عروہ بن مضرس بن اوس بن حارثہ بن لام الطائی رضی الله عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مزدلفہ آیا، جس وقت آپ نماز کے لیے نکلے تو میں نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں قبیلہ طی کے دونوں پہاڑوں سے ہوتا ہوا آیا ہوں، میں نے اپنی سواری کو اور خود اپنے کو خوب تھکا دیا ہے، اللہ کی قسم! میں نے کوئی پہاڑ نہیں چھوڑا جہاں میں نے (یہ سوچ کر کہ عرفات کا ٹیلہ ہے) وقوف نہ کیا ہو تو کیا میرا حج ہو گیا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو بھی ہماری اس نماز میں حاضر رہا اور اس نے ہمارے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ ہم یہاں سے روانہ ہوں اور وہ اس سے پہلے دن یا رات میں عرفہ میں وقوف کر چکا ہو ۱؎ تو اس نے اپنا حج پورا کر لیا، اور اپنا میل کچیل ختم کر لیا“۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- «تَفَثَهُ» کے معنی «نسكه» کے ہیں یعنی مناسک حج کے ہیں۔ اور اس کے قول: «ما تركت من حبل إلا وقفت عليه»”کوئی ٹیلہ ایسا نہ تھا جہاں میں نے وقوف نہ کیا ہو“ کے سلسلے میں یہ ہے کہ جب ریت کا ٹیلہ ہو تو اسے حبل اور جب پتھر کا ہو تو اسے جبل کہتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 891]
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ عرفات میں ٹھہرنا ضروری ہے اور اس کا وقت نو ذی الحجہ کو سورج ڈھلنے سے لے کر دسویں تاریخ کے طلوع فجر تک ہے ان دونوں وقتوں کے بیچ اگر تھوڑی دیر کے لیے بھی عرفات میں وقوف مل جائے تو اس کا حج ادا ہو جائے گا۔
۲؎: یعنی حالت احرام میں پراگندہ ہو کر رہنے کی مدت اس نے پوری کر لی اب وہ اپنا سارا میل کچیل جو چھوڑ رکھا تھا دور کر سکتا ہے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 891
اردو حاشہ: 1؎: اس سے معلوم ہوا کہ عرفات میں ٹھہرنا ضروری ہے اور اس کا وقت 9ذی الحجہ کو سورج ڈھلنے سے لے کر دسویں تاریخ کے طلوع فجر تک ہے ان دونوں وقتوں کے بیچ اگر تھوڑی دیر کے لیے بھی عرفات میں وقوف مل جائے تو اس کا حج ادا ہو جائے گا۔
2؎: یعنی حالت احرام میں پراگندہ ہو کر رہنے کی مدت اس نے پوری کر لی اب وہ اپنا سارا میل کچیل جو چھوڑ رکھا تھا دور کر سکتا ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 891