اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب نماز کے لیے (اذان) ہوتی ہے، تو شیطان پیٹھ پھیر کر گوز مارتا ہوا بھاگ نکلتا ہے، جس سے اسے اذان کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ جب ندائے صلٰوۃ اختتام کو پہنچ جاتی ہے، تو پھر وہ لوٹ آتا ہے۔ اس کے بعد جب نماز کے لیے تکبیر کہی جاتی ہے، تو پھر وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا ہے اور جب تکبیر اختتام کو پہنچ جاتی ہے۔ تو (وہ) نمازی کے دل میں کھٹکا ڈالتا ہے اور کہتا ہے کہ فلاں بات یاد کر، فلاں واقع یاد کر، جو اس سے پہلے اس کو یاد نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ نمازی کو یہ یاد نہیں رہتا، اس نے کتنی (رکعات) نماز پڑھی ہے۔“[صحيفه همام بن منبه/متفرق/حدیث: 27]
تخریج الحدیث: «صحيح بخاري، كتاب الأذان، رقم: 608، كتاب العمل فى الصلاة، رقم: 1223 - صحيح مسلم، كتاب الصلوٰة، باب فضل الأذان وهرب الشيطان عند سماعه، حدثنا محمد بن رافع: حدثنا عبدالرزاق: حدثنا معمر عن همام بن منبه، عن أبى هريرة رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم .... - سنن نسائي، رقم: 670 - صحيح سنن أبو داؤد، رقم: 529 - سلسلة الصحيحة، رقم: 52.»
صحیفہ ہمام بن منبہ کی حدیث نمبر 27 کے فوائد و مسائل
حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه 27
شرح الحديث: شیطان گوز مارتے ہوئے پشت پھیر کر بھاگ نکلتا ہے: شیطان پر یہ کیفیت تب قائم ہوتی ہے جب اسے اذان کی آواز پہنچتی ہے، کیونکہ اذان دراصل الله کی وحدانیت اور ایمان کی ندا ہے، جو الله تعالیٰ کو بہت زیادہ محبوب ہے۔ علاوہ ازیں الله تعالیٰ کے فرمانبردار بندے اذان کی آواز سنتے ہی فریضۂ نماز ادا کرنے کے لیے مسجد کی طرف دوڑتے ہیں۔ اور وہاں جا کر الله کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں، جس سے شیطان کو مقصد حاصل نہیں ہوتا، اس لیے کہ وہ خود سجدہ کرنے سے انکاری ہوا تھا۔ اب جبکہ لوگوں کو سجدہ کرنے کے لیے آواز لگائی جاتی ہے، تو اس منظر کو دیکھ کر شیطان سخت تکلیف میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: «إِذَا قَرَأَ ابْنُ آدَمَ السَّجْدَةَ فَسَجَدَ، اعْتَزَلَ الشَّيْطَانُ يَبْكِي، يَقُولُ: يَا وَيْلَهُ، وَفِي رِوَايَةِ أَبِي كُرَيْبٍ: يَا وَيْلِي، أُمِرَ ابْنُ آدَمَ بِالسُّجُودِ فَسَجَدَ، فَلَهُ الْجَنَّةُ، وَأُمِرْتُ بِالسُّجُودِ فَأَبَيْتُ فَلِي النَّارُ»[صحيح مسلم، كتاب الإيمان، رقم: 244] ”جب آدمی سجدہ کی آیت پڑھتا ہے پھر سجدہ کرتا ہے تو شیطان روتا ہوا ایک طرف چلا جاتا ہے اور کہتا ہے خرابی ہو اس کی یا میری، آدمی کو سجدہ کا حکم ہوا اور اس نے سجدہ کیا، اب اس کو جنت ملے گی اور مجھے سجدہ کا حکم ہوا، میں نے انکار کیا یا نافرمانی کی میرے لئے جہنم ہے۔“
