وہ حدیث جس کا راوی بدعت مکفرہ کا قائل و فاعل ہو لیکن اگر راوی کی بدعت، مکفرہ نہ ہو اور وہ عادل و ضابط بھی ہو تو پھر اس کی روایت معتبر ہو گی یاد رہے بدعت مکفرہ (کافر بنانے والی بدعت) سے ارتداد لازم آتا ہے۔
وہ حدیث جس کا راوی عام بول چال میں جھوٹ بولتا ہو اور محدثین نے اس کی روایت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہو۔
وہ حدیث جس کے راوی نے کسی موقع پر حدیث کے معاملہ میں جھوٹ بولا ہو، ایسے راوی کی ہر روایت کو موضوع (من گھڑت) کہتے ہیں۔
مصحف:
وہ حدیث جس کے کسی لفظ کی ظاہری شکل تو درست ہو مگر نقطوں، حرکات یا سکون وغیرہ کے بدلنے سے اس کا تلفظ بدل گیا ہو۔
مقلوب:
وہ حدیث جس کے الفاظ میں راوی کی بھول سے تقدیم و تاخیر واقع ہو گئی ہو یا سند میں ایک راوی کی جگہ دوسرا راوی رکھا گیا ہو۔
مدرج:
وہ حدیث جس میں کسی جگہ راوی کا اپنا کلام عمداً یا سہواً درج ہو جائے اور اس پر الفاظ حدیث ہونے کا شبہ ہوتا ہو۔
المزید فی متصل الاسانید:
جب دو راوی ایک ہی سند بیان کریں، ان میں ایک ثقہ اور دوسرا زیادہ ثقہ ہو۔ اگر ثقہ راوی اس سند میں ایک راوی کا اضافہ بیان کرے تو اس کی روایت کو «مزيد فى متصل الاسانيد» کہتے ہیں۔
شاذ:
وہ حدیث جس کا راوی مقبول (ثقہ یا صدوق) ہو اور بیان حدیث میں اپنے سے زیادہ ثقہ یا اپنے جیسے بہت سے ثقہ راویوں کی مخالفت کرے (شاذ کے بالمقابل حدیث کو محفوظ کہتے ہیں)۔
منکر:
وہ حدیث جس کا راوی ضیعف ہو اور بیان حدیث میں ایک یا زیادہ ثقہ راویوں کی مخالفت کرے (منکر کے بالمقابل حدیث کو معروف کہتے ہیں)۔
روایۃ سی الحفظ:
وہ حدیث جس کا راوی «سي الحفظ»، یعنی پیدائشی طور پر کمزور حافظے والا ہو۔
روایۃ کثیر الغفلۃ:
وہ حدیث جس کا راوی شدید غفلت یا کثیر غلطیوں کا مرتکب ہو۔
روایۃ فاحش الغلط:
وہ حدیث جس کے راوی سے فاش قسم کی غلطیاں سرزد ہوں۔
رویۃ المختلط:
وہ حدیث جس کا راوی بڑھاپے یا کسی حادثے کی وجہ سے یادداشت کھو بیٹھے یا اس کی تحریر کردہ احادیث ضائع ہو جائیں۔
مضطرب:
وہ حدیث جس کی سند یا متن میں راویوں کا ایسا اختلاف واقع ہو جو حل نہ ہو سکے۔
مردود حدیث کی اقسام راوی کے مجہول ہونے کی وجہ سے:
روایۃ مجھول العین:
وہ حدیث جس کا راوی ”مجہول العین“ ہو، یعنی اس کے متعلق ائمہ فن کا کوئی ایسا تبصرہ نہ ملتا ہو جس سے اس کے ثقہ یا ضعیف ہونے کا پتہ چل سکے اور اس سے روایت کرنے والا بھی صرف ایک ہی شاگرد ہو جس کے باعث اس کی شخصیت مجہول ٹھہرتی ہو۔
روایۃ مجھول الحال:
وہ حدیث جس کا راوی ”مجہول الحال“ ہو، یعنی اس کے متعلق ائمہ فن کا کوئی تبصرہ نہ ملتا ہو اور اس روایت کرنے والے کل دو آدمی ہوں جس کے باعث اس کی شخصیت معلوم اور حالت مجہول ٹھہرتی ہو۔ ایسے راوی کو ”مستور“ بھی کہتے ہیں۔
مبھم:
وہ حدیث جس کی سند میں کسی راوی کے نام کی صراحت نہ ہو۔
عدل:
یعنی حدیث کو روایت کرنے والے تمام لوگ دیانت دار اورسچے ہوں، اس کا فیصلہ دیگر ناقدین کے اقوال کو سامنے رکھتے ہوئے کیاجاتا ہے۔
ضبط:
یعنی حدیث کو روایت کرنے والے تمام لوگ مضبوط حافظہ کے مالک ہوں۔
