فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مال میں زکاۃ کے علاوہ بھی حقوق ہیں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث کی سند کوئی خاص نہیں ہے ۱؎، ۲- ابوحمزہ میمون الاعور کو ضعیف گردانا جاتا ہے، ۳- بیان اور اسماعیل بن سالم نے یہ حدیث شعبی سے روایت کی ہے اور اسے شعبی ہی کا قول قرار دیا ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 660]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر ما قبلہ (ضعیف)»
وضاحت: ۱؎: «إسناده ليس بذلك» الفاظ جرح میں سے ہے، اس کا تعلق مراتب جرح کے پہلے مرتبہ سے ہے، جو سب سے ہلکا مرتبہ ہے، ایسے راوی کی حدیث قابل اعتبار ہوتی ہے یعنی تقویت کے قابل اور اس کے لیے مزید روایات تلاش کی جا سکتی ہیں۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف أيضا //، المشكاة (1 / 597) ، ضعيف سنن ابن ماجة (397) //
قال الشيخ زبير على زئي: (659 ،660) إسناده ضعيف / جه 1789 أبوحمزة ميمون الأعور: ضعيف (تق:7057)
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 660
اردو حاشہ: 1؎: ”إسناده ليس بذلك“ الفاظ جرح میں سے ہے، اس کا تعلق مراتب جرح کے پہلے مرتبہ سے ہے، جو سب سے ہلکا مرتبہ ہے، ایسے راوی کی حدیث قابل اعتبار ہوتی ہے یعنی تقویت کے قابل اور اس کے لیے مزید روایات تلاش کی جا سکتی ہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 660
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 659
´مال میں زکاۃ کے علاوہ بھی حق ہے۔` فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے زکاۃ کے بارے میں پوچھا، یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زکاۃ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”مال میں زکاۃ کے علاوہ بھی کچھ حق ہے ۱؎“ پھر آپ نے سورۃ البقرہ کی یہ آیت تلاوت فرمائی: «ليس البر أن تولوا وجوهكم»”نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اپنے چہرے پھیر لو“۲؎ الآیۃ۔ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 659]
اردو حاشہ: 1؎: بظاہر یہ حدیث ((لَيْسَ فِي الْمَالِ حَقٌّ سِوَى الزَّكَاةِ)) کے معارض ہے، تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ زکاۃ اللہ کا حق ہے اور مال میں زکاۃ کے علاوہ جو دوسرے حقوق واجبہ ہیں ان کا تعلق بندوں کے حقوق سے ہے۔
2؎: پوری آیت اس طرح ہے: ﴿لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَالْمَلآئِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّآئِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُواْ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاء والضَّرَّاء وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ﴾(البقرة: 177)(ساری اچھائی مشرق و مغرب کی طرف منہ کرنے میں ہی نہیں بلکہ حقیقۃً اچھا وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ پر، قیامت کے دن پر، فرشتوں پر، کتاب اللہ پر اور نبیوں پر ایمان رکھنے والا ہو، جو مال سے محبت کرنے کے باوجود قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والے کو دے غلاموں کو آزاد کرنے نماز کی پابندی اور زکاۃ کی ادائیگی کرے، جب وعدہ کرے تو اسے پورا کرے تنگدستی دکھ درد اور لڑائی کے وقت صبرکرے یہی سچے لوگ ہیں اور یہی پر ہیز گار ہیں) آیت سے استدلال اس طرح سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آیت میں مذکورہ وجوہ میں مال دینے کا ذکر فرمایا ہے پھر اس کے بعد نماز قائم کرنے اور زکاۃ دینے کا ذکر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مال میں زکاۃ کے علاوہ بھی کچھ حقوق ہیں۔
نوٹ: (سند میں شریک القاضی حافظہ کے ضعیف راوی ہے، ابو حمزہ میمون بھی ضعیف ہیں، اور ابن ماجہ کے یہاں اسود بن عامر کی جگہ یحییٰ بن آدم ہیں لیکن ان کی روایت شریک کے دیگر تلامذہ کے بر خلاف ہے، دونوں سیاق سے یہ ضعیف ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 659