تخریج الحدیث صحیح بخاری حدیث نمبر 5093 کی تخریج
اپنا مطلوبہ لفظ تلاش کیجئیے۔
   صحيح البخاريفي الدار والمرأة والفرس
«أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
   صحيح البخاريفي المرأة والدار والفرس
«أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
   صحيح البخاريإنما الشؤم في ثلاثة في الفرس والمرأة والدار
«أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
   صحيح مسلمالشؤم في شيء ففي الفرس والمسكن والمرأة
«أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
   صحيح مسلمالشؤم في الدار والمرأة والفرس
«أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
   صحيح مسلمإن يكن من الشؤم شيء حق ففي الفرس والمرأة والدار
«أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
   جامع الترمذيالشؤم في ثلاثة في المرأة والمسكن والدابة
«صحیح البخاری/الجھاد 47 (2858) ، والنکاح 17 (5093، 5094) ، والطب 43 (5753) ، صحیح مسلم/السلام 34 (2255) ، سنن النسائی/الخیل 5 (3571) ، ( تحفة الأشراف : 6699، 6826) ، موطا امام مالک/الاستئذان 8 (22) ، و مسند احمد (2/8، 36، 115، 126) (صحیح) (اس روایت میں ’’ الشؤم في … ‘‘ کا لفظ شاذ ہے، صحیحین کے وہ الفاظ صحیح ہیں جو یہ ہیں ’’ إن كان الشؤم ففي … ‘‘ یعنی اگر نحوست کا وجود ہوتا تو ان تین چیزوں میں ہوتا، الصحیحة 443، 799، 1897)»
   سنن أبي داودالشؤم في الدار والمرأة والفرس
« صحیح البخاری/الجھاد 47 (2858)، النکاح 17 (5093)، الطب 43 (5753)، 54 (5772)، صحیح مسلم/السلام 34 (2225)، سنن الترمذی/الأدب 58 (2824)، سنن النسائی/الخیل 4 (3599)، سنن ابن ماجہ/النکاح 55 (1995)، (تحفة الأشراف: 6864، 18276، 6699)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الاستئذان 8 (22)، مسند احمد (2/8، 36، 115، 126) (صحیح) » (اس حدیث میں «الشؤم» کا لفظ آیا ہے، اور بعض روایتوں میں «إنما الشؤم» ہے جبکہ صحیحین وغیرہ میں ابن عمر سے «إن کان الشؤم» ثابت ہے، جس کے شواہد سعد بن أبی وقاص (کما تقدم: 3921)، سہل بن سعد (صحیح البخاری/5095)، وجابر (صحیح مسلم/2227) کی احادیث میں ہیں، اس لئے بعض اہل علم نے پہلے لفظ کو شاذ قرار دیا ہے، (ملاحظہ ہو: الصحیحة: 799، 789، 1857)۔
قال الشيخ زبير علي زئي:
صحيح بخاري (5093) صحيح مسلم (2225)
   سنن النسائى الصغرىالشؤم في ثلاثة المرأة والفرس والدار
«صحیح مسلم/السلام 34 (2225)، سنن الترمذی/الأدب 58 (2824)، (تحفة الأشراف: 6826)، مسند احمد (2/8، 36، 115، 126) (صحیح) (اس حدیث میں ’’الشؤم‘‘ کا لفظ آیا ہے اور بعض روایتوں میں إنما الشؤم ہے جو (شاذ) ہے اور محفوظ ’’إن کان الشؤم‘‘ کا لفظ ہے جیسا کہ صحیحین وغیرہ میں ابن عمر سے ’’إن کان الشؤم‘‘ لفظ ثابت ہے، جس کے شواہد جابر (صحیح مسلم/2227 ونسائی 3600) سعد بن أبی وقاص (سنن ابی داود: 3921 ومسند أحمد 1/180، 186)، اور سہل بن سعد (صحیح البخاری/5095)، کی احادیث میں ہیں، اس لئے بعض اہل علم نے پہلے لفظ کو شاذ قرار دیا ہے، (ملاحظہ ہو: الفتح 6/60-63) وسلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 799، 789، 1857)۔ اب جب کہ عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کی یہی روایت صحیح مسلم میں کئی سندوں سے اس طرح ہے: ’’ اگر نحوست کسی چیز میں ہوتی تو ان تین چیزوں میں ہوتی‘‘ اور یہی مطلب اس عام روایت کا بھی ہے، اس کی وضاحت سعد بن مالک کی روایت میں ہے، اور وہ جو سنن ابی داود (3924) میں انس بن مالک رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم ایک گھر میں تھے تو اس میں ہمارے لو گوں کی تعداد بھی زیادہ تھی اور ہمارے پاس مال بھی زیادہ رہتا تھا پھر ہم ایک دوسرے گھر میں آ گئے تو اس میں ہماری تعداد بھی کم ہو گئی اور ہمارا مال بھی گھٹ گیا، اس پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسے