الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ترمذي
كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: مسنون ادعیہ و اذکار
83. باب
83. باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 3506
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ حَمَّادٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ لِلَّهِ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ اسْمًا مِائَةً غَيْرَ وَاحِدٍ مَنْ أَحْصَاهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ننانوے ۱؎ نام ہیں، سو میں ایک کم، جو انہیں یاد رکھے وہ جنت میں داخل ہو گا ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3506]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الشروط 18 (2736)، والدعوات 68 (6410)، والتوحید 12 (7392)، صحیح مسلم/الذکر والدعاء 2 (2677) (تحفة الأشراف: 14536) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (2288 / التحقيق الثاني)

   صحيح البخاريلله تسعة وتسعين اسما مائة إلا واحدا من أحصاها دخل الجنة
   صحيح البخاريلله تسعة وتسعون اسما مائة إلا واحدا لا يحفظها أحد إلا دخل الجنة وتر يحب الوتر
   صحيح البخاريلله تسعة وتسعين اسما مائة إلا واحدا من أحصاها دخل الجنة
   صحيح مسلملله تسعة وتسعين اسما مائة إلا واحدا من أحصاها دخل الجنة
   صحيح مسلملله تسعة وتسعون اسما من حفظها دخل الجنة الله وتر يحب الوتر
   جامع الترمذيلله تسعة وتسعين اسما مائة غير واحدة من أحصاها دخل الجنة هو الله الذي لا إله إلا هو الرحمن الرحيم الملك القدوس السلام المؤمن المهيمن العزيز الجبار المتكبر الخالق البارئ المصور الغفار القهار الوهاب الرزاق الفتاح العليم القابض الباسط الخافض الرافع
   جامع الترمذيلله تسعة وتسعين اسما من أحصاها دخل الجنة
   جامع الترمذيلله تسعة وتسعين اسما مائة غير واحد من أحصاها دخل الجنة
   سنن ابن ماجهلله تسعة وتسعين اسما مائة إلا واحدا من أحصاها دخل الجنة
   سنن ابن ماجهلله تسعة وتسعين اسما مائة إلا واحدا وتر يحب الوتر من حفظها دخل الجنة الله الواحد الصمد الأول الآخر الظاهر الباطن الخالق البارئ المصور الملك الحق السلام المؤمن المهيمن العزيز الجبار المتكبر الرحمن الرحيم اللطيف الخبير السميع البصير العليم العظيم البا
   صحيفة همام بن منبهلله تسعة وتسعون اسما مائة إلا واحدا من أحصاها دخل الجنة وتر يحب الوتر
   بلوغ المرام إن لله تسعة وتسعين اسما من أحصاها دخل الجنة
   مسندالحميديإن لله تسعة وتسعين اسما، مائة غير واحد، من حفظها دخل الجنة، وهو وتر يحب الوتر

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 3506 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3506  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہاں نناوے کا لفظ حصر کے لیے نہیں ہے کیونکہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث (جو مسنداحمد کی ہے اورابن حبان نے اس کی تصحیح کی ہے) میں ہے کہ آپﷺ دعا میں کہا کرتے تھے: اے اللہ میں ہر اس نام سے تجھ سے مانگتا ہوں جو تو نے اپنے لیے رکھا ہے اور جو ابھی پردۂ غیب میں ہے،
اس معنی کی بنا پراس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مذکور بالا ان ننانوے ناموں کوجو یاد کر لے گا...نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ کا اصل نام اللہ ہے باقی نام صفاتی ہیں۔

2؎:
