ابوطلحہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنی قوم ۱؎ کو سلام کہو، کیونکہ وہ پاکباز اور صابر لوگ ہیں جیسا کہ مجھے معلوم ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3903]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 3774) (ضعیف) (سند میں محمد بن ثابت بنانی ضعیف راوی ہے، مگر اس کا دوسرا ٹکڑا شواہد کی بنا پر صحیح ہے، الصحیحة 3096)»
وضاحت: ۱؎: یعنی: قوم انصار کو سلام کہو، اس میں انصار کی فضیلت ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، لكن، الصحيحة منه الشطر الثاني، المشكاة (6242)
قال الشيخ زبير على زئي: (3903) إسناده ضعيف محمد بن ثابت البناني : ضعيف (تقدم: 3510) وتابعه الحسن بن أبى جعفر وهو ضعيف (تقدم:334)
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3794
3794. حضرت یحییٰ بن سعید انصاری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے حضرت انس ؓ سے سنا جب وہ حضرت انس ؓ کے ساتھ خلیفہ ولید بن عبدالملک کے ہاں جانے کے لیے نکلے، (وہاں جا کر) انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے انصار کو بلایا تاکہ بحرین کا علاقہ ان کے لیے بطور جاگیر لکھ دیں۔ انصار نے کہا: جب تک آپ ہمارے مہاجر بھائیوں کو اس جیسی جاگیر عطا نہیں فرمائیں گے ہم اسے قبول نہیں کریں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر تم ایسا نہیں کرتے تو پھر صبر کرنا یہاں تک کہ مجھ سے آ ملو کیونکہ میرے بعد عنقریب ہی تمہیں نظر انداز کیا جائے گا اور تمہاری حق تلفی شروع ہو جائے گی۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3794]
حدیث حاشیہ: یعنی دوسرے غیر مستحق لوگ عہدوں پر مقرر ہوں گے اور تم کو محروم کردیا جائے گا، بنی امیہ کے زمانے میں ایسا ہی ہوا اور رسول کریم ﷺ کی پیش گوئی حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی، مگر انصار نے فی الواقع صبر سے کام لے کر وصیت نبوی پر پورا عمل کیا۔ رضي اللہ عنهم ورضوا عنه، یہ اس وقت کی بات ہے جب حضرت انس ؓ کو عبدالملک بن مروان نے ستایا تھا اور وہ بصرہ سے دمشق جاکر ولید بن عبدالملک کے ہاں اپنی شکایات لے کر پہنچے تھے، آخر ولید بن عبدالملک (حاکم وقت) نے ان کا حق دلایا۔ (فتح الباری)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3794
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3794
3794. حضرت یحییٰ بن سعید انصاری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے حضرت انس ؓ سے سنا جب وہ حضرت انس ؓ کے ساتھ خلیفہ ولید بن عبدالملک کے ہاں جانے کے لیے نکلے، (وہاں جا کر) انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے انصار کو بلایا تاکہ بحرین کا علاقہ ان کے لیے بطور جاگیر لکھ دیں۔ انصار نے کہا: جب تک آپ ہمارے مہاجر بھائیوں کو اس جیسی جاگیر عطا نہیں فرمائیں گے ہم اسے قبول نہیں کریں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر تم ایسا نہیں کرتے تو پھر صبر کرنا یہاں تک کہ مجھ سے آ ملو کیونکہ میرے بعد عنقریب ہی تمہیں نظر انداز کیا جائے گا اور تمہاری حق تلفی شروع ہو جائے گی۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3794]
حدیث حاشیہ: 1۔ انصار کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میرے بعد عنقریب تمھیں ترجیحات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دوسرے غیر مستحق لوگ عہد پر فائز ہوں گے اور تمھیں محروم کیا جائے گا۔ “ چنانچہ بنوامیہ کے دور میں ایسا ہی ہوارسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی حرف بحرف پوری ہوئی مگر انصار نے فی الواقع صبر سے کام لے کر وصیت نبوی پر پورا پورا عمل کیا۔ 2۔ مذکورہ حدیث میں حضرت انس ؓ کے نکلنے کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب آپ کو حاکم بصرہ حجاج نے تنگ کیا تو انھوں نےدمشق جا کر ولید بن عبدالملک سے شکایت کی۔ آخر دمشق کے حاکم نے انھیں حق دلایا۔ (فتح الباري: 149/7)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3794