الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


صحيفه همام بن منبه
متفرق
متفرق
17. روزہ دار کے منہ کی بو مشک سے بھی زیادہ خوشبودار ہے
حدیث نمبر: 17
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَخَلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ، يَذَرُ شَهْوَتَهُ وَطَعَامَهُ وَشَرَابَهُ مِنْ جَرَّايَ، فَالصِّيَامُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ"
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے! روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ اور پاکیزہ ہے۔ (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) بندہ اپنی شہوت، اپنا کھانا، اور اپنا پینا میرے لیے چھوڑتا ہے، پس روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ [صحيفه همام بن منبه/متفرق/حدیث: 17]
تخریج الحدیث: «صحيح بخاري، كتاب الصوم، رقم: 1894، 1904 - صحيح مسلم، كتاب الصيام، رقم: 2703، 2704، 2706، 2707، 2708 - سنن ترمذي، رقم: 764 - مسند أحمد: 37/16، رقم: 15/8114، حدثنا عبدالرزاق بن همام: حدثنا معمر عن همام بن منبه، قال: هذا حدثنا به أبو هريرة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم .... - شرح السنة: 225/6، 226 - مؤطا امام مالك: 310/1 (18)، كتاب الصيام (22)، باب جامع الصيام - مشكوٰة، رقم: 1959.»

صحیفہ ہمام بن منبہ کی حدیث نمبر 17 کے فوائد و مسائل
  حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه   17  
شرح الحديث:
قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے:
حدیث بیان کرنے سے پہلے رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے قسم اٹھائی ہے اور قسم تاکید کے لیے یا کسی بھی چیز کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے اٹھائی جاتی ہے۔ لیکن یہاں روزہ کی اہمیت کو مزید اجاگر کرنے کے لیے قسم اٹھا کر روزہ کی فضیلت کو بیان فرمایا۔

روزہ دار کے منہ سے آنے والی بو الله کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پاکیزہ اور اچھی ہے:
«خُلُوْف» کافی دیر تک نہ کھانے پینے کی وجہ سے منہ سے جو بو آتی ہے، اسے "خلوف" کہتے ہیں۔ روزہ دار کے منہ سے آنے والی بو الله کے نزدیک مشک (کستوری) کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ اور پاکیزہ ہے۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ ان الفاظ کا معنی یہ ہے: یعنی روزہ دار کے منہ کی بو قبولیت کے لیے عندالله اس طرح جلدی پہنچتی ہے جس طرح بہت جلدی تمہارے پاس مشک کی خوشبو پہنچتی ہے، بلکہ اس سے تمہارے پاس پہنچنے سے بھی پہلے۔ بعض نے کہا کہ یہ کلام مجاز ہے کیونکہ عادتاً خوشبو انسان کے جلدی قریب جاتی ہے اور وہ اسے جلدی محسوس کر لیتا ہے، اسی طرح روزہ بھی بڑی جلدی الله کے پاس پہنچ جاتا ہے۔
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ الله عزوجل ہر روزہ دار کو روز قیامت ایسا اجر دیں گے جس سے مشک کی خوشبو آرہی ہوگی۔ اور یہ ممکن ہے جیسا کہ شہید آئے گا اور اس کے زخموں سے مشک کی خوشبو پھوٹ رہی ہوگی۔
عزالدین بن عبدالسلام یہ معاملہ آخرت میں ہوگا۔ جیسا کہ شہید کے خون کے بارے میں بھی آتا ہے، اور ان کا استدلال صحیح مسلم، مسند أحمد اور سنن نسائی کی ایک روایت سے ہے، جس کے الفاظ ہیں: «أَطْيَبُ عِندَاللهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ» کہ "وہ بو الله کے نزدیک قیامت کے دن اچھی اور پاکیزہ ہوگی۔ "
جب کہ ابن الصلاح رحمة الله علیہ کا کہنا ہے کہ اس کا تعلق دنیا سے بھی ہے اور ان کا استدلال ابن حبان کی روایت کے ان الفاظ سے ہے: «فَمَ الصَّائِمِ حِيْنَ يَخْلِفُ مِنَ الطَّعَامِ» "روزہ دار کے منہ کی بو جب وہ کھاتا (پیتا) نہیں ہے، اور کھانے پینے کا تعلق تو دنیا سے ہی ہے۔ بہرحال دونوں معانی ہی مراد لیے جا سکتے ہیں۔ "
[عمدة القاري: 9/9 - ارشاد الساري: 346/3]

بندہ اپنی شہوات، اپنا کھانا اور اپنا پینا میری وجہ سے چھوڑتا ہے:
روزہ ایک ایسا عمل ہے جس میں ریا اور نمود و نمائش کو دخل نہیں ہوتا۔ آدمی خالص الله تعالیٰ ہی کے ڈر سے اپنی تمام خواہش چھوڑ دیتا ہے۔ اس وجہ سے روزہ خاص اس کی عبادت ہے اور اس کا ثواب بہت ہی بڑا ہے بشرطیکہ روزہ حقیقی روزہ ہو۔ یاد رہے اتنا جزء حدیث قدسی کے باب سے ہے۔