چھوڑ دو، مذموم حالت میں‘‘ تو اس گھر کو چھوڑ دینے کا حکم آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس لئے دیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کا عقیدہ خراب ہو جائے، اور وہ گھر ہی کو مؤثر سمجھنے لگ جائیں اور شرک میں پڑ جائیں، اور یہ حکم ایسے ہی ہے جیسے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے احتیاطا کوڑھی سے دور بھاگنے کا حکم دیا، حالانکہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے خود فرمایا ہے: ’’چھوت کی کوئی حقیقت نہیں ہے‘‘۔»
قال الشيخ زبير علي زئي:
متفق عليه
   سنن النسائى الصغرىالشؤم في الدار والمرأة والفرس
«صحیح البخاری/النکاح 18 (5093)، الطب 54 (5772)، صحیح مسلم/السلام 34 (2225)، سنن ابی داود/الطب 24 (3922)، سنن الترمذی/الأدب 58 (2824)، (تحفة الأشراف: 6699)، موطا امام مالک/الاستئذان 8 (22)، مسند احمد (2/26، 115، 126، 136) (صحیح) (جیسا کہ اوپر گزرا الشؤم اور إنماالشؤم کا لفظ شاذ ہے، اور خود صحیحین میں إن کان الشؤم کی روایت موجود ہے تو شواہد کی بنا پر یہی لفظ محفوظ ہوگا اور علماء نے یہ بات لکھی ہے کہ امام بخاری طرق حدیث کے ذکر میں راجح روایت کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جس کے لیے یہ مثال کافی ہے، نیز ملاحظہ ہو اس کے بعد کی حدیث حاشیہ)»
قال الشيخ زبير علي زئي:
متفق عليه
   سنن ابن ماجهالشؤم في ثلاث في الفرس والمرأة والدار
« حدیث عبد اللہ بن عمر أخرجہ : صحیح مسلم/الطب 34 ( 2225 ) ، ( تحفة الأشراف : 6864 ) ، وحدیث أم سلمةٰ ، تفرد بہ ابن ماجہ ، ( تحفة الأشراف : 18276 ) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجہاد 47 ( 2858 ) ، النکاح 17 ( 5093 ) ، الطب 43 ( 5753 ) ، سنن ابی داود/الطب 24 ( 3922 ) ، سنن النسائی/الخیل 5 ( 3599 ) ، سنن الترمذی/الادب 58 ( 2824 ) ، موطا امام مالک/الإستئذان 8 ( 22 ) ، مسند احمد ( 2/8 ، 36 ، 115 ، 126 ) ( صحیح ) »
قال الشيخ زبير علي زئي:
بخاري ومسلم
   موطا امام مالك رواية ابن القاسمالشؤم فى الدار والمراة والفرس
«61- متفق عليه ، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 972/2 ح 1883 ، ك 54 ب 8 ح 22) التمهيد 278/9 ، الاستذكار : 1819 ، و أخرجه البخاري (5093) ومسلم (2225) من حديث مالك به.»
قال الشيخ زبير علي زئي:
صحيح
   مسندالحميديما سمعت الزهري ذكر في هذا الحديث حمزة قط
«إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2099، 2858، 5093، 5094، 5753، 5772، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2225، ومالك فى «الموطأ» برقم: 3566 ، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3570 ، 3571 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3922، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2824 م 1، 2824 م 2، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 86، 1995، 3540، والبيهقي فى«سننه الكبير» برقم: 10849، 10850، 14346، 16620، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 4633»
   مسندالحميديدعها رضينا بقضاء رسول الله صلى الله عليه وسلم لا عدوى
«إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2099، 2858، 5093، 5094، 5753، 5772، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2225، ومالك فى «الموطأ» برقم: 3566، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3570، 3571، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3922، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2824 م 1، 2824 م 2، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 86، 1995، 3540، والبيهقي فى«سننه الكبير»برقم: 10849، 10850، 14346، 16620، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 4633 برقم: 4867 برقم: 5022»