507- مالك عن يحيى بن سعيد عن سعيد بن أبى سعيد المقبري عن عبد الله بن أبى قتادة عن أبيه أنه قال: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله، إن قتلت فى سبيل الله صابرا محتسبا مقبلا غير مدبر، أيكفر الله عني خطاياي؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”نعم فلما أدبر الرجل ناداه رسول الله صلى الله عليه وسلم أو أمر به فنودي له، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”كيف قلت؟“ فأعاد عليه قوله، فقال له النبى صلى الله عليه وسلم: ”نعم إلا الدين، كذلك قال لي جبريل.“
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی نے آ کر کہا: یا رسول اللہ! اگر میں اللہ کے راستے میں اس حالت میں قتل ہو جاؤں کہ میں صبر کرنے والا، نیت خالص والا، آگے بڑھ کر حملہ کرنے والا اور پیٹھ نہ پھیرنے والا ہوا، تو کیا اللہ میری خطائیں معاف فرما دے گا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں!“ پھر جب وہ آدمی پیٹھ پھیر کر واپس چلا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلایا یا بلانے کا حکم دیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: ”تو نے کیسے کہا تھا؟“ اس نے اپنی بات دوبارہ کہی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ”ہاں! سوائے قرض کے، اسی طرح مجھے جبریل نے کہا ہے۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 525]
تخریج الحدیث: «507- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 461/2 ح 1018، ك 21 ب 14 ح 31) التمهيد 231/23، الاستذكار: 955، و أخرجه النسائي (34/6 ح 3158) من حديث ابن القاسم عن مالك به ورواه مسلم (1885/117) من حديث يحيي بن سعيد الانصاري به، من رواية يحيي بن يحيي وجاء فى الأصل: ”بن سعيد“ وهو خطأ۔.»
قال الشيخ زبير على زئي: سنده صحيح
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 525 کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 525
تخریج الحدیث: [وأخرجه النسائي 34/6 ح 3158، من حديث ابن القاسم عن مالك به ورواه مسلم 1885/117، من حديث يحيي بن سعيد الانصاري به من رواية يحيي بن يحيي وجاء فى الأصل: ”بْنِ سَعِيْدِ“ وهو خطأ]
تفقه: ➊ جبریل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے علاوہ حدیث بھی بطور وحی لاتے تھے جیسا کہ اس حدیث میں «إلا الدَّين» سے واضح ہے لہذا حدیث بھی وحی ہے۔ ● سیدنا حسان بن عطیہ رحمہ اللہ (مشہور تا بعی) نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبریل علیہ السلام (ایسے) سنت لے کر نازل ہوتے جس طرح قرآن لے کر نازل ہوتے تھے اور آپ کو سنت اسی طرح سکھاتے جس طرح آپ کو قرآن سکھاتے تھے۔ [المراسل لا بي داود: 536 وسنده صحيح، السنة للمروزي ص 33 ح 102، وسنده صحيح] ➋ قرض کبھی معاف نہیں ہوتا إلا یہ کہ قرض خواہ خود معاف کردے۔ ➌ نیک اعمال سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ ➍ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل کے بارے میں حافظ ابن عبد البر لکھتے ہیں: ۔ «وكلّ من الله إلا ماقام عليه الدليل فإنه لا ينطق عن الهوى صلَّى اللهُ عَليهِ وسَلمَ و شرف و كرم» . سب اللہ کی طرف سے ہے سوائے اس کے جس(کی تخصیص) پر دلیل قائم ہو کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اپنی) خواہش سے نہیں بولتے، اللہ آپ کو شرف و کرم سے نوازے۔ [التمهيد 241/23]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 507