اصطلاحات حدیث
حدیث:

حدیث کی تعریف:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق راویوں کے ذریعے سے جو کچھ ہم تک پہنچا ہے، وہ حدیث کہلاتا ہے۔ حدیث کو بعض دفعہ سنت، خبر اور اثر بھی کہا جاتا ہے۔


حدیث کی بنیادی اقسام:

قولی:
وہ حدیث جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مذکور ہو ۔



فعلی:
وہ حدیث جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل مذکور ہو ۔



تقریری:
وہ حدیث جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی بات پر خاموش رہنا مذکور ہو۔



شمائل نبوی:
وہ احادیث جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عادات و اخلاق یا بدنی اوصاف مذکور ہوں۔
(نوٹ: کسی حدیث کی اصل عبارت متن کہلاتی ہے۔ متن سے پہلے، راویوں کے سلسلے کو سند کہتے ہیں۔ سند کا کوئی راوی حذف نہ ہو تو وہ متصل ورنہ منقطع ہوتی ہے)۔


نسبت کے اعتبار سے حدیث کی اقسام:

قدسی:
اللہ تعالیٰ کا وہ فرمان جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے روایت کیا ہو، راویوں کے ذریعے سے ہم تک پہنچا ہو اور قرآن مجید میں موجود نہ ہو۔

حدیث قدسی کی ایک اور تعریف: حدیث قدسی وہ حدیث ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمائیں: اللہ تعالى نے فرمایا ہے۔




مرفوع:
وہ حدیث جس میں کسی قول، فعل یا تقریر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا گیا ہو۔




موقوف:
وہ حدیث جس میں کسی قول، فعل یا تقریر کو صحابی کی طرف منسوب کیا گیا ہو۔




مقطوع:
وہ حدیث جس میں کسی قول یا فعل کو تابعی یا تبع تابعی کی طرف منسوب کیا گیا ہو۔



راویوں کی تعداد کے اعتبار سے حدیث کی اقسام:

متواتر:
وہ حدیث جس میں تواتر کی چار شرطیں پائی جائیں:
(‏‏‏‏ا) اسے راویوں کی بڑی تعداد روایت کرے۔
(‏‏‏‏ب) انسانی عقل و عادت ان کے جھوٹا ہونے کو محال سمجھے۔
(‏‏‏‏ج) یہ کثرت عہد نبوت سے لے کر صاحب کتاب محدث کے زمانے تک سند کے ہر طبقے میں پائی جائے۔
(‏‏‏‏د) حدیث کا تعلق انسانی مشاہدے یا سماعت سے ہو۔
نوٹ: راویوں کی جماعت جس نے ایک استاد یا زیادہ اساتذہ سے حدیث کا سماع کیا ہو، طبقہ کہلاتی ہے۔




خبر واحد:
وہ حدیث جس میں متواتر حدیث کی شرطیں جمع نہ ہوں۔
خبر واحد کی چار قسمیں ہیں:
➊ مشھور
➋ مستفیض
➌ عزیز
➍ غریب



مشھور:
وہ حدیث جس کے راویوں کی تعداد ہر طبقے میں دو سے زیادہ ہو مگر یکساں نہ ہو، مثلاً کسی طبقے میں تین، کسی میں چار اور کسی میں پانچ راوی اسے بیان کرتے ہوں۔

مشہور حدیث کی ایک اور تعریف: مشہور حدیث: اس حدیث کو کہتے ہیں جسے روایت کرنے والے راوی ہر طبقہ میں کم از کم تین ہوں۔ تین سے زیادہ رواۃ والی حدیث کو بھی مشہور ہی کہتے ہیں جب تک وہ تواتر کی حد کو نہ پہنچے۔

تنبیہ: خبر کا مشہور ہونا اس کی صحت کی دلیل نہیں ہے۔ بسا اوقات جھوٹی خبریں بھی مشہور ہوتی ہیں۔

تنبیہ ثانی: عام طور پر مشہور روایت ایسی روایت کو سمجھا جاتا ہے جسے اکثر لوگ جانتے ہوں مثلا: علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین جانا پڑے۔




مستفیض:
وہ حدیث جس کے راوی ہر طبقے میں دو سے زیادہ اور یکساں تعداد میں ہوں یا سند کے اول و آخر میں ان کی تعداد یکساں ہو۔



