مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1706
1706. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، کہ نبی ﷺ نے ایک ایسے آدمی کو دیکھا جو قربانی کے اونٹ کو ہانک رہا تھا۔ آپ نے فرمایا: ”اس پر سوار ہو جاؤ۔“ اس نے عرض کیا: یہ قربانی کا جانور ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اس پر سوارہو جاؤ۔“ حضرت ابو ہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے اسے دیکھا کہ وہ اونٹ پر سوارہو کر نبی ﷺ کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا اور جوتوں کا ہار اس اونٹ کے گلے میں تھا۔ محمد بن بشار نے (یحییٰ بن ابی کثیر سے روایت کرنے میں) معمر کی متابعت کی ہے۔ علی بن مبارک نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، انھوں نے حضرت عکرمہ سے، انھوں نے نبی ﷺ سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1706]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں اشارہ بھی ہے کہ ایک جوتی لٹکانا کافی ہے اور رد ہے اس کا جو کہ کم سے کم دو جوتیاں لٹکانا ضروری کہتا ہے اور مستحب یہی ہے کہ دو جوتیاں ڈالے (وحیدی)
مگر ایک بھی کافی ہو جاتی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1706
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6160
6160. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا جو قربانی کے اونٹ کو ہانک کرلے جارہا تھا۔ آپ نے فرمایا: ”اس پر سوار ہوجاؤ۔“ اس نے کہا: یہ تو قربانی کا جانور ہے۔ آپ نے فرمایا: ”تیرے لیے ہلاکت ہو، اس پر سوار ہوجاؤ۔“ دوسری یا تیسری مرتبہ فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6160]
حدیث حاشیہ:
قربانی کے لئے جو اونٹ نذر کر دیا جائے اس پر سفر حج کے لئے سواری کی جا سکتی ہے وہ شخص ایسے اونٹ کو لے کر پیدل سفر کر رہا تھا اوربار بار کہنے پر بھی سوار نہیں ہو رہا تھا۔
اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ ویلك بول کر اس کو اونٹ پر سوار کرایا۔
معلوم ہوا کہ ایسے مواقع پر لفظ ویلك بول سکتے ہیں یعنی تجھ پر افسوس ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6160
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1689
1689. حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا وہ قربانی کے جانور کو ہانک رہاتھا۔ آپ نے فرمایا: ”اس پر سوار ہوجا۔“ اس نے عرض کیا: یہ تو قربانی کا اونٹ ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ”تجھ پر افسوس ہو!اس پر سوار ہوجا۔“ دوسری یا تیسری مرتبہ یہ الفاظ استعمال فرمائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1689]
حدیث حاشیہ:
زمانہ جاہلیت میں عرب لوگ سائبہ وغیرہ جو جانور مذہبی نیاز و نذر کے طور پر چھوڑ دیتے ان پر سوار ہونا معیوب جانا کرتے تھے، قربانی کے جانوروں کے متعلق بھی جو کعبہ میں لے جائے جائیں ان کا ایسا ہی تصور تھا۔
اسلام نے اس غلط تصور کو ختم کیا اور آنحضرت ﷺ نے باصرار حکم دیا کہ اس پر سواری کرو تاکہ راستہ کی تھکن سے بچ سکو۔
قربانی کے جانور ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اسے معطل کرکے چھوڑ دیا جائے۔
اسلام اسی لیے دین فطرت ہے کہ اس نے قدم قدم پر انسانی ضروریات کو ملحوظ نظر رکھا ہے اور ہر جگہ عین ضروریات انسانی کے تحت احکامات صادر کئے ہیں، خود عرب میں اطراف مکہ سے جو لاکھوں حاجی آج کل بھی حج کے لیے مکہ شریف آتے ہیں ان کے لیے یہی احکام ہیں باقی دور دراز ممالک اسلامیہ سے آنے والوں کے لیے قدرت نے ریل، موٹر، جہاز وجود پذیر کرد ئیے ہیں۔
یہ محض اللہ کا فضل ہے کہ آج کل سفر حج بے حد آسان ہو گیا پھر بھی کوئی دولت مند مسلمان حج کو نہ جائے تو اس کی بدبختی میں کیا شبہ ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1689
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2755
2755. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا جو اپنا قربانی کا اونٹ ہانکے جارہا ہے۔ آپ نے اسے کہا: ”اس پر سوار ہوجا۔“ اس نے عرض کیا: اللہ کےرسول ﷺ!یہ تو قربانی کے لیے وقف ہے۔ آپ نے دوسری یاتیسری مرتبہ فرمایا: ”تیرے لیے خرابی ہو اس پر سوار ہوجا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2755]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ نکالا کہ وقفی چیز سے خود وقف کرنے والا بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے، جانور پر مکان کو بھی قیاس کر سکتے ہیں۔
