اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات اور دن میں فرشتوں کی ڈیوٹیاں بدلتی رہتی ہیں، اور فجر اور عصر کی نمازوں میں (ڈیوٹی پر آنے والوں اور رخصت پانے والوں کا) اجتماع ہوتا ہے۔ پھر تمہارے پاس رہنے والے فرشتے جب اوپر چڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے، حالانکہ وہ ان سے بہت زیادہ اپنے بندوں کے متعلق جانتا ہے، کہ میرے بندوں کو تم نے کس حال میں چھوڑا؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم نے جب انہیں چھوڑا تو وہ (فجر کی) نماز پڑھ رہے تھے اور جب ان کے پاس گئے، تب بھی وہ (عصر کی) نماز پڑھ رہے تھے۔“[صحيفه همام بن منبه/متفرق/حدیث: 8]
تخریج الحدیث: «صحيح مسلم، كتاب المساجد، باب فضل صلاتي الصبح والعصر والمحافظة عليهما، رقم: 632، حدثنا محمد بن رافع: حدثنا عبدالرزاق: حدثنا معمر، عن همام بن منبه، عن أبى هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم .... - صحيح بخاري، كتاب مواقيت الصلاة، رقم: 555 - شرح السنة: 227/2 - صحيح ابن حبان، رقم: 1727 - مؤطا، ص: 132، كتاب قصر الصلاة فى السفر، باب جامع الصلاة.»
صحیفہ ہمام بن منبہ کی حدیث نمبر 8 کے فوائد و مسائل
حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه 8
شرح الحدیث: مذکورہ حدیث سے درج ذیل مسائل اخذ کیے جا سکتے ہیں: 1) نماز سب عبادات سے افضل عبادت ہے، اس لیے تو اس پر سوال و جواب ہوئے ہیں۔ 2) اس حدیث سے نمازِ فجر اور نمازِ عصر کی خاص فضیلت ثابت ہوتی ہے، کیونکہ دونوں نمازوں کے اوقات میں ان فرشتوں کی آمدورفت اور باہمی ملاقات ہوتی ہے۔ اور احادیث میں یہ بھی آیا ہے کہ رزق صبح کی نماز کے بعد تقسیم کیا جاتا ہے، اور اعمال دن کے آخری حصہ میں بارگاہ الہی میں پیش ہوتے ہیں، تو جو شخص ان اوقات میں نماز اور الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت میں وقت گزارے گا تو اس کے رزق اور عمل میں برکت ڈال دی جائے گی۔ 3) اس حدیث میں امت محمدیہ کے شرف کا ذکر ہے، اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم کا مرتبہ بھی دوسرے انبیاء سے بلند ہے۔ 4) اس حدیث میں فرشتوں کا جواب بھی مذکور ہے، اور یہ جواب ان ہی نیک بندوں کے لیے ہوگا جو نماز کی پابندی کرتے ہیں، اور جن لوگوں نے نماز کو پابندی کے ساتھ ادا ہی نہیں کیا، الله کے دربار میں فرشتے ان کے بارے میں کیا کہہ سکیں گے۔ ان فرشتوں سے مراد "کراماً کاتبین" ہیں۔ جو آدمی کی محافظت کرتے ہیں، صبح شام ان کی بدلی ہوتی رہتی ہے۔ قرطبی رحمة الله عليه نے کہا: یہ دو فرشتے ہیں اور پروردگار جو سب کچھ جاننے والا ہے، اس کا ان سے پوچھنا ان کے قائل کرنے کے لیے ہے، جو انہوں نے آدم علیہ السلام کی پیدائش کے وقت کہا تھا کہ آدمی زاد زمین میں خون اور فساد کریں گے: «أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ»[البقرة: 30] "کیا تو زمین پر ایسی مخلوق بھیج رہا ہے جو زمین پر فساد اور قتل و غارت کرے گی۔ " تو جواب میں الله نے کہا کہ: «إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ»[البقره: 30] "یقینا جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے ہو." 5) یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ الله تعالیٰ فرشتوں سے کلام کرتا ہے۔ 6) اس حدیث میں نماز عصر کی پابندی کرنے پر ترغیب ہے، کیونکہ نمازِ فجر کی طرح یہ نماز اس وقت میں ہے جب لوگ آرام کرنے میں مشغول ہوتے ہیں، اور نماز کے لیے بیدار ہونا بڑا بھاری ہوتا ہے۔ نمازِ عصر کے متعلق فرمان باری تعالیٰ ہے: «حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ»[البقرة: 238] "نمازوں پر محافظت کرو، اور خاص طور پر درمیانی نماز پر۔ " اور یہ بات واضح ہے کہ نماز عصر ہی درمیانی نماز ہے. ایک حدیث میں آتا ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: «الذى تفوته صلاة العصر كانما وتر اهله وماله»[صحيح بخاري، كتاب مواقيت الصلاة، رقم: 552] "جس کی نماز عصر چھوٹ گئی گویا اس کا گھر اور مال سب لُٹ گیا."
صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث/صفحہ نمبر: 8