے لیے کنویں میں لٹکانا ہے جو آہستہ آہستہ پانی تک پہنچ جاتا ہے اور دَلّٰی کے معنی آہستہ آہستہ کسی کام کو سر انجام دینے اور مقصد تک پہنچنے کے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَدَلَّاهُمَا بِغُرُورٍ
”غرض (شیطان مردود نے ) ان دونوں آدم و حوا کو دھوکا دے کر مصیبت کی طرف کھینچ ہی لیا ۔(جالندھری)“
[7-الأعراف:22]