یعنی جوان کو یاد کر لے اور صرف بسردالأسماء معرفت اسے حاصل ہو جائے اور ان میں پائے جانے والے معنی و مفہوم کے تقاضوں کو پورا کرکے ان کے مطابق اپنی زندگی گذارے گا وہ جنت کا مستحق ہو گا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3506   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه   34  
´اللہ عزوجل کے اسمائے حسنیٰ`
اور ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ایک کم سو ننانوے نام ہیں جو شخص انہیں یاد کر لے گا، وہ جنت میں داخل ہو گا۔ اور یقیناً وہ (ذات باری تعالیٰ) طاق ہے اور طاق (عدد) کو محبوب رکھتا ہے۔ [صحيفه همام بن منبه/متفرق/حدیث: 34]
شرح الحديث:
امام نووی فرماتے ہیں: یہ حدیث اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ الله سبحانہ و تعالیٰ کے اسمائے گرامی میں سے مشہور تریں نام "الله" ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ بقیہ تمام ناموں کی اضافت و نسبت اسی نام (الله) کی طرف مرکوز ہوتی ہے۔
ایک قول یہ بھی مروی ہے کہ تمام اسمائے الہٰی میں اسم اعظم "الله" ہی ہے۔
امام ابو القاسم الطبری رقم طراز ہیں:
الله تعالیٰ کے سارے اسماء کی نسبت فقط اسم الله کی طرف ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر یوں کہا جا سکتا ہے کہ "الکریم" اور "الرؤف" وغیرہ الله کے اسماء میں سے ایک اسم ہیں، لیکن یوں نہیں کہا جا سکتا کہ "الکریم" اور "الرؤف" کے اسماء میں سے ایک اسم "الله" (بھی) ہے۔ بہرحال مقصود و مطلوب یہ ہے کہ اسماء میں ذاتی اسم "الله" ہے۔ [شرح مسلم، للنووي: 535/5، 536]

الله تعالیٰ کے ننانوے اسمائے حسنی:
الله تعالیٰ کے تمام نام "حسنیٰ" غایت درجہ اچھے اور پیارے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سارے کے سارے نام اپنے اندر کوئی نہ کوئی صفت کاملہ لیے ہوئے ہیں، اور ان تمام صفات میں سے کسی بھی صفت میں کسی بھی قسم کا کوئی نقص اور عیب نہیں ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
«قُلِ ادْعُوا اللَّـهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَـٰنَ ۖ أَيًّا مَّا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ۚ» [بني اسرائيل: 110]
"آپ کہہ دیجئے کہ تم لوگ الله کو الله کے نام سے پکارو یا رحمٰن کے نام سے پکارو، جس نام سے چاہو اسے پکارو، تمام بہترین اور اچھے نام اسی کے لیے ہیں۔ "
مذکورہ آیت کریمہ میں الله عزوجل کے پیارے اسماء میں سے "الرحمٰن" وارد ہوا ہے، جو ایک انتہائی پیاری صفت "وسیع رحمت" پر مشتمل ہے۔
الله تعالیٰ کے اسماء کسی معین عدد میں محصور نہیں ہیں، اس کی دلیل رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا وہ فرمان ہے، جس میں آپ صلی الله علیہ وسلم دعا فرمایا کرتے تھے:
«أَسْئَلُكَ اللهُمَّ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ، سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِيْ كِتَابِكَ أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدً مِّنْ خَلْقِكَ أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِيْ عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ .» [مسند احمد: 394/1، 452 - صحيح ابن حبان، رقم: 2372 - مستدرك حاكم: 519/1 - سلسلة الصحيحة، رقم: 199]
"اے الله! میں تجھ سے تیرے ہر نام کے واسطے سے سوال کرتا ہوں، جو بھی نام تو نے اپنی ذات کے رکھے، یا جو نام تو نے اپنی کتاب میں اتارے، یا جو نام تو نے اپنی کسی مخلوق کو تعلیم فرما دیئے، یا جو نام تو نے اپنے خزانہ غیب میں محفوظ فرما دیئے ہیں۔ "