پس روزہ میرے لیے ہے:
علماء کا کہنا ہے کہ یہ روزہ کے ثواب کی کثرت کے بیان کے لیے ہے۔ روزہ ایسا فعل نہیں جو کہ بنی آدم کی زبان وغیرہ سے سرزد ہو اور کراماً کاتبین اسے لکھ لیں۔ بلکہ یہ تو کھانے پینے اور نفسانی خواہشات سے رکنے اور دل کے ارادے کا نام ہے، اسی لیے اس کا اجر زیادہ ہے۔
سفیان ثوری رحمة الله علیہ سے پوچھا گیا کہ «اَلصِّيَامُ لِيْ» کا کیا معنی ہے؟ فرمایا کہ روزہ اصل میں صبر ہے، انسان کھانے پینے اور جائز طریقہ سے حاجت پوری کرنے سے بھی رک جاتا ہے اور صبر کا اجر بغیر حساب کے دیا جائے گا۔ پھر آپ نے قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائی:
«اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ» [الزمر: 10]
"صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بغیر حساب کے دیا جائے گا۔ " [شرح السنة: 335/6]
حدیث قدسی میں الله تعالیٰ کا فرمانا کہ «اَلصِّيَامُ لِيْ» "روزہ میرے لیے ہے یا میرا ہے۔ " کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔
1- دوسری عبادات میں اطاعت غالب ہوتی ہے اور روزہ میں محبت غالب ہے۔ روزہ دار میں محبت کی علامات جمع ہو جاتی ہیں اور محبان کی چھ نشانیاں ہیں:
١- ٹھنڈی آہ بھرنا۔
٢- رنگ کا پیلا ہونا۔
٣- آنکھوں کا تر ہونا۔
٤- کم کھانا۔
٥- کم بولنا۔
٦- کم سونا۔
تو یہ چھ کی چھ نشانیاں ایک روزے دار میں پائی جاتی ہیں۔ اطاعت شعار بندے کا بدلہ ثواب ہے لیکن محبّ کا بدلہ محبوب کی ملاقات ہے۔
2- دیگر عبادات میں ریا ممکن ہے کیونکہ ان کی کوئی نہ کوئی صورت ہوتی ہے اور ان میں کچھ کرنا ہوتا ہے مگر روزے میں ریا نہیں ہو سکتی کہ نہ اس کی کوئی صورت اور نہ اس میں کچھ کرنا ہوتا ہے۔ تو جو انسان ظاہر و باطن اور اندر، باہر کچھ نہ کھائے، پیئے تو وہ یقیناً مخلص ہے کیونکہ ریاکار انسان گھر میں اور چوری چھپے کھا پی کر بھی روزہ ظاہر کر سکتا ہے۔
3- کل قیامت میں دوسری عبادتیں اہل حقوق چھین سکتے ہیں یعنی وہ لوگ جن کے اس کے ذمہ کچھ حقوق ہوں۔ جیسا کہ احادیث میں آیا ہے مگر روزہ کسی بھی حق والے کو نہ دیا جائے گا۔ رب تعالیٰ فرمائے گا کہ روزہ تو میرا ہے۔ یہ کسی کو نہیں ملے گا۔
4- کفار و مشرکین دوسری عبادتیں بتوں کے لیے کر لیتے۔ مثلاً قربانی، سجدہ، حج اور خیرات وغیرہ مگر کوئی کافر بت کے لیے روزہ نہیں رکھتا۔ [مرقاة شرح مشكوة_ اشعة اللمعات شرح مشكوة ملخصا]
اور بعض نے اسے «وَأَنَا أُجْزَى بِهِ» "اور میں خود ہی اس کی جزا ہوں" پڑھا ہے۔ اس قرات پر یہ صیغہ واحد مذکر فعل مضارع مجہول بنتا ہے۔
علماء کہتے ہیں جب روزہ الله کے لیے ہے، تو الله تعالیٰ فرماتا ہے، میں خود ہی اس کی جزا ہوں، یعنی قیامت کے دن روزہ داروں کو میرا دیدار اور خوشنودی نصیب ہوگی۔ والله اعلم!

آخرت میں دیدار الٰہی:
یہ لوگ آخرت میں الله تعالیٰ کا دیدار کریں گے۔ الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:
«وُجُوْهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ * اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ» [القيامة: 22-23]
"اس دن کئی چہرے تروتازہ ہوں گے، اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے۔ "
یعنی وہ اپنے رب تعالیٰ کا یقینی طور پر دیدار کر رہے ہوں گے، جیسا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی حدیث ہے:
«اِنَّكُمْ سَتَرُوْنَ رَبَّكُمْ عِيَانًا» [صحيح بخاري، كتاب التوحيد، رقم: 7435]
"بے شک تم عنقریب اپنے رب تعالیٰ کو کھلم کھلا سامنے دیدار کرو گے۔ "
صحیح مسلم میں سیدنا جابر رضی الله عنہ سے مروی حدیث میں ہے، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«فَيَتَجَلّٰى لَهُمْ يَضْحَكُ» [صحيح مسلم، كتاب الايمان، رقم: 191]
"الله تعالیٰ مومنوں کے لیے ہنستے ہوئے جلوہ افروز ہوگا۔ "
   صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث/صفحہ نمبر: 17