عزیز:
وہ حدیث جس کے راوی کسی طبقے میں صرف دو ہوں۔




غریب:
وہ حدیث جسے بیان کرنے والا کسی زمانے میں صرف ایک راوی ہو۔ اگر وہ صحابی یا تابعی ہے تو اسے غریب مطلق کہیں گے اور اگر کوئی اور راوی ہے تو اسے غریب نسبی کہیں گے۔

نوٹ: مذکورہ بالا اقسام میں سے متواتر حدیث علم الیقین کی حد تک سچی ہوتی ہے۔ باقی اقسام مقبول یا مردود ہو سکتی ہیں۔

غريب حديث کی ایک اور تعریف: غريب حديث وہ ہوتی ہے جس کی سند کے کسی طبقہ ميں صرف ايک راوی رہ جائے۔

تنبیہ: عموما لوگ غریب روایت کو ضعیف سمجھتے ہيں، جبکہ ايسا نہيں ہے بلکہ غریب روایات صحيح بھی ہوتی ہيں اور ضعیف بھی۔



قبول ورَدّ کے اعتبار سے حدیث کی اقسام:

مقبول:
وہ حدیث جو واجب العمل ہو۔



مردود:
وہ حدیث جو مقبول نہ ہو۔


مقبول حدیث کی اقسام و درجات (‏‏‏‏شرائط قبولیت کے اعتبار سے):

صحیح لذاتہ:
وہ حدیث جس میں صحت کی پانچ شرطیں پائی جائیں:
(‏‏‏‏ا) اس کی سند متصل ہو، یعنی ہر راوی نے اسے اپنے استاد سے اخذ کیا ہو۔
(‏‏‏‏ب) اس کا ہر راوی عادل ہو، یعنی کبیرہ گناہوں سے بچتا ہو، صغیرہ گناہوں پر اصرار نہ کرتا ہو، شائستہ طبیعت کا مالک اور بااخلاق ہو۔ وہ کامل الضبط ہو، یعنی حدیث کو تحریر یا حافظے کے ذریعے سے کماحقہ محفوظ کرے اور آگے پہنچائے۔
(‏‏‏‏و) وہ حدیث شاذ نہ ہو۔
(‏‏‏‏ھ) معلول نہ ہو۔
‏‏‏‏شاذ اور معلول کی وضاحت آگے آ رہی ہے۔



صحیح لغیرہ:
جب حسن حدیث کی ایک سے زائد سندیں ہوں تو وہ حسن کے درجے سے ترقی کر کے صحیح کے درجے تک پہنچ جاتی ہے۔ اسے صحیح لغیرہ کہتے ہیں کیونکہ وہ اپنے غیر (‏‏‏‏دوسری سندوں) کی وجہ سے درجہ صحت کو پہنچی۔



حسن لذاتہ:
وہ حدیث جس کے بعض راوی صحیح حدیث کے راویوں کی نسبت: «خفيف الضبط» ‏‏‏‏ہلکے ضبط والے ہوں، باقی شرطیں وہی ہوں۔



حسن لغیرہ:
وہ حدیث جس کی متعدد سندیں ہوں ہر سند میں معمولی ضعف ہو مگر متعدد سندوں سے اس ضعف کی تلافی ہو جائے تو وہ حسن لغیرہ کے درجہ کو پہنچ جاتی ہے۔


صحیح حدیث کی اقسام و درجات (‏‏‏‏کتب حدیث میں پائے جانے کے اعتبار سے):

متفق علیہ:
وہ حدیث جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں میں پائی جائے متفق علیہ کہلاتی ہے اور صحت کے سب سے اعلیٰ درجہ پر ہوتی ہے۔



افراد بخاری:
ہر وہ حدیث جو صحیح بخاری میں پائی جائے، صحیح مسلم میں نہ پائی جائے۔



افراد مسلم:
ہر وہ حدیث جو صحیح مسلم میں پائی جائے، صحیح بخاری میں نہ پائی جائے۔



صحیح علی شرطھما:
وہ حدیث جو صحیح بخاری و صحیح مسلم دونوں میں نہ پائی جائے لیکن دونوں ائمہ کی شرائط کے مطابق صحیح ہو۔



صحیح علی شرط البخاری:
وہ حدیث جو امام بخاری کی شرائط کے مطابق صحیح ہو مگر صحیح بخاری میں موجود نہ ہو۔



