الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 475
´مسجد میں تھوکنا مکروہ ہے۔` انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسجد میں تھوکنا گناہ ہے اور اس کا کفارہ یہ ہے کہ اس پر مٹی ڈال دو۔“[سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 475]
475۔ اردو حاشیہ: ظاہر ہے کہ یہ حکم ان مساجد سے متعلق ہے جن کا فرش کچا ہو، اگر پختہ فرش پر یہ تقصیر ہو تو ضروری ہے کہ اسے اچھی طرح سے پونچھ دیا جائے یا دھو دیا جائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 475
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 724
´مسجد میں تھوکنے کا بیان۔` انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسجد میں تھوکنا گناہ ہے، اور اس کا کفارہ اسے مٹی ڈال کر دبا دینا ہے“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 724]
724 ۔ اردو حاشیہ: تھوک غلاظت کا سبب ہے، لہٰذا مسجد میں تھوکنا منع ہے۔ کچی مسجد ہو تو اسے مٹی میں دفن کیا جا سکتا ہے اور اگر فرش پختہ ہو تو کپڑے وغیرہ سے صاف کیا جائے۔ نماز کے اندر اگر تھوک ضبط نہ کیا جا سکے تو اپنے کپڑے میں تھوک کر کپڑے کو مل دیا جائے تاکہ کپڑا بھی گندا محسوس نہ ہو، یا ٹشو پیپر ہو تو اس میں تھوک لیا جائے، اور یہ بہتر ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 724
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 205
´مساجد کا بیان` سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مسجد میں تھوکنا گناہ ہے۔ اس کا کفارہ تھوک کو دفن کرنا ہے۔“(بخاری و مسلم)[بلوغ المرام/حدیث: 205]
205 فوائد و مسائل: ➊ مسجد اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی بندگی کے لیے تعمیر کی جاتی ہے، اسے ظاہری اور باطنی گندگی اور نجاست سے پاک رکھنے کا حکم ہے۔ ➋ مسجد میں تھوکنا آداب مسجد، شائستگی اور نظافت کے خلاف ہے علاوہ ازیں ذوق سلیم پر بھی گراں گزرتا ہے۔ اس لئے تھوکنا گناہ ہے اور اس کا کفارہ اسے دفن کرنا ہے تاکہ اس کا کوئی اثر باقی نہ رہے۔ ➌ یہ حکم اس وقت کا ہے جب فرش مٹی کا ہوتا تھا اب پکے فرش پر کوئی تھوکھے گا تو اسے پانی یا کپڑے وغیرہ سے صاف کرنا ضروری ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 205
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1232
حضرت شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مسجد میں تھوکنے کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”مسجد میں تھوک غلطی ہے اور اس کا کفارہ اس کو دفن کر دینا ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:1232]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو مسجد میں نہیں تھوکنا چاہیے اگرضرورت اور مجبوری کی بنا پر تھوک لے تو پھر دوسری حدیث کی رو سے بائیں قدم تلے تھوک لے اور اس کو دفن کردے۔ اس لیے دونوں حدیثوں میں تعارض نہیں ہے اور قاضی عیاض اور امام نووی رحمۃ اللہ علیہما کا اس مسئلہ کے بارے میں کچھ اختلاف ہے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مسجد میں نہیں تھوکنا چاہیے ضرورت پڑے تو اپنے کپڑے میں تھوک لے، اگر مسجد میں تھوکے گا تو گناہگار ہو گا قاضی عیاض کا نظریہ ہے کہ اگر مسجد میں تھوک کر دفن کر دیا تو گناہ نہیں ہو گا اگر دفن نہیں کیا تو گناہگار ہو گا آج کل مساجد میں دفن کرنا ممکن نہیں ہے، اس لیے ضرورت اور مجبوری کی صورت میں تھوک دان یا کپڑے کو استعمال کرنا چاہیے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1232
