امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس کی حدیث قابوس بن ابی ظبیان سے مروی ہے جسے انہوں نے اپنے والد سے اور ان کے والد نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کی ہے، ۲- اس باب میں سعید بن زید اور حرب بن عبیداللہ ثقفی کے دادا سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ نصرانی جب اسلام قبول کر لے تو اس کی اپنی گردن کا جزیہ معاف کر دیا جائے گا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان «ليس على المسلمين عشور»”مسلمانوں پر عشر نہیں ہے“ کا مطلب بھی گردن کا جزیہ ہے، اور حدیث میں بھی اس کی وضاحت کر دی گئی ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا: ”عشر صرف یہود و نصاریٰ پر ہے، مسلمانوں پر کوئی عشر نہیں“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 634]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر ما قبلہ (ضعیف)»
وضاحت: ا؎: یہ حدیث سنن ابی داود میں ہے اس حدیث کا تشریح ”المرقاۃ شرح المشکاۃ“ اور ”عون المعبود“ میں دیکھ لیں، کچھ وضاحت اس مقام پر ”تحفۃ الأحوذی“ میں بھی آ گئی ہے، اور عشر سے مراد ٹیکس ہے۔
قال الشيخ الألباني: // ضعيف الجامع الصغير (2050) ، المشكاة (4039) ، ضعيف أبي داود برقم (660 / 2046) ، يرويه الجميع عن حرب بن عبيد الله، عن جده أبي أمه، عن أبيه //
قال الشيخ زبير على زئي: (633 ،634) إسناده ضعيف /د 3032
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 634
اردو حاشہ: 1 ؎: یہ حدیث سنن ابی دؤاد میں ہے اس حدیث کی تشریح ”المرقاۃ شرح المشکاۃ“ اور ”عون المعبود“ میں دیکھ لیں، کچھ وضاحت اس مقام پر ”تحفۃ الأحوذی“ میں بھی آ گئی ہے، اور عُشر سے مراد ٹیکس ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 634