اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک تم میں مال کی کثرت نہ ہو جائے، پس وہ بہہ پڑے گا، یہاں تک کہ مالدار کو اس بات کی فکر ہو گی کہ میری زکوٰۃ مجھ سے کون قبول کرے گا“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور علم اٹھا لیا جائے گا، اور زمانہ (قیامت سے) قریب ہو جائے گا، اور فتنے ظاہر ہوں گے اور ہرج کثرت سے ہو گا“، لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! (ہرج) کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قتل و غارت، قتل و غارت۔“[صحيفه همام بن منبه/متفرق/حدیث: 23]
تخریج الحدیث: «صحيح بخاري، كتاب الزكاة، رقم: 1412، وكتاب الفتن، رقم: 7061 - صحيح مسلم، كتاب الزكاة، رقم: 2339، 2340 - مسند أحمد: 40/16، رقم: 21/8120، 22، حدثنا عبدالرزاق بن همام: حدثنا معمر عن همام بن منبه، قال: هذا ما حدثنا به أبو هريرة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم .... - شرح السنة: 38/15، 39.»
صحیفہ ہمام بن منبہ کی حدیث نمبر 23 کے فوائد و مسائل
حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه 23
شرح الحديث: مذكوره حديث میں قیامت کی چند نشانیوں کا بیان ہے:
مال کی کثرت: مال کی کثرت ہو جائے گی، پس وہ بہہ پڑے گا، یہاں تک کہ مال دار کو اس بات کی فکر ہوگی کہ میری زکوٰة مجھ سے کون قبول کرے گا۔ وہ تلاش کرے گا لیکن اسے صدقہ و زکوٰة لینے والا محتاج نہ ملے گا۔
علم اٹھا لیا جائے گا: ایسا نہیں ہوگا کہ لوگوں کے سینوں سے علم کو کھینچ لیا جائے یا کتابیں ختم ہو جائیں، بلکہ علم کے اٹھائے جانے سے مراد علماء کا اٹھ جانا اور ان کا فوت ہو جانا ہے، جیسا کہ عبدالله بن عمرو بن العاص رضی الله عنہ کی حدیث میں ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: «إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ النَّاسِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يَتْرُكْ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا .»[صحيح مسلم، كتاب العلم، رقم: 6796] ”الله تعالیٰ اس طرح پر علم نہ اٹھائے گا کہ لوگوں کے دلوں سے چھین لے لیکن اس طرح اٹھائے گا کہ عالموں کو اٹھا لے گا یہاں تک کہ جب کوئی عالم نہ رہے گا تو لوگ اپنے سردار جاہلوں کو بنا لیں گے وہ بن جانے فتویٰ دیں گے اور خود گمراہ ہوں گے اور اوروں کو بھی گمراہ کریں گے۔“
زمانہ قریب ہوجائے گا: یعنی لوگ عیش و عشرت اور غفلت میں پڑ جائیں گے، ان کا ایک سال گزرے گا جیسے ایک ماہ، ایک ماہ ایسے جیسے ایک ہفتہ، ایک ہفتہ ایسے جیسے ایک دن۔ جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "قیامت قائم نہیں ہوگی۔ یہاں تک کہ وقت جلدی جلدی گزرنے لگے۔ سال مہینے کی طرح، مہینہ ہفتے کی طرح، ہفتہ دن کی طرح، دن ساعت (گھنٹہ) کی طرح اور ایک ساعت کھجور کی شاخ کے خشک پتوں کے جلنے (کے وقت) کی طرح گزر جائے گا۔ " [الاحسان بترتيب صحيح ابن حبان، كتاب التاريخ: 297/9، رقم: 6803] یا یہ مراد کہ دن رات برابر ہو جائیں گے یا دن رات چھوٹے ہو جائیں گے، گویا یہ بھی قیامت کی ایک نشانی ہے، یا شر اور فساد نزدیک آ جائے گا کہ کوئی الله الله کہنے والا نہ رہے گا، یا دولت اور حکومتیں جلد جلد بدلنے اور مٹنے لگیں گی۔ یا عمریں چھوٹی ہو جائیں گی، یا زمانہ سے برکت جاتی رہے گی، جو کام اگلے لوگ ایک ماہ میں کرتے تھے وہ ایک سال میں بھی پورا نہ ہوگا۔
