رافع بن خدیج رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”سینگی
(پچھنا) لگانے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ نہیں رہا
“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- رافع بن خدیج رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ اس باب میں سب سے صحیح رافع بن خدیج کی روایت ہے،
۳- اور علی بن عبداللہ
(ابن المدینی) کہتے ہیں کہ اس باب میں سب سے صحیح ثوبان اور شداد بن اوسکی حدیثیں ہیں، اس لیے کہ یحییٰ بن ابی کثیر نے ابوقلابہ سے ثوبان اور شداد بن اوس دونوں کی حدیثوں کی ایک ساتھ روایت کی ہے،
۴- اس باب میں علی، سعد، شداد بن اوس، ثوبان، اسامہ بن زید، عائشہ، معقل بن سنان
(ابن یسار بھی کہا جاتا ہے)، ابوہریرہ، ابن عباس، ابوموسیٰ، بلال اور سعد رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۵- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے روزہ دار کے لیے پچھنا لگوانے کو مکروہ قرار دیا ہے، یہاں تک کہ بعض صحابہ نے رات کو پچھنا لگوایا۔ ان میں موسیٰ اشعری، اور ابن عمر بھی ہیں۔ ابن مبارک بھی یہی کہتے ہیں:
۶- عبدالرحمٰن بن مہدی کہتے ہیں کہ جس نے روزے کی حالت میں پچھنا لگوایا، اس پر اس کی قضاء ہے، اسحاق بن منصور کہتے ہیں: اسی طرح احمد اور اسحاق بن راہویہ نے بھی کہا ہے،
۷- شافعی کہتے ہیں کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے روزے کی حالت میں پچھنا لگوایا۔ اور نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:
”پچھنا لگانے اور لگوانے والے دونوں نے روزہ توڑ دیا
“، اور میں ان دونوں حدیثوں میں سے ایک بھی صحیح نہیں جانتا، لیکن اگر کوئی روزہ کی حالت میں پچھنا لگوانے سے اجتناب کرے تو یہ مجھے زیادہ محبوب ہے، اور اگر کوئی روزہ دار پچھنا لگوا لے تو میں نہیں سمجھتا کہ اس سے اس کا روزہ ٹوٹ گیا،
۸- بغداد میں شافعی کا بھی یہی قول تھا کہ اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ البتہ مصر میں وہ رخصت کی طرف مائل ہو گئے تھے اور روزہ دار کے پچھنا لگوانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں احرام کی حالت میں پچھنا لگوایا تھا
۱؎۔
[سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 774]