عربی میں ہر قسم کی ”آواز“ کے لیے ”صَوْت“ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ وہ خواہ بولنے سے پیدا ہو یا چیزوں کے ٹکرانے سے۔ ”صوت“ کی ایک تعریف یہ کی گئی ہے ۔ منہ سے نکلی ہوئی شے اگر الفاظ اور حروف پر مشتمل نہ ہو تو وہ ”صوت“ ہے۔ یہ تعریف قابل اعتبار نہیں۔ جانداروں کی آوازیں: ”صَدَّ“ ، ”صرخ“ ، ”همس“ ، ”حسيس“ ، ”مكاء“ ، ”(مكو)“ ، ”تصدية“ ، ”ضبح“ ، ”خوار“ ، ”زفير“ ، ”شهيق“ ، ”لهث“ ۔ بے جان چیزوں کی آوازیں: ”رِكْز“ ، ”صَيْحَة“ ، ”صَاخّة“ ، ”تَغَيُّظ“ ، ”هدّ“ ، ”غَلْي“ ، ”صَلْصَال“ ، ”قارِعة“ ۔
صوت
ابن فارس نے صوت کی جامع تعریف کی ہے۔ وہ کہتے ہیں: ”كُلُّ مَا وَقَرَفِيْ اُذُنِ سامعٍ .“ ہر وہ کچھ جو سننے والے کے کان سے ٹکرائے وہ آواز ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ
”اے ایمان والو ! نبی کی آواز سے اپنی آواز بلند نہ کرو۔“
[49-الحجرات:2]
صَدَّ
یَصِدُّ صَدِیْداً کسی انسان کے گرنے کے وقت کی چیخ و پکار اور کراہنے کی آواز لیکن یہ لفظ قرآن میں محض چیخنے چلانے کے معنوں میں آیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا إِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّونَ
”اور جب مریم کے بیٹے عیسیٰ کا حال بیان کیا گیا تو تمہاری قوم کے لوگ اس سے چلا اٹھے تھے۔“
[43-الزخرف:57]
صرخ
مصیبت اور گھبراہٹ میں چلانے کی آواز فریاد۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَهُمْ يَصْطَرِخُونَ فِيهَا رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَلُ
”اور اس دوزخ میں چلائیں گے اور (کہیں گے) اے پروردگار ہم کو نکال لے۔ تب ہم نیک عمل کیا کریں گے نہ وہ جو (پہلے) کرتے تھے۔“
[35-فاطر:37]
همس
انسان کی کسی بھی حرکت کی آواز نہ کُھسر پُھسر یا کانا پھوسی کی آواز۔ الصوت الخفیِّ وَاَحَسّ گویا اس سے مراد انسان کی کوئی بھی دھیمی اور قابل محسوس آواز ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَخَشَعَتِ الْأَصْوَاتُ لِلرَّحْمَنِ فَلَا تَسْمَعُ إِلَّا هَمْسًا
”اور اللہ کے سامنے سب آوازیں دب جائیں گی اور تم آواز خفی کے سوا کوئی آواز نہ سن سکو گے۔“
[20-طه:108]
حسيس
قدموں کی آہٹ ، چاپ ، خفیف سی آواز آگ کے بھڑکنے کی آواز۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَا يَسْمَعُونَ حَسِيسَهَا وَهُمْ فِي مَا اشْتَهَتْ أَنْفُسُهُمْ خَالِدُونَ
”نہیں سنیں گے اس کی آہٹ اور وہ اپنے جی کے مزوں میں سدا رہیں گے۔ (عثمانی)“
[21-الأنبياء:102]
مُكَاءً
منہ سے سیٹی بجانا اور اس میں موسیقی کے تمام سرتال شامل ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِنْدَ الْبَيْتِ إِلَّا مُكَاءً وَتَصْدِيَةً
”اور ان لوگوں کی نماز خانہ کعبہ کے پاس سیٹیاں اور تالیاں بجانے کے سوا کچھ نہ تھی۔“
[8-الأنفال:35]
تصدية
صدی دونوں ہاتھوں سے تالیاں بجانا اور اس میں تمام ساز و مضطراب شامل ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِنْدَ الْبَيْتِ إِلَّا مُكَاءً وَتَصْدِيَةً
”اور ان لوگوں کی نماز خانہ کعبہ کے پاس سیٹیاں اور تالیاں بجانے کے سوا کچھ نہ تھی۔“
[8-الأنفال:35]
ضبح
گھوڑے کے تیز دوڑنے کی وجہ سے اس کے ہانپنے کی آواز ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَالْعَادِيَاتِ ضَبْحًا
”ان سرسپٹ دوڑنے والے گھوڑوں کی آواز جو ہانپ اٹھتے ہیں۔“
[100-العاديات:1]
خوار
بیل ، گائے یا بچھڑے کی آواز۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَى مِنْ بَعْدِهِ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَهُ خُوَارٌ
”اور قوم موسیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے بعد اپنے زیور کا ایک بچھڑا بنا لیا۔ وہ ایک جسم تھا جس میں سے بیل کی آواز نکلتی تھی۔“
[7-الأعراف:148]
زفير
زفر معنی لمبا سانس باہر نکالنا اور زفیر معنی گدھے کے رینگنے کی ابتدائی آواز جو آہستہ آواز سے اونچی ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَأَمَّا الَّذِينَ شَقُوا فَفِي النَّارِ لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌ وَشَهِيقٌ