اور یاد رہے کہ جو اسماء الله، اس کے خزانہ غیب میں ہیں، ان کا ہمارے لیے حصر و احاطہ ناممکن ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ایک اور فرمان ملاحظہ فرمائیے گا، چناچہ سیدنا ابو ہریرة رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
«إِنَّ لِلَّهِ تِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ اسْمًا، مِائَةٌ إِلَّا وَاحِدًا لَا يَحْفَظُهَا أَحَدٌ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ» [صحيح بخاري، كتاب الشروط، رقم: 2736 و كتاب الدعوات، رقم: 6410 - صحيح مسلم، كتاب الذكر و الدعاء، رقم: 2676/6]
"یقیناً الله تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں، یعنی ایک کم سو (100) جس نے ان کا احصاء کیا وہ جنت میں داخل ہوگا۔ "

فائدہ: حدیث میں وارد کلمہ "احصاء" کا معنی پڑھنا سمجھنا، یاد کرنا اور ان کے مطابق عقیدہ بنانا ہے۔ یہ روایت مذکورہ روایت کے متعارض نہیں ہے، جیسا کہ ظاہر سے معلوم ہے، کیونکہ اس حدیث کا معنی ہے کہ " الله تعالیٰ کے جملہ ناموں میں سے صرف ننانوے (99) نام یاد کرنے والا اور ان کا احصاء کرنے والا جنتی ہے۔ "
یہ معنی نہیں کہ الله تعالیٰ کے کل ننانوے (99) نام ہی ہیں، اور ان کے علاوہ اس کا کوئی نام نہیں۔
الله تعالیٰ کے اسماء میں سے ننانوے (99) نام ذکر کر دیتے ہیں، جو ہمیں کتاب الله اور سنت رسول صلی الله علیہ وسلم سے ملے ہیں۔ تاکہ قارئین ان کو یاد کرکے، ان کے ذریعے اپنے رب تعالیٰ سے تعلق مضبوط کر لیں۔

کتاب الله سے:
اَللهُ (البقرہ: 128) معبود برحق
اَلْاَعْلٰی (الاعلی: 1) بلند و برتر
وَالْآخِرُ (الحدید: 3) آخر (وہ تب بھی ہوگا جب سب ختم ہو جائیں گے.)
اَلْبَرُّ (الطور: 28) بڑا محسن
اَلتَّوَّابُ (الحجرات: 12) توبہ قبول فرمانے والا
اَلْحَفِيْظُ (ھود: 57) حفاظت و نگہبانی کرنے والا
اَلْحَكِيْمُ (الحشر: 1) حکمت والا
اَلْحَمِيْدُ (الشوری: 28) حمد و تعریف والا
اَلْخَالِقُ (الحشر: 24) پیدا کرنے والا
اَلرَّحِيْمُ (الفاتحہ: 2) نہایت مہربان اور نرمی کرنے والا
اَلرَّقِيْبُ (الاحزاب: 53) تاک میں رہنے والا
اَلشَّكُوْرُ (فاطر: 34) بہت قدر دان
اَلْعَزِيْزُ (الحشر: 24) زبردست و غالب
اَلْعَفُوُّ (المجادلہ: 2) معاف کرنے والا
اَلْغَفُوْرُ (الزمر: 53) گناہ بخشنے والا
اَلْقَاهِرُ (الانعام: 18) غالب و زبردست و طاقتور
اَلْاَحَدُ (الاخلاص: 1) ایک یعنی تنہا
اَلْاَوَّلُ (الحدید: 3) پہلا (سب سے پہلے)
وَالظَّاهِرُ (الحدید: 3) ظاہر و عیاں اور غالب
اَلْبَصِيْرُ (الشوری: 11) دیکھنے والا
اَلْحَسِيْبُ (النساء: 6) حساب لینے والا
اَلْحَفِىُّ (مریم: 47) بڑا مہربان
اَلْحَلِيْمُ (البقرہ: 225) بردبار (دوراندیش)
اَلْخَبِيْرُ (التحریم: 3) خبر رکھنے والا
اَلْخَلَّاقُ (الحجر: 86) بہترین پیدا کرنے والا
اَلرَّزَّاقُ (الذاریات: 58) رزق دینے والا
اَلشَّاكِرُ (النساء: 147) قدردان
اَلشَّهِيْدُ (حم السجدہ: 53) گواہ
اَلْعَظِيْمُ (البقرہ: 255) بڑی عظمت والا
اَلْغَفَّارُ (نوح: 10) بڑا بخشنے والا
اَلْغَنِىُّ (محمد: 38) خود مختار و بے پرواہ
اَلْقُدُّوْسُ (الجمعہ: 1) عیوب و نقائص سے پاک
اَلْقَدِيْرُ (الملک: 1) بڑا با صلاحیت، طاقتور
اَلْكَبِيْرُ (الحج: 62) سب سے بڑا
اَلْمُتَعَالُ (الرعد: 9) بہت بلند
اَلْمَتِيْنُ (الذاریات: 58) مضبوط و طاقتور
اَلْمُصَوِّرُ (الحشر: 24) تصویر بنانے والا
اَلْمَلِيْكُ (القمر: 55) قدرت والا بادشاہ
اَلْمُهَيْمِنُ (الحشر: 23) نگہبان و محافظ