صحیح علی شرط مسلم:
وہ حدیث جو امام مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہو مگر صحیح مسلم میں موجود نہ ہو۔



صحیح علی شرط غیرھما:
وہ حدیث جو امام بخاری و امام مسلم کے علاوہ دیگر محدثین کی شرائط کے مطابق صحیح ہو۔


مردود حدیث کی اقسام انقطاع سند کی وجہ سے:

معلق:
وہ حدیث جس کی سند کا ابتدائی حصہ یا ساری سند ہی (‏‏‏‏عمداً) حذف کر دی گئی ہو۔

معلق کی ایک اور تعریف: معلق روايت اسے کہتے ہيں جس ميں مصنف سند کے آغاز سے کچھ راوي ذکر نہ کرے بلکہ سند درميان سے يا آخر سے بيان کرنا شروع کرے يا دوسرے لفظوں ميں جس روايت کي سند کے شروع سے کچھ راويوں کو حذف کر ديا جائے۔




مرسل:
وہ حدیث جسے تابعی بلاواسطہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرے۔

مرسل کی ایک اور تعریف: مرسل حدیث اسے کہتے ہيں جس ميں تابعي ڈائريکٹ نبي کريم صلى اللہ عليہ وسلم سے روايت کرے يعني صحابي کا واسطہ ذکر نہ کرے۔




معضل:
وہ حدیث جس کی سند کے درمیان سے دو یا دو سے زیادہ راوی اکٹھے حذف ہوں۔




منقطع:
وہ حدیث جس کی سند کے درمیان سے ایک یا ایک سے زائد راوی مختلف مقامات سے حذف ہوں۔




مدلس:
وہ حدیث جس کا راوی کسی وجہ سے اپنے استاد یا استاد کے استاد کا نام (‏‏‏‏یا تعارف) چھپائے لیکن سننے والوں کو یہ تاثر دے کہ میں نے ایسا نہیں کیا، سند متصل ہی ہے، حالانکہ اس سند میں راویوں کی ملاقات اور سماع تو ثابت ہوتا ہے مگر متعلقہ روایت کا سماع نہیں ہوتا۔



مرسل خفی:
وہ حدیث جس کا راوی اپنے ایسے ہم عصر سے روایت کرے جس سے اس کی ملاقات ثابت نہ ہو۔



معلول یا معلل:
وہ حدیث جو بظاہر مقبول معلوم ہوتی ہو لیکن اس میں ایسی پوشیدہ علت یا عیب پایا جائے جو اسے غیر مقبول بنا دے۔ ان عیوب و علل کا پتہ چلانا ماہرین فن ہی کا کام ہے۔ ہر شخص کے بس کی بات نہیں۔


مردود حدیث کی اقسام راوی کے عادل نہ ہونے کی وجہ سے:

روایۃ المبتدع:
وہ حدیث جس کا راوی بدعت مکفرہ کا قائل و فاعل ہو لیکن اگر راوی کی بدعت، مکفرہ نہ ہو اور وہ عادل و ضابط بھی ہو تو پھر اس کی روایت معتبر ہو گی یاد رہے بدعت مکفرہ (‏‏‏‏کافر بنانے والی بدعت) سے ارتداد لازم آتا ہے۔



روایۃ الفاسق:
وہ حدیث جس کا راوی کبیرہ گناہوں کا مرتکب ہو لیکن حد کفر کو نہ پہنچے۔



متروک:
وہ حدیث جس کا راوی عام بول چال میں جھوٹ بولتا ہو اور محدثین نے اس کی روایت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہو۔



موضوع:
وہ حدیث جس کے راوی نے کسی موقع پر حدیث کے معاملہ میں جھوٹ بولا ہو، ایسے راوی کی ہر روایت کو موضوع (‏‏‏‏من گھڑت) کہتے ہیں۔


مردود حدیث کی اقسام راوی کے ضابط نہ ہونے کی وجہ سے:

مصحف:
وہ حدیث جس کے کسی لفظ کی ظاہری شکل تو درست ہو مگر نقطوں، حرکات یا سکون وغیرہ کے بدلنے سے اس کا تلفظ بدل گیا ہو۔



مقلوب:
وہ حدیث جس کے الفاظ میں راوی کی بھول سے تقدیم و تاخیر واقع ہو گئی ہو یا سند میں ایک راوی کی جگہ دوسرا راوی رکھا گیا ہو۔



