● جامع الترمذي | لا بأس به بالقيمة «سنن ابی داود/ البیوع 14 (3354) ، سنن النسائی/البیوع 50 (4586) ، سنن ابن ماجہ/التجارات 51 (2262) ، ( تحفة الأشراف : 7053) ، مسند احمد (2/33، 59، 99، 101، 139) (ضعیف) (اس کے راوی ’’ سماک ‘‘ اخیر عمر میں مختلط ہو گئے تھے اور تلقین کو قبول کرتے تھے، ان کے ثقہ ساتھیوں نے اس کو ابن عمر رضی الله عنہما پر موقوف کیا ہے)» |
● سنن أبي داود | لا بأس أن تأخذها بسعر يومها ما لم تفترقا وبينكما شيء « سنن الترمذی/البیوع 24 (1242)، سنن النسائی/البیوع 48 (4586)، سنن ابن ماجہ/التجارات 51 (2262)، (تحفة الأشراف: 7053)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/33، 59، 89، 101، 139)، سنن الدارمی/البیوع 43 (2623) (ضعیف) » (اس کے راوی سماک مختلط ہوگئے تھے اور تلقین کو قبول کر لیتے تھے، ان کے ثقہ ساتھیوں نے اس کو ابن عمر رضی اللہ عنہما پر ہی موقوف کردیا ہے ) قال الشيخ زبير علي زئي: إسناده حسن¤ مشكوة المصابيح (2871)¤ أخرجه الترمذي (1242 وسنده حسن) والنسائي (4586 وسنده حسن) |
● سنن ابن ماجه | إذا أخذت أحدهما وأعطيت الآخر فلا تفارق صاحبك وبينك وبينه لبس « سنن ابی داود/البیوع 14 ( 3354 ، 3355 ) ، سنن الترمذی/البیوع 24 ( 1242 ) ، سنن النسائی/البیوع 48 ( 4586 ) ، ( تحفة الأشراف : 7053 ) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( 2/33 ، 59 ، 89 ، 101 ، 139 ، 154 ) ، سنن الدارمی/البیوع 43 ( 2623 ) ( ضعیف ) » ( سماک بن حرب کے حفظ میں آخری عمر میں تبدیلی واقع ہو گئی تھی ، اور کبھی رایوں کی تلقین قبول کر لیتے تھے اس لئے ضعیف ہیں ، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : 132 ) قال الشيخ زبير علي زئي: حسن |
● بلوغ المرام | لا بأس أن تأخذها بسعر يومها ما لم تتفرقا وبينكما شيء «أخرجه أبوداود، البيوع، باب في اقتضاء الذهب من الورق، حديث:3354، والترمذي، البيوع، حديث:1242، والنسائي، البيوع، حديث:4586، وابن ماجه، التجارات، حديث: 2262، وأحمد:2 /139، والحاكم:2 /44.» |