اَلْوَاسِعُ (البقرہ: 115) وسعتوں و فراخیوں والا
اَلْوَهَّابُ (آل عمران: 8) سب سے زیادہ عطاء کرنے والا
الْاِلٰهُ (النحل: 51) معبود برحق
اَلْجَبَّارُ (الحشر 23) زبردست قابو کرنے والا
اَلْحَقُّ (الحج: 62) سچا مالک
اَلْحَافِظُ (یوسف: 64) حفاظت کرنے والا، نگہبان
اَلْعَلِيْمُ (التحریم: 2) سب سے زیادہ علم والا
اَلصَّمَدُ (الاخلاص: 2) بے نیاز
اَلْقَيُّوْمُ (البقرہ: 255) بذات خود قائم و دائم اور ہر چیز پر محافظ و نگران
اَلْمُجِيْبُ (ھود: 61) قبول کرنے والا
اَلْلَّطِيْفُ (الملک: 14) باریک بیں
اَلسَّمِيْعُ (المجادلة: 1) سب سننے والا
اَلْوَكِيْلُ (آل عمران: 173) کارساز (کام بنانے والا)
اَلْعَلِىُّ (الانعام: 65) سب سے بلند و بالا
اَلْقَادِرُ (الشوری: 19) قدرت، اختیار والا
اَلْمَلِكُ (ھود: 73) حقیقی بادشاہ
اَلْوَاحِدُ (الرعد: 16) اکیلا
اَلْقَهَّارُ (ابراہیم: 48) بڑا عذاب دینے والا
اَلْكَرِيْمُ (الانفطار: 6) مہربان و سخی
اَلْمُتَكَبِّرُ (الحشر: 23) غرور و تکبر کرنے والا
اَلْمُحِيْطُ (حم السجدہ: 54) گھیراؤ کرنے والا
اَلْمُقْتَدِرُ (الکہف: 45) قدرت والا
اَلْمَوْلٰی (الانفال: 40) کارساز و مالک و آقا
اَلْوَارِثُ (الحجر: 23) وارث (حامی و مددگار)
اَلْوَدُودُ (البروج: 14) بہت محبت کرنے والا
اَلْاَكْرَمُ (العلق: 3) بے پایاں کرم والا
وَالْبَاطِنُ (الحدید: 3) پوشیدہ
اَلْبَارِئُ (الحشر: 24) پیدا کرنے والا
اَلسَّلَامُ (الحشر: 23) سلامتی والا
اَلرَّءُوْفُ (النحل: 7) نرمی کرنے والا
اَلْمُبِيْنُ (النور: 25) واضح کرنے والا
اَلْقَرِيْبُ (البقرة: 186) (بندوں کے) نزدیک
اَلْفَتَّاحُ (سبا: 26) رحمت و رزق کے دروازے کھولنے والا
اَلرَّحْمٰنُ (الفاتحہ: 2) نہایت مہربان
اَلْمُقِيْتُ (النساء: 85) ہر جاندار کو خوراک دینے والا
اَلنَّصِيْرُ (النساء: 45) مددگار (مدد کرنے والا)
اَلْعَالِمُ (الشوری: 51) علم والا
اَلْقَوِىُّ (الشوری: 19) سب سے زیادہ قوت والا
اَلْمُؤْمِنُ (الحشر: 23) امن دینے والا
اَلْمَجِيْدُ (الحشر: 23) بزرگی والا بڑی شان والا
اَلْوَلِىُّ (الشوری: 9) مددگار، دوست

وه اسماء جو سنت رسول صلى الله عليه وسلم میں وارد ہوئے ہیں:
اَلْجَمِيْلُ (مسلم: 147) سب سے زیادہ خوبصورت
اَلْحَكَمُ (ابوداؤد: 4955) فیصلہ کرنے والا
اَلسُّبُّوحُ (مسلم: 487) ہر برائی اور عیب سے پاک
اَلْقَابِضُ (ترمذى: 3007) تنگ کرنے والا
اَلْمُقَدِّمُ (بخارى: 1120) آگے لانے والا
اَلْمَنَّانُ (ابوداؤد: 1495) احسان کرنے والا
اَلْحَىُّ (ابوداؤد: 4012) ہمیشہ زندہ
اَلْمُؤَخِّرُ (بخارى: 1120) پیچھے ہٹانے والا
اَلطَّيِّبُ (مسلم: 1015) پاک
اَلْجَوَّادُ (ترمذى: 2495) سب سے زیادہ نوازنے والا
اَلرَّفِيْقُ (بخارى: 6927) مہربان دوست
اَلسَّيِّدُ (ابوداؤد: 4806) سردار
اَلْبَاسِطُ (ترمذى: 3507) کشادہ کرنے والا
اَلْمُعْطِيُ (بخارى: 3116) دینے والا
اَلْوِتْرُ (بخارى: 6410) تنہا و یکتا
اَلشَّافِىُ (بخارى: 5742) شفاء عطا کرنے والا
اَلرَّبُّ (النسائى: 572) پالنے والا
اَلْمُحْسِنُ (صحيح الجامع: 1819) احسان کرنے والا

یہ الله تعالىٰ کے اسماء حسنیٰ ہیں جنہیں ہم نے کتاب الله اور سنت رسول صلی الله علیہ وسلم سے اختیار کیا ہے، تفصیل کچھ یوں ہے کہ ان اسماء میں سے اکیاسی (81) نام کتاب الله میں اور اٹھارہ (18) نام حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم میں آئے ہیں، اگرچہ صفت "حفی" کو ان ناموں میں شمار کرنے میں تردد واقع ہوا ہے، کیونکہ کلام الله میں یہ صفت مقید وارد ہوئی ہے، ابراہیم علیہ السلام اپنے باپ آزر کو سلام کہتے ہیں، اور فرماتے ہیں میں اپنے رب سے آپ کے لیے مغفرت طلب کروں گا: (اِنَّهُ کَانَ بِيْ حَفِیًّا) "وہ بے شک مجھ پر بڑا مہربان ہے۔ "