مدرج:
وہ حدیث جس میں کسی جگہ راوی کا اپنا کلام عمداً یا سہواً درج ہو جائے اور اس پر الفاظ حدیث ہونے کا شبہ ہوتا ہو۔



المزید فی متصل الاسانید:
جب دو راوی ایک ہی سند بیان کریں، ان میں ایک ثقہ اور دوسرا زیادہ ثقہ ہو۔ اگر ثقہ راوی اس سند میں ایک راوی کا اضافہ بیان کرے تو اس کی روایت کو «مزيد فى متصل الاسانيد» کہتے ہیں۔



شاذ:
وہ حدیث جس کا راوی مقبول (‏‏‏‏ثقہ یا صدوق) ہو اور بیان حدیث میں اپنے سے زیادہ ثقہ یا اپنے جیسے بہت سے ثقہ راویوں کی مخالفت کرے (‏‏‏‏شاذ کے بالمقابل حدیث کو محفوظ کہتے ہیں)۔



منکر:
وہ حدیث جس کا راوی ضیعف ہو اور بیان حدیث میں ایک یا زیادہ ثقہ راویوں کی مخالفت کرے (‏‏‏‏منکر کے بالمقابل حدیث کو معروف کہتے ہیں)۔



روایۃ سی الحفظ:
وہ حدیث جس کا راوی «سي الحفظ»، یعنی پیدائشی طور پر کمزور حافظے والا ہو۔



روایۃ کثیر الغفلۃ:
وہ حدیث جس کا راوی شدید غفلت یا کثیر غلطیوں کا مرتکب ہو۔



روایۃ فاحش الغلط:
وہ حدیث جس کے راوی سے فاش قسم کی غلطیاں سرزد ہوں۔



رویۃ المختلط:
وہ حدیث جس کا راوی بڑھاپے یا کسی حادثے کی وجہ سے یادداشت کھو بیٹھے یا اس کی تحریر کردہ احادیث ضائع ہو جائیں۔



مضطرب:
وہ حدیث جس کی سند یا متن میں راویوں کا ایسا اختلاف واقع ہو جو حل نہ ہو سکے۔


مردود حدیث کی اقسام راوی کے مجہول ہونے کی وجہ سے:

روایۃ مجھول العین:
وہ حدیث جس کا راوی مجہول العین ہو، یعنی اس کے متعلق ائمہ فن کا کوئی ایسا تبصرہ نہ ملتا ہو جس سے اس کے ثقہ یا ضعیف ہونے کا پتہ چل سکے اور اس سے روایت کرنے والا بھی صرف ایک ہی شاگرد ہو جس کے باعث اس کی شخصیت مجہول ٹھہرتی ہو۔



روایۃ مجھول الحال:
وہ حدیث جس کا راوی مجہول الحال ہو، یعنی اس کے متعلق ائمہ فن کا کوئی تبصرہ نہ ملتا ہو اور اس روایت کرنے والے کل دو آدمی ہوں جس کے باعث اس کی شخصیت معلوم اور حالت مجہول ٹھہرتی ہو۔ ایسے راوی کو مستور بھی کہتے ہیں۔



مبھم:
وہ حدیث جس کی سند میں کسی راوی کے نام کی صراحت نہ ہو۔


چند مزید اصطلاحات:

عدل:
یعنی حدیث کو روایت کرنے والے تمام لوگ دیانت دار اورسچے ہوں، اس کا فیصلہ دیگر ناقدین کے اقوال کو سامنے رکھتے ہوئے کیاجاتا ہے۔



ضبط:
یعنی حدیث کو روایت کرنے والے تمام لوگ مضبوط حافظہ کے مالک ہوں۔

تنبیہ: متاخرین نے قوت حفظ میں تفاوت کا اعتبار کرتے ہوئے تام الضبط کی بنسبت کم تر ضبط والے روای کی منفرد مرویات کے لئے حسن کی اصطلاح بنائی ہے لیکن متقدمین ضبط میں یہ تفریق نہیں کرتے تھے بلکہ ہر ضابط کی روایت کو وہ صحیح ہی کہتے تھے، اور متقدمین میں بعض نے جن احادیث کو حسن کہا ہے تو وہ اصطلاحی معنی میں نہیں ہے۔ بعض حضرات بہت بڑی غلط فہمی کے شکار ہو گئے ہیں اور یہ سمجھ لیا کہ متقدمین حسن حدیث کو بھی حجت نہیں سمجھتے تھے لیکن ایسا موقف متقدمین میں کسی ایک سے بھی ثابت نہیں دراصل متقدمین حسن کی اصطلاح استعمال ہی نہیں کرتے تھے بلکہ متاخرین کی اصطلاح میں جوروایت حسن بنتی ہے متقدمین اسے بھی صحیح ہی کہتے تھے۔