”تو جو بدبخت ہیں وہ دوزخ میں ڈال دیے جائیں گے اس میں ان کے لیے زفیر اور شہیق جیسی آوازیں ہوں گی۔“
[11-هود:106]
شهيق
گدھا جب رینگنے کو ختم کرنے لگے تو آخر کی آواز جو اونچی آواز سے پست ہونا شروع ہوتی ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَأَمَّا الَّذِينَ شَقُوا فَفِي النَّارِ لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌ وَشَهِيقٌ
”تو جو بدبخت ہیں وہ دوزخ میں ڈال دیے جائیں گے اس میں ان کے لیے زفیر اور شہیق جیسی آوازیں ہوں گی۔“
[11-هود:106]
لهث
کتّے کے ہانپنے کی آواز جس کی وجہ گرمی یا پیاس کی شدت ہوتی ہے اور وہ زبان باہر نکال کر ہانپنے یا ہونے لگتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِنْ تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَثْ
”اس شخص کی مثال کتّے کی سی ہے کہ اگر اس پر بوجھ لادو تو بھی ہانپے اور اگر چھوڑ دو تو بھی ہانپے ۔“
[7-الأعراف:176]
رِكْز
خفیف اور دھیمی آواز اور بعض کے نزدیک بھنک ، مکھی کی بھنبھناہٹ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَكَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِنْ قَرْنٍ هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزًا
”اور ہم نے ان سے پہلے بہت سے گروہوں کو ہلاک کر دیا ہے بھلا تم ان میں سے کسی کو دیکھتے ہو یا کہیں ان کے بھنک سنتے ہو۔“
[19-مريم:98]
صَيْحَة
آواز پھاڑ پھاڑ کر چلّانا۔ صور پھونکنے کی آواز ایسی آواز جس سے دل دہل جائیں گرج دار آواز۔ دھماکہ یعنی جب کسی بھی آوازیں میں شدت پیدا ہو جائے۔ ہر بے معنی اور بلند آواز کو صَيْحَة کہتے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَأَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ مُشْرِقِينَ
”سو ان کو سورج نکلتے نکلتے چنگھاڑ نے آ پکڑا اور ہم نے اس شہر کو الٹ کر ان کے اوپر کے حصے کو نچلا بنا دیا۔“
[15-الحجر:73]
صَاخّة
ایسی کرخت آواز جو کانوں کو بہرا کر دے کان پھوڑنے والی آواز ، سخت قسم کے شوروغل۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَإِذَا جَاءَتِ الصَّاخَّةُ
”پھر جب آئے وہ کان پھوڑنے والی۔ (عثمانی)“
[80-عبس:33]
تَغَيُّظ
جوش غیظ و غضب میں جھنجھلاہٹ مجازاً جہنم کی آگ میں تیزی اور جوش کی وجہ سے پیدا شدہ آوازیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إِذَا رَأَتْهُمْ مِنْ مَكَانٍ بَعِيدٍ سَمِعُوا لَهَا تَغَيُّظًا وَزَفِيرًا
”جب وہ دوزخ ان کو دور سے دیکھے گی (تو غضب ناک ہو رہی ہو گی اور یہ) اس کے جوش (غضب) اور چیخنے چلانے کو سنیں گے۔“
[25-الفرقان:12]
هدّ
کسی عمارت یا دیواریں یا ستون وغیرہ کے گرنے کی آواز دھڑام کی آواز ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا
”قریب ہے کہ اس افتراء سے آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ڈھے کر گر پڑیں۔“
[19-مريم:90]
غَلْي
ہنڈیا کے ابلنے اور جوش مارنے کی آواز ، کھولنے کی آواز ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
كَالْمُهْلِ يَغْلِي فِي الْبُطُونِ
”جیسے پگھلا ہوا تانبا، پیٹوں میں (اس طرح )کھولے گا جس طرح گرم پانی کھولتا ہے۔“
[44-الدخان:45]
صَلْصَال
خشک اور پختہ مٹی سے کھنکنے کی آواز۔ اصل میں یہ صلّال تھا ایک لام ص سے بدل گیا۔ الصلال من الطین خشک کھنکنی مٹی جو لوہے کی طرح بجے صَلَّ المسارُ یعنی وہ آواز جو کسی چیز میں میخ کیل ٹھونکنے سے پیدا ہو ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ
”اور ہم نے انسان کو کھنکھناتے سڑے ہوئے گارے سے پیدا کیا ۔“
[15-الحجر:26]
قارِعة
قرع کے معنی ایک چیز کو دوسری چیز پر مارنا اور قَرَعَ الْبَابَ بمعنی دروازہ کھٹکھٹانا یعنی جب اس کے ایک پٹ کو دوسرے پٹ سے ٹکرا کر یا ہاتھ مار کر یا کسی اور چیز سے آواز پیدا کی جائے قیامت کو اللہ تعالی نے قارِعة کہا ہے کہ اس وقت چیزیں ایک دوسرے سے ٹکرا کر آوازیں پیدا ہوں گئی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
الْقَارِعَةُ
”کھڑ کھڑ ڈالنے والی کیا ہے وہ کھڑ کھڑ ڈالنے والی۔“
[101-القارعة:1]