جملہ معترضہ:
ابراہیم علیہ السلام اپنے کافر باپ کا انتہائی شدید جواب سن کر بھی حد ادب سے نہیں نکلے اور اس کے لیے سلامتی کی دعا کی، گویا یہ کہنا چاہا کہ اگرچہ آپ مجھے سنگسار کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں، لیکن مجھ سے آپ کو کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی، میں اپنے رب سے آپ کی مغفرت کی دعا کروں گا، وہ مجھ پر بہت ہی کرم فرما ہے، مجھے مایوس نہیں کرے گا۔
مفسرین لکھتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام نے برائی کا جواب بھلائی سے دیا، جیسا کہ الله رب العزت نے مومنین کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ایک وصف یہ بھی بیان کیا کہ جب جاہل لوگ ان سے گفتگو کرنے لگتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ سلام ہو۔ یعنی میں تم سے جگھڑنا نہیں چاہتا ہوں۔
«وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا» [الفرقان: 63]
"اور جب نادان لوگ ان کے منہ لگتے ہیں تو (رحمٰن کے نیک بندے) سلام کرکے گزر جاتے ہیں۔ "
مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کا اپنے باپ سے یہ وعدہ کہ وہ الله سے اس کے لیے مغفرت طلب کریں گے، اس توقع کی بنیاد پر تھا کہ وہ اسلام لے آئے گا اور کفر پر نہیں مرے گا، چناچہ ایک طویل مدت تک وہ اس کے لیے استغفار کرتے رہے، شام کی طرف ہجرت کر جانے، مسجد حرام بنانے اور اسحاق و اسماعیل کی ولادت کے بعد بھی اس کے لیے دعا کرتے رہے، جیسا کہ سورة ابراہیم آیت (41) میں ارشاد ہے:
«رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ»
"اے ہمارے رب! قیامت کے دن مجھے معاف کر دینا، اور میرے ماں باپ کو اور تمام مومنوں کو بھی۔ "
لیکن جب انہیں یقین ہو گیا کہ وہ الله کا دشمن ہے تو اس سے اپنی براءت کا اعلان کر دیا، جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
«وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِّلَّـهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ ۚإِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ» [التوبة: 114]
"اور ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے دعائے مغفرت مانگنا صرف اس وعدے کے سبب تھا جو انہوں نے اس سے کر رکھا تھا۔ پھر جب ان پر یہ بات ظاہر ہو گئی کہ وہ الله کا دشمن ہے تو انہوں نے اس سے اظہار براءت کر دیا، واقعی ابراہیم بڑے نرم دل اور بردبار تھے۔ "

یقیناً وہ الله باری تعالیٰ طاق ہے اور طاق عدد کو محبوب رکھتا ہے:
«وِتْرٌ:» ‏‏‏‏ وتر کے معنی ہیں مفرد یعنی ایک ہونا، اور عمومی طور پر اس کا استعمال جفت کے مقابل ہوتا ہے۔
معلوم ہوا کہ الله تعالیٰ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک اور نظیر و مماثل نہیں ہے۔
«يُحِبُّ الْوِتْرَ:» ‏‏‏‏ طاق کو پسند فرماتا ہے تو اس سے اعمال اور اکثر اطاعت کے کاموں میں عددِ طاق کی فضیلت معلوم ہوتی ہے۔ جیسے وتر نماز کی تعداد ایک، تین، پانچ، سات، نو، وغیرہ اور آپ صلی الله علیہ وسلم کا عید کے روز طاق کھجوریں کھانا وغیرہ۔
مذکورہ حدیث کی رو سے بھی نماز جنازہ میں تین (طاق) صفیں بنانا مستحب عمل ہے۔ [احكام الجنائز، للالباني، ص: 99]
   صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث/صفحہ نمبر: 34   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1178  