یہاں تک کہ جب نماز کے لیے تکبیر کہی جاتی ہے تو ........: متنِ حدیث میں لفظ "تثویب" استعمال ہوا ہے۔ جو کئی معانی پر مشتمل ہے۔ 1- اذان کے بعد مسجد میں کھڑے ہوکر نماز کی طرف بلانا کہ فریضۂ نماز ادا کرنے آجاؤ، نماز کا وقت ہوگیا ہے۔ 2- اقامت (تکبیر) کو بھی تثویب کہتے ہیں۔ 3- اذانِ فجر میں «اَلصَّلٰوةُ خَيْرٌ مِّنَ النَّوْمْ» کے کلمات کو بھی تثویب کہتے ہیں۔ تثویب کی پہلی صورت کہ اذان کے بعد مسجد میں دوبارہ لوگوں کو فریضۂ نماز ادا کرنے کے لیے بلایا جائے۔ یہ صورت غیر مشروع ہے۔ جیسا کہ عبدالله بن عمر رضی الله عنہ کا مشہور واقعہ ہے کہ "آپ رضی الله عنہ نے ایک مرتبہ مذکورہ کام یعنی تثویب دیکھا۔ تو اپنے شاگرد مجاہد سے فرمایا: مجھے ان اہل بدعت کی مسجد سے واپس لے چلو۔ " [سنن أبو داؤد، باب فى التثويب، رقم: 538] - البانی رحمه الله نے اسے "حسن" کہا ہے۔ البتہ تثویب کی بقیہ دو صورتیں مشروع اور جائز ہیں، کیونکہ یہ دونوں حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔
تثویب کا اصل معنی: تثویب کے اصل معنیٰ دوبارہ لوٹنے کے ہیں۔ تینوں صورتوں میں اذان دینے کے بعد دوبارہ ادائیگی نماز کے لیے بلایا جا رہا ہے۔ اور «اَلصَّلٰوةُ خَيْرٌ مِّنَ النَّوْمْ» بھی «حَيَّ عَلٰى الصَّلوةِ» اور «حَيَّ عَلٰى الْفَلَاح» کے بعد کہا جاتا ہے۔ ان کلمات اور ان کے بعد «اَلصَّلٰوةُ خَيْرٌ مِّنَ النَّوْمْ» کہہ کر بھی ادائیگی نماز کے لیے بلایا جاتا ہے۔ حدیث الباب میں تثویب سے مراد اقامت ہے۔ اس لیے کہ پوری اذان تک ابلیس کی وہی کیفیت رہتی ہے۔ پھر دوبارہ جب فریضۂ نماز کی ادائیگی کے لیے بلایا جاتا ہے، یعنی اقامت کہی جاتی ہے، تو ابلیس ایک مرتبہ پھر پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلتا ہے۔ تفصیل ملاحظہ فرمائیں: [سنن ترمذي، باب فى التثويب فى الفجر، رقم: 198]
دل میں کھٹکا پیدا کرتا اور وسوسے ڈالتا ہے: اس جملہ سے مقصود یہ ہے کہ ابلیس شیطان نمازی کے دل میں دورانِ نماز، اس کے خشوع کو ختم کرنے کے لیے کھٹکا مکمل ڈال دیتا ہے۔ اسی وجہ سے بے شمار احادیث میں مکمل توجہ کے ساتھ نماز ادا کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، تاکہ الله کا بندہ نماز کو ظاہر و باطن دونوں طرح سے خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرے۔ علامہ عینی رحمه الله فرماتے ہیں: اس حدیث سے اذان کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، لیکن ابلیس کے لیے یہ اذان ایسی خطرناک چیز ہے، جس سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے وہ کوسوں دور بھاگتا ہے۔ [عمدة القاري: 273/4] ایک حدیث میں نبی اکرم صلی الله علیه وسلم نے ارشاد فرمایا: «إِنَّ الشَّيْطَانَ إِذَا سَمِعَ النِّدَاءَ بِالصَّلَاةِ، ذَهَبَ حَتَّى يَكُونَ مَكَانَ الرَّوْحَاءِ» ”یقیناً جب شیطان اذان سنتا ہے، تو اتنا دور بھاگ جاتا ہے جتنا یہاں سے مقام "روحاء" ہے۔“ سیدنا ابو سفیان رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ "مقام روحاء" مدینہ منورہ سے 36 میل (56 کلو میٹر تقریباً) کے فاصلے پر ہے۔ [صحيح مسلم، كتاب الصلوٰة، رقم: 854]
صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث/صفحہ نمبر: 27