اتصال السند:
اس کا مطلب یہ ہے کہ حدیث کو روایت کرنے والے تمام لوگوں نے جس سے حدیث نقل کی ہے اس سے ان لوگوں نے اس حدیث کو براہ راست اخذ کیا ہو۔


کتب احادیث کی اقسام:

کتب صحاح:
ہر وہ کتاب جس کے موَلّف نے اپنی کتاب میں صحیح روایات لانے کا التزام کیا ہو اور صحیح کے لفظ کو کتاب کے نام کا حصہ بنایا ہو۔ ایسی کتاب کی روایات کم از کم اس کے موَلّف کے نزدیک صحیح ہوتی ہیں۔ اور اگر وہ خود ہی کسی حدیث کی علت بیان کر دے تو اس سے اس کتاب کے صحیح ہونے پر حرف نہیں آتا۔



صحاح ستہ:
حدیث کی چھ کتب صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابوداؤد، سنن نسائی، جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ صحاح ستہ کہلاتی ہیں۔ انہیں اصول ستہ یا کتب ستہ بھی کہا جاتا ہے۔

پہلی دو کتابیں (صحیح بخاری، صحیح مسلم) صحیحین کہلاتی ہیں اور یہ صرف اپنے مؤلَّفین کے نزدیک ہی صحیح نہیں ہیں بلکہ پوری امت کے نزدیک صحت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہیں۔ ان پر اعتراض برائے اعتراض کرنے والا شخص، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کے بقول، اجماع امت کا مخالف اور بدعتی ہے۔

جبکہ آخری چار کتابوں (سنن ابوداؤد، سنن نسائی، جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ) کو سنن اربعہ کہتے ہیں۔ گو ان میں ضیعف احادیث موجود ہیں، تاہم صحیح حدیثوں کی کثرت کی وجہ سے اکثر علماء انہیں صحاح ستہ میں شمار کرتے ہیں۔



جامع:
جس کتاب میں اسلام سے متعلق تمام موضوعات، مثلاً: عقائد، احکام، تفسیر، جنت، دوزخ وغیرہ سے تعلق رکھنے والی احادیث روایت کی گئی ہوں، مثلاً: صحیح بخاری اور جامع ترمذی وغیرہ۔



سنن:
جس کتاب میں صرف عملی احکام سے متعلق احادیث فقہی تبویب و ترتیب پر جمع کی گئی ہوں، مثلاً: سنن ابی داود۔



مسند:
جس کتاب میں ایک صحابی یا متعدد صحابہ کی روایات کو الگ الگ جمع کیا گیا ہو، مثلاً: مسند احمد، مسند حمیدی۔



مستخرج:
جس کتاب میں مصنف کسی دوسری کتاب کی حدیثوں کو اپنی سندوں سے روایت کرے، مثلاً: مستخرج اسماعیلی علیٰ صحیح البخاری۔



مستدرک:
جس کتاب میں مصنف ایسی روایات جمع کرے جو کسی دوسرے مصنف کی شرائط کے مطابق ہوں لیکن اس کی کتاب میں نہ ہوں، مثلاً: مستدرک حاکم۔



معجم:
جس کتاب میں مصنف ایک خاص ترتیب کے ساتھ اپنے ہر استاد کی روایات کو الگ الگ جمع کرے، مثلاً: معجم طبرانی۔



اربعین:
جس کتاب میں کسی ایک یا مختلف موضوعات پر چالیس احادیث جمع کی گئی ہوں، مثلاً: اربعین نووی، اربعین ثنائی وغیرہ۔



جزء:
وہ کتاب جس میں صرف ایک راوی یا ایک موضوع کی روایات جمع کی گئی ہوں، جسے امام بخاری رحمہ اللہ کی جزء رفع یدین اور جزء القراءۃ خلف الامام یا امام بیہقی رحمہ اللہ کی کتاب القراءۃ خلف الامام وغیرہ۔