تنبیہ: متاخرین نے قوت حفظ میں تفاوت کا اعتبار کرتے ہوئے تام الضبط کی بنسبت کم تر ضبط والے روای کی منفرد مرویات کے لئے ”حسن“ کی اصطلاح بنائی ہے لیکن متقدمین ضبط میں یہ تفریق نہیں کرتے تھے بلکہ ہر ضابط کی روایت کو وہ صحیح ہی کہتے تھے، اور متقدمین میں بعض نے جن احادیث کو حسن کہا ہے تو وہ اصطلاحی معنی میں نہیں ہے۔ بعض حضرات بہت بڑی غلط فہمی کے شکار ہو گئے ہیں اور یہ سمجھ لیا کہ متقدمین حسن حدیث کو بھی حجت نہیں سمجھتے تھے لیکن ایسا موقف متقدمین میں کسی ایک سے بھی ثابت نہیں دراصل متقدمین ”حسن“ کی اصطلاح استعمال ہی نہیں کرتے تھے بلکہ متاخرین کی اصطلاح میں جوروایت ”حسن“ بنتی ہے متقدمین اسے بھی صحیح ہی کہتے تھے۔
اتصال السند:
اس کا مطلب یہ ہے کہ حدیث کو روایت کرنے والے تمام لوگوں نے جس سے حدیث نقل کی ہے اس سے ان لوگوں نے اس حدیث کو براہ راست اخذ کیا ہو۔
کتب صحاح:
ہر وہ کتاب جس کے موَلّف نے اپنی کتاب میں صحیح روایات لانے کا التزام کیا ہو اور ”صحیح“ کے لفظ کو کتاب کے نام کا حصہ بنایا ہو۔ ایسی کتاب کی روایات کم از کم اس کے موَلّف کے نزدیک صحیح ہوتی ہیں۔ اور اگر وہ خود ہی کسی حدیث کی علت بیان کر دے تو اس سے اس کتاب کے صحیح ہونے پر حرف نہیں آتا۔
صحاح ستہ:
حدیث کی چھ کتب صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابوداؤد، سنن نسائی، جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ ”صحاح ستہ“ کہلاتی ہیں۔ انہیں ”اصول ستہ“ یا ”کتب ستہ“ بھی کہا جاتا ہے۔
پہلی دو کتابیں (صحیح بخاری، صحیح مسلم) ”صحیحین“ کہلاتی ہیں اور یہ صرف اپنے مؤلَّفین کے نزدیک ہی صحیح نہیں ہیں بلکہ پوری امت کے نزدیک صحت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہیں۔ ان پر اعتراض برائے اعتراض کرنے والا شخص، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کے بقول، اجماع امت کا مخالف اور بدعتی ہے۔
جبکہ آخری چار کتابوں (سنن ابوداؤد، سنن نسائی، جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ) کو سنن اربعہ کہتے ہیں۔ گو ان میں ضیعف احادیث موجود ہیں، تاہم صحیح حدیثوں کی کثرت کی وجہ سے اکثر علماء انہیں ”صحاح ستہ“ میں شمار کرتے ہیں۔
جامع:
جس کتاب میں اسلام سے متعلق تمام موضوعات، مثلاً: عقائد، احکام، تفسیر، جنت، دوزخ وغیرہ سے تعلق رکھنے والی احادیث روایت کی گئی ہوں، مثلاً: صحیح بخاری اور جامع ترمذی وغیرہ۔
سنن:
جس کتاب میں صرف عملی احکام سے متعلق احادیث فقہی تبویب و ترتیب پر جمع کی گئی ہوں، مثلاً: سنن ابی داود۔
مسند:
جس کتاب میں ایک صحابی یا متعدد صحابہ کی روایات کو الگ الگ جمع کیا گیا ہو، مثلاً: مسند احمد، مسند حمیدی۔
مستخرج:
جس کتاب میں مصنف کسی دوسری کتاب کی حدیثوں کو اپنی سندوں سے روایت کرے، مثلاً: مستخرج اسماعیلی علیٰ صحیح البخاری۔
مستدرک:
جس کتاب میں مصنف ایسی روایات جمع کرے جو کسی دوسرے مصنف کی شرائط کے مطابق ہوں لیکن اس کی کتاب میں نہ ہوں، مثلاً: مستدرک حاکم۔
معجم:
جس کتاب میں مصنف ایک خاص ترتیب کے ساتھ اپنے ہر استاد کی روایات کو الگ الگ جمع کرے، مثلاً: معجم طبرانی۔
اربعین:
جس کتاب میں کسی ایک یا مختلف موضوعات پر چالیس احادیث جمع کی گئی ہوں، مثلاً: اربعین نووی، اربعین ثنائی وغیرہ۔
جزء:
وہ کتاب جس میں صرف ایک راوی یا ایک موضوع کی روایات جمع کی گئی ہوں، جسے امام بخاری رحمہ اللہ کی ”جزء رفع یدین“ اور ”جزء القراءۃ خلف الامام“ یا امام بیہقی رحمہ اللہ کی ”کتاب القراءۃ خلف الامام“ وغیرہ۔