اگر کوئی مکان وقف کرے تو اس میں خود بھی رہ سکتا ہے۔
یہ بھی ظاہر ہوا کہ قربانی کے جانور پر بوقت ضرورت سواری کی جا سکتی ہے، اگر وہ دودھ دینے والا جانور ہے تو اس کا دودھ بھی استعمال میں لایا جا سکتا ہے و۔
وہ جانور برائے قربانی متعین کرنے کے بعد عضو معطل نہیں بن جاتا۔
عام طور پر مشرکین اپنے شرکیہ افعال کے لئے موسوم کردہ جانوروں کو بالکل آزاد سمجھنے لگ جاتے ہیں جو ان کی نادانی کی دلیل ہے، غیر اللہ کے ناموں پر اس طرح جانور چھوڑنا شرک ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2755
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1706
1706. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، کہ نبی ﷺ نے ایک ایسے آدمی کو دیکھا جو قربانی کے اونٹ کو ہانک رہا تھا۔ آپ نے فرمایا: ”اس پر سوار ہو جاؤ۔“ اس نے عرض کیا: یہ قربانی کا جانور ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اس پر سوارہو جاؤ۔“ حضرت ابو ہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے اسے دیکھا کہ وہ اونٹ پر سوارہو کر نبی ﷺ کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا اور جوتوں کا ہار اس اونٹ کے گلے میں تھا۔ محمد بن بشار نے (یحییٰ بن ابی کثیر سے روایت کرنے میں) معمر کی متابعت کی ہے۔ علی بن مبارک نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، انھوں نے حضرت عکرمہ سے، انھوں نے نبی ﷺ سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1706]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے لیے روانہ ہوتے وقت رسول اللہ ﷺ نے اپنی قربانی کی اونٹنی منگوائی اور کوہان کی دائیں جانب نیزہ مارا، وہاں سے خون بہا کر اسے علامت لگا دی کہ یہ قربانی کا جانور ہے اور اس سے خون صاف کر دیا، پھر اس کے گلے میں دو جوتیوں کا ہار ڈالا۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 3016(1243) (2)
بعض حضرات کا موقف ہے کہ قربانی کو ہار پہنانے کے لیے جوتے متعین نہیں ہیں کوئی بھی چیز نشانی اور علامت کے طور پر گلے میں لٹکائی جا سکتی ہے۔
(3)
جوتے کے ہار میں یہ حکمت بیان کی جاتی ہے کہ عرب جوتوں کو سواری شمار کرتے تھے کیونکہ وہ پہننے والے کی حفاظت کرتے ہیں اور راستے کی گندگی اٹھا لیتے ہیں۔
کسی جانور کے گلے میں ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ اب یہ جانور اس کی سواری نہیں رہا بلکہ اللہ تعالیٰ کے لیے وقف ہو گیا ہے۔
اس اعتبار سے جوتوں کے ہار کو مستحب کہا جاتا ہے۔
(4)
محمد بن بشار کی متابعت ہمیں نہیں مل سکی۔
(فتح الباري: 693/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1706
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2755
2755. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا جو اپنا قربانی کا اونٹ ہانکے جارہا ہے۔ آپ نے اسے کہا: ”اس پر سوار ہوجا۔“ اس نے عرض کیا: اللہ کےرسول ﷺ!یہ تو قربانی کے لیے وقف ہے۔ آپ نے دوسری یاتیسری مرتبہ فرمایا: ”تیرے لیے خرابی ہو اس پر سوار ہوجا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2755]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان احادیث سے ثابت ہوا کہ وقف کرنے والا اپنی وقف کی ہوئی چیز سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اگرچہ اس نے اپنے لیے فائدہ اٹھانے کی شرط نہ کی ہو۔
حدیث میں اونٹ کا ذکر ہے، اس پر مکان وغیرہ کو قیاس کیا جا سکتا ہے۔
اگر کوئی مکان وقف کرے تو اس کے کسی حصے میں خود بھی رہائش رکھی جا سکتی ہے۔
(2)
یہ بھی معلوم ہوا کہ قربانی کے جانور پر بوقت ضرورت سواری کی جا سکتی ہے۔
اگر وہ دودھ دینے والا جانور ہو تو اس کا دودھ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
قربانی کے لیے متعین کرنے کے بعد اسے بالکل بے کار نہیں بنا دینا چاہیے جیسا کہ مشرکین اس طرح کے جانوروں کو بالکل آزاد کر دیتے تھے۔
بہرحال امام بخاری ؒ کے نزدیک وقف مطلق اور صدقۂ مطلق میں کوئی فرق نہیں۔
اس سے فائدہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں۔
وقف مشروط کے متعلق امام بخاری ؒ نے آئندہ مستقل عنوان بھی قائم کیا ہے، وہاں تفصیل سے اس موضوع پر گفتگو ہو گی۔
(صحیح البخاري، الوقف، باب: 33)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2755