اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”روزہ ڈھال ہے، پس اگر تم میں سے کوئی شخص کسی دن روزہ دار ہو، نہ تو جہالت سے پیش آئے اور نہ ہی فحش کلامی کرے۔ پس اگر کوئی شخص اس سے لڑائی کرے یا اسے گالی دے تو اس (روزہ دار) کو چاہیے کہ (جواباً) کہے: میں روزہ دار ہوں، میں روزہ دار ہوں۔“[صحيفه همام بن منبه/متفرق/حدیث: 16]
تخریج الحدیث: «صحيح بخاري، كتاب الصوم، رقم: 1894، 1904 - صحيح مسلم، كتاب الصيام، رقم: 2705، 2706 - سنن ترمذي، رقم: 764 - مصنف عبدالرزاق، رقم: 8443 - شرح السنة: 225/6، 226 - مؤطا امام مالك: 310/1 (18)، كتاب الصيام (22)، باب جامع الصيام - مسند أحمد: 36/16، رقم: 14/1813، حدثنا عبدالرزاق بن همام: حدثنا معمر عن همام بن منبه، قال: هذا ما حدثنا به أبو هريرة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم .... - مشكوٰة، رقم: 1959.»
صحیفہ ہمام بن منبہ کی حدیث نمبر 16 کے فوائد و مسائل
حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه 16
شرح الحديث: روزہ ڈھال ہے: یعنی گناہوں سے بچانے والا ہے کہ روزہ شہوت کو توڑ دیتا ہے، اور جسم میں کمزوری واقع ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے انسان گناہوں سے دور رہتا ہے۔ روزہ آگ سے بچاتا ہے، کیونکہ روزہ خواہشات نفسانی سے روکتا ہے اور آگ ان سے ڈراتی ہے، لہذا آدمی جہنم سے بچ جاتا ہے، اس معنی پر یہ حدیث دلالت کرتی ہے جس کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں ((اَلصَّوْمُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ .)) "روزہ آگ سے ڈھال ہے۔ " (سنن ترمذی، رقم: 674 - صحیح ابو داود، رقم: 2046 - التعلیق الترغیب: 2/ 57-58) یاد رہے کہ دونوں معنی مراد لینے میں کوئی حرج نہیں دونوں معانی لازم و ملزوم ہیں، کیونکہ دنیا میں جب آدمی نفسانی خواہشات اور معاصی سے رک جائے گا تو یہ چیز اس کے لیے جہنم سے بچاؤ کا سبب بنے گی، اور وہ جہنم میں نہیں جائے گا۔
پس جب تم میں سے کوئی شخص کسی دن روزہ دار ہو تو وہ جہالت کی باتیں نہ کرے: علامہ قرطبی رحمة الله علیہ فرماتے ہیں: "حدیث کے ان الفاظ سے یہ نہ سمجھا جائے کہ بغیر روزہ کے یہ کام مباح اور جائز ہے، بلکہ حدیث کے الفاظ سے روزہ دار کو تاکیداً منع کیا گیا ہے جب کہ دوسروں کے لیے بھی منع ہے۔ " (فتح الباری: 104/4)
فحش کلامی وغیرہ کی ممانعت: ((وَلَا یَرْفَثْ))...... "رفث" کا معنی فحش کلامی اور جماع، بلکہ جماع کے مقدمات بھی مراد ہیں۔ لہذا اسے کسی معنی کے لیے مخصوص نہیں کرنا ہوگا بلکہ عموم پر محمول ہوگا۔ ((فَاِن امْرُءٌ قَاتَلَهُ، اَوْ شَاتَمَهُ)) "پس اگر کوئی شخص اس (روزہ دار) سے لڑے یا اسے گالی دے۔ " اس میں لعن و طعن اور برا بھلا کہنا تمام چیزیں شامل ہیں۔ اور ((قَاتَلَ، شَاتَمَ)) مفاعلہ کے صیغے ہیں، اور مفاعلہ کا ایک خاصہ مشارکت بھی ہے لیکن یہاں مشارکت والا معنی مراد نہیں ہے بلکہ یک طرفہ معنی لیا جائے گا کہ سامنے والا لڑائی کرے یا گالی دے۔ اور اگر یہاں شارکت والا معنی لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ سامنے والا لڑے یا گالی دے، اور یہ روزہ دار کبھی ان کاموں کا ارادہ کر لے اور پھر اپنے نفس سے کہے کہ ((إِنِّىْ صَائِمٌ)) یقیناً میں روزہ دار ہوں۔ " ((فَلْيَقُلْ: إِنِّىْ صَائِمٌ، إِنِّىْ صَائِمٌ)) "پس اس شخص کو چاہیے کہ وہ کہے، بے شک میں روزہ دار ہوں، بے شک میں روزہ دار ہوں۔ " امام بغوی رحمة الله علیہ فرماتے ہیں: "یہ الفاظ دو معانی کے متحمل ہیں: (1) روزہ دار یہ الفاظ (بآواز بلند) سامنے والے کو کہے تاکہ جھگڑا کرنے والا جھگڑے سے رک جائے۔ (2) یا یہ الفاظ وہ (بآواز پست) اپنے آپ سے کہے اور اس کا یہ کہنا اسے جھگڑا کرنے سے مانع ہوگا اور جھگڑا کرکے وہ اپنا اجر و ثواب ضائع کرنے سے بھی بچ جائے گا۔ " (ملحض از شرح السنة: 226/6) علامہ عینی نے اس کی ہم معنی بات کرمانی رحمة الله علیہ سے نقل کی ہے۔ اور امام شافعی رحمة الله علیہ کے نزدیک اس کلام کو دونوں معانی پر محمول کرنا ضروری ہے۔ علامہ عینی فرماتے ہیں: ہمارے شیخ زین الدین فرماتے ہیں: یہ کلام تین معانی کی متحمل ہے، دو مذکورہ معانی اور تیسرا یہ کہ اگر روزہ فرض ہو تو آدمی یہ الفاظ زبان سے (بآواز بلند) ادا کرے تاکہ جھگڑا کرنے والا سن لے اور جھگڑے سے رک جائے۔ اور اگر روزہ نفلی ہو تو یہ کلمات (بآواز پست) اپنے نفس میں کہے تاکہ خود جھگڑے سے رک جائے۔ (عمدة القاری: 8/9)
یقیناً میں روزہ دار ہوں: یہ الفاظ حدیث میں مؤکد دو مرتبہ وارد ہیں۔ محض منع میں مزید شدت پیدا کرنے کے لیے، اور گویا کہ ایک مرتبہ وہ جھگڑا کرنے والے کو ڈانٹ پلا رہا ہے جس نے روزے کی حرمت کو پامال کیا اور گالی دے کر اپنا اجر و ثواب کم کرنے میں واقع ہوا۔ اور دوسری مرتبہ ((إِنِّىْ صَائِمٌ)) کہہ کر وہ اپنے آپ کو یاد دلا رہا ہے، تاکہ وہ جھگڑا نہ کرے اور اپنا اجر و ثواب کم نہ کرے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بندہ اپنی مخفی عبادات کو ظاہر کر سکتا ہے بشرطیکہ فخر و ریا نہ ہو۔ بلکہ اس سے ترغیب مراد ہو یا کوئی اور مصلحت۔
صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث/صفحہ نمبر: 16