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:415
415. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا:”مسجد میں تھوکنا گناہ ہے اور اس (گناہ) کا کفارہ اسے دفن کر دینا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:415]
حدیث حاشیہ: 1۔ مسجد میں تھوکنا اس کے تقدس اور احترام کے خلاف ہے، لیکن اگر کسی مجبوری کے پیش نظر اس کی نوبت آجائے تو اس کا تدارک اور کفارہ یہ ہے کہ اسے دفن کردیا جائے۔ یہ اس صورت میں ہے کہ فرش پر ریت یا مٹی ہو۔ اور اگر مسجد کا فرش پختہ ہو تو اسے اٹھا کر باہر پھینک دیا جائے۔ دراصل امام بخاری ؒ نے ایک اختلاف کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ علامہ نووی ؒ کے نزدیک حالت نماز اور مسجد میں تھوکنا بہرحال گناہ ہے، خواہ اسے دفن کرنے کا ارادہ کرے یا نہ کرے۔ اگر اسے دفن کر دے گا تو اس گناہ کی تلافی ہو جائے گی، جبکہ قاضی عیاض ؒ کا کہنا ہے کہ تھوکتے وقت اگر اس نے ازالے کا ارادہ کیا تھا تو کچھ گناہ نہیں، البتہ اگر اس کا ازالہ نہیں کرے گا تو گناہ گا ر ہو گا۔ اس اختلاف کی بنیاد یہ ہے کہ اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ سے مروی احادیث کے عموم میں تعارض ہے۔ ایک حدیث ہے کہ مسجد میں تھوکنا گناہ ہے اور دوسرا ارشاد ہے کہ بوقت ضرورت بائیں جانب اور بائیں پاؤں کے نیچے تھوکنا جائز ہے۔ امام نووی ؒ نے پہلے ارشاد کو عام رکھتے ہوئے دوسرے میں اس طرح تخصیص کی ہے کہ بائیں جانب یا پاؤں کے نیچے تھوکنے کی اجازت مسجد میں نہ ہونے کی صورت میں ہے جبکہ قاضی عیاض ؒ نے دوسرے ارشاد کو عموم پر باقی رکھتے ہوئے پہلے ارشاد میں اس طرح تخصیص کی ہے کہ اگر تھوکنے کے بعد زمین میں اسے دفن کرنے کا ارادہ نہ ہو تو مسجد میں تھوکنا گناہ ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے فرمایا کہ متقدمین میں سے متعدد علماء نے قاضی عیاض کی تائید کی ہے، پھر چند ایسی روایات کا حوالہ دیا ہے جن سے قاضی عیاض کا موقف راجح قرارپاتا ہے۔ (فتح الباري: 1/662۔ 663) بہر حال حدیث کے مطابق مسجد میں تھوکنا گناہ ہے اور اگر کسی سے یہ گناہ سر زد ہو گیا ہو تو اس کا کفارہ دفن کر دینا ہے۔ گویا اس کا دفن کردینا گناہ کے بعد توبہ کے درجے کی بات ہے۔ امام بخاری ؒ نے ان احادیث سے ثابت فرمایا ہے کہ دوران نمازمیں یا مسجد میں اگر تھوکنے کی مجبوری ہو تو مسجد کے آداب اور نمازیوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ 2۔ ابتدائے اسلام میں مساجد کچھ تھیں اور ان کے صحن میں مٹی یا ریت وغیرہ ہوتی تھی جن میں تھوک لینا اور پھر اسے مٹی یا ریت میں چھپا دینا ممکن تھا۔ جبکہ آج کل مساجد پختہ ہیں اور ان کے فرش بھی پختہ ہیں جن پر بہترین چٹائیاں قالین بچھے ہوتے ہیں ایسے حالات و ظروف میں رومال وغیرہ ہی مناسب ہے کہ اس میں تھوک لیا جائے، لہٰذا ایسے حالات میں مذکورہ احادیث سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مساجد کے درو دیوارپر تھوکنا سخت گناہ اور مساجد کی بے حرمتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایسے لوگوں پر سخت ناراضی کا اظہار فرمایا ہے جو مساجد کے تقدس کو اس طرح پامال کرتے ہیں۔ بنا بریں حالات و ظروف بدل جانے کے نتیجے میں اب بائیں جانب یا پیر تلے تھوکنا قطعاً غیر مناسب ہے۔ اب صرف دو ہی صورتوں پر عمل کیا جا نا چاہیے۔ یا تو تھوک یا بلغم نگل لیا جائے یا پھر اس کے لیے رومال یا ٹشو پیپراستعمال کیا جائے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 415