فتنے ظاہر ہوں گے: فتنے سے مراد یہاں ہر ایک آزمائش ہے، دینی ہو یا دنیاوی۔ لغت میں فتنہ کے معنی سونے کو آگ میں تپانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا یا کھوٹا پن معلوم ہو۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: «إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ ۚ وَاللَّـهُ عِندَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ»[التغابن: 15] "بلاشبہ تمہاری دولت اور تمہاری اولاد ایک آزمائش ہے، اور الله کے پاس اجر عظیم ہے۔ " ابن جریر نے ضحاک سے روایت کی ہے کہ کچھ لوگ اسلام لانے کے بعد اپنی بیویوں، بچوں اور ماں باپ کو چھوڑ کر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے پاس چلے جاتے، تو ان کے خاندان والے الله کا واسطہ دے کر انہیں سب کو چھوڑ کر چلے جانے سے منع کرتے، جس سے بعض لوگ متاثر ہو کر ہجرت کرنے سے رک جاتے۔ ضحاک کہتے ہیں کہ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تھی۔ [تفسير طبري: 159/28] لیکن تفسیر کے عام قاعدہ کے مطابق آیت کا حکم عام ہے، اور اس کے ذریعہ تمام ہی مومنوں کو اس بات سے ڈرایا گیا ہے کہ انہیں اپنے بال بچوں کی محبت اور ان کی خواہش کی پیروی میں الله کی اطاعت و بندگی اور ہجرت و جہاد سے نہیں رکنا چاہیے۔
بیوی بچوں کے فتنے سے بچنے کی تلقین: اللہ تعالی کا ارشاد ہے: «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّـهِ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ»[المنافقون: 9] "اے ایمان والو! تمہارے مال اور اولاد تم کو الله کی یاد سے غافل نہ کر دیں اور جو ایسا کرے گا تو وہی لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیں۔ " دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا: «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ ۚ وَإِن تَعْفُوا وَتَصْفَحُوا وَتَغْفِرُوا فَإِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ»[التغابن: 14] "اے ایمان والو! تمہاری بعض بیویاں اور بعض بچے تمہارے دشمن ہیں پس ان سے ہوشیار رہنا اور اگر تم معاف کر دو اور درگزر کر جاؤ اور بخش دو تو الله تعالیٰ بخشنے واﻻ مہربان ہے." امام مجاہد اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ بیوی بچے انسان کو بسا اوقات قطع رحمی یا اپنے رب کی نافرمانی پر آمادہ کر دیتے ہیں اور محبت کے باوجود انسان الله تعالٰی کی اطاعت نہیں کر سکتا۔ [تفسير ابن ابي حاتم: 3358/10] کبھی فتنہ عذاب کے معنی میں آتا ہے جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے: «ذُوْقُوْا فِتْنَتَكُمْ» "اس آیت کریمہ میں فتنے سے مراد گناہ ہے، جس کی سزا عام ہوتی ہے مثلاً بری بات دیکھ کر خاموش رہنا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں سستی، پھوٹ، نا اتفاقی، بدعت کا پھیلنا اور جہاد میں سستی وغیرہ۔ امام احمد اور بزار نے مطرف بن عبدالله بن شخیر سے نکالا ہے۔ میں نے جنگ جمل کے دن زبیر رضی الله عنہ سے کہا، تم ہی لوگوں نے تو سیدنا عثمان رضی الله عنہ کو نہ بچایا، وہ شہید کر دیئے گئے اور اب تم ان کے خون کا دعویٰ کرنے آئے ہو۔ زبیر رضی الله عنہ نے کہا: ہم نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے زمانہ میں یہ آیت پڑھی: «وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَّا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنكُمْ خَاصَّةً ۖ»[الأنفال: 25] "ڈرو اس فتنہ سے جو ظالوں پر خاص نہیں رہتا (بلکہ ظالم و غیر ظالم) عام خاص سب اس میں پس جاتے ہیں۔ " اور یہ گمان نہ تھا کہ ہم خود بھی اس فتنے میں مبتلا ہوں گے، یہاں تک کہ یہ واقعہ رونما ہوگیا۔ [مسند بزار، رقم: 976 - مسند احمد: 165/1، رقم: 1414 -] شیخ شعیب نے اسے "صحیح الاسناد" قرار دیا ہے۔ قتل کی کثرت ہوگی: صحيح مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی الله عنہ نے روایت كيا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ قتل کرنے والا نہ جانے گا اس نے قتل کیوں کیا اور مقتول نہ جانے گا کہ وہ کیوں قتل ہوتا ہے۔“(ایسا اندھا دھند فساد ہو گا لوگ ناحق مارے جائیں گے)۔ [صحيح مسلم، كتاب الفتن، رقم: 2908/56] سيدنا ابو موسیٰ اشعری رضی الله عنہ نے عبدالله رضی الله عنہ سے کہا: آپ وہ حدیث جانتے ہیں جو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے «هرج» کے دنوں وغیرہ کے متعلق بیان کی۔ ابن مسعود رضی الله عنہ نے کہا کہ میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا تھا کہ: «مِنْ شِرَارِ النَّاسِ مَنْ تُدْرِكْهُمُ السَّاعَةُ وَهُمْ أَحْيَاءٌ.» "وہ بدبخت ترین لوگوں میں سے ہوں گے جن کی زندگی میں قیامت آئے گی۔ " [صحيح بخاري، كتاب الفتن، رقم: 7067]
استدلالات محدثین: امام بخاری رحمة الله علیہ نے اس حدیث شریف سے درج ذیل مسائل استنباط کیے ہیں: (1) مفتی کا اپنے ہاتھ اور سر ہلا کر، اشارہ کرتے ہوئے سائل کو جواب دینا۔ "کتاب العلم" باب (24) (2) زلزلوں اور علامات قیامت کا بیان۔ "کتاب الاستسقاء" باب (27) (3) اس زمانہ سے پہلے صدقہ کہ جب اس کا لینے والا کوئی باقی نہ رہے گا۔ "کتاب الزکاة" باب (9) صحیح مسلم، کتاب الزکاة، باب (18) (4) آنحضور صلی الله علیہ وسلم کے معجزات کا بیان۔ "کتاب المناقب" باب (25) (5) قیامت قائم ہونے کی آخری علامت یہ ہے کہ سورج مغرب سے طلوع ہو، اور جب یہ علامت ظاہر ہو جائے گی تو کسی کا ایمان لے آنا اسے نفع نہ دے گا۔ "کتاب التفسیر" باب (9) (6) ایک حکومت دوسری حکومت پر چڑھے گی، لڑائیوں کا میدان گرم ہوگا اور لوگ دنیاوی دھندوں میں پھنس کر قرآن و حدیث کا علم حاصل کرنا چھوڑ دیں گے، ہر شخص کو دولت جوڑنے کا خیال ہوگا اور بس۔ "کتاب الادب" باب (39) (7) دل کی نرمی کے لیے اس حدیث کو "کتاب الرقاق" باب (40) میں لائے ہیں۔ (8) قیام قیامت سے قبل دو مسلمان گروہوں کا قتال کرنا "کتاب استتابة المرتدین" رقم الحدیث: (6935) (9) فتنوں کا ظہور ضروری ہے۔ "کتاب الفتن" باب (5) (10) حتیٰ کہ قیامت سے قبل لوگوں کا قبر والوں پر رشک کرنا، اور عرب میں بت پرستی شروع ہو جانا۔ "کتاب الفتن" باب (22 و 23)
صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث/صفحہ نمبر: 23