´(قسموں اور نذروں کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ کے ایک کم سو (ننانویں) نام ہیں۔ جس نے ان کو ضبط (یاد) رکھا وہ جنت میں داخل ہو گا۔ (بخاری و مسلم) ترمذی اور ابن حبان نے وہ نام بھی بیان کئے ہیں اور تحقیق سے یہ ثابت ہے کہ اصل حدیث میں اسماء کی تفصیل نہیں ہے بلکہ کسی راوی نے اپنی طرف سے ان کو درج کر دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1178»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الشروط، باب ما يجوز من الاشتراط...، حديث:2736، ومسلم، الذكر والدعاء، باب في أسماء الله تعالي...، حديث:2677، سردالأسماء عند الترمذي، الدعوات، حديث:3507، وابن حبان (الإحسان)"2 /88، 89، حديث:805، وسنده ضعيف، الوليد بن مسلم لم يصرح بالسماع المسلسل.»
تشریح:
1. مذکورہ روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جو انھیں شمار کرے گا یا یاد کرے گا جنت میں داخل ہو جائے گا۔
لیکن ان ننانوے ناموں کی تفصیل کسی ایک ہی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے‘ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے جو نام قرآن مجید اور صحیح احادیث سے ثابت ہیں ان کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے۔
واللّٰہ أعلم۔
اسمائے حسنیٰ کی مکمل تفصیل اور تحقیق کے لیے دیکھیے: (قرآنی و اسلامی ناموں کی ڈکشنری اور نومولود کے احکام و مسائل‘ طبع دارالسلام) 2.مذکورہ حدیث کو اس باب میں ذکر کرنے سے مقصود یہ بتانا ہے کہ جس کسی نے ان اسماء کے ساتھ قسم کھائی تو وہ قسم منعقد ہو جائے گی اور درست ہو گی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1178   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3860  
´اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نناوے نام ہیں ایک کم سو، جو انہیں یاد (حفظ) کرے ۱؎ تو وہ شخص جنت میں داخل ہو گا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الدعاء/حدیث: 3860]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
شمار کرنے کی تشریح مختلف انداز میں کی گئی ہے، مثلاً:
اللہ سےدعا کرتے وقت سب نام لیے جائیں یا ان ناموں کے مطابق عملی زندگی اختیار کی جائے، مثلاً:
اللہ کا نام رزاق ہے تو بندے کو چاہیے کہ رزق کے لیے اسی پر اعتماد کرے اور رزق حلال پر اکتفا کرے۔
ایک قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ان صفات پر ایمان رکھنا مراد ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھیے:  (فتح الباري: 11/ 270)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3860   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3861  
´اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں ایک کم سو، چونکہ اللہ تعالیٰ طاق ہے اس لیے طاق کو پسند کرتا ہے جو انہیں یاد کرے گا وہ جنت میں داخل ہو گا، اور وہ ننانوے نام یہ ہیں: «الله» اسم ذات سب ناموں سے اشرف اور اعلیٰ، «الواحد» اکیلا، ایکتا، «الصمد» بے نیاز، «الأول» پہلا، «الآخر» پچھلا، «الظاهر» ظاہر، «الباطن» باطن، «الخالق» پیدا کرنے والا، «البارئ» بنانے والا، «المصور» صورت بنانے والا، «الملك» بادشاہ، «الحق» سچا، «السلا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الدعاء/حدیث: 3861]
اردو حاشہ:
فوئد و مسائل:
مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے تاہم اللہ کے جونام قرآن مجید اور صحیح احادیث میں آئے ہیں ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے گزشتہ روایت جو کہ حسن درجے کی ہے اس میں یہ بھی مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جوانہیں شمار کرے گا اور ایک دوسری روایت کے مطابق جو انہیں یاد کرے گا جنت میں داخل ہو جائے گا۔
لیکن ان ننانوے ناموں کی تفصیل کسی ایک بهی صحیح حدیث سے ثابت نہیں لہٰذا اللہ کے جو نام قرآن مجید اور صحیح احادیث سے ثابت ہیں ان کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے۔
واللہ اعلم۔

اسمائے حسنیٰ کی تفصیل کے لیے دیکھیے: (قرآنی واسلامی ناموں کی ڈکشنری اور  نو مولود کے احکام و مسائل، طبع دارالسلام، لاہور)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3861   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3507  
´باب:۔۔۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ننانوے (۹۹) نام ہیں جو انہیں شمار کرے (گنے) گا وہ جنت میں جائے گا، اور اللہ کے ننانوے (۹۹) نام یہ ہیں: «الله» اسم ذات سب ناموں سے اشرف و اعلی، «الرحمن» بہت رحم کرنے والا، «الرحيم» مہربان، «الملك» بادشاہ، «القدوس» نہایت پاک، «السلام» سلامتی دینے والا، «المؤمن» یقین والا، «المهيمن» نگہبان، «العزيز» غالب، «الجبار» تسلط والا، «المتكبر» بڑائی والا، «الخالق» پیدا کرنے والا، «البارئ» پیدا کرنے والا، «المصور» صورت بنانے والا،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3507]
اردو حاشہ:
وضاحت:
نوٹ:
(ننانوے ناموں کے ذکر کے ساتھ یہ حدیث ضعیف ہے،
اس سند سے بخاري میں ناموں کا ذکر بھی نہیں ہے،
دیکھیے پچھلی حدیث)

   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3507   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1164  
1164- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ کے ننا نوے نام ہیں یعنی ایک کم سو، جو انہیں یاد کرلے گا وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ وتر ہے اور وتر کوپسند کرتا ہے۔‏‏‏‏ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1164]
فائدہ:
اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے ناموں کا ذکر ہے، اور ان کو پڑھنے اور یاد رکھنے کی فضیلت کا فائده بیان ہے، اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اللہ ا کیلا ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1162   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2736  
2736. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں، یعنی سو سے ایک کم ہے، جس شخص نے ان کو یاد کیا تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2736]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں آنحضرت ﷺ نے سو میں سے ایک استثناءکیا۔
معلوم ہوا کثیر میں سے قلیل کا استثناء درست ہے۔
اللہ پاک کے یہ ننانوے نام اسماءالحسنیٰ کہلاتے ہیں۔
ان میں صرف ایک نام یعنی اللہ اسم ذاتی ہے اور باقی سب صفاتی نام ہیں۔
ان میں سے اکثر قرآن مجید میں بھی مذکور ہوئے ہیں‘ باقی احادیث میں۔
سب کو یکجا کیا گیا ہے۔
ہم نے اپنی مشہور کتاب مقدس مجموعہ کے آخر میں اسماءالحسنیٰ کو مع ترجمہ کے ذکر کردیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2736   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7392  
7392. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے ننانو نے نام ہیں، یعنی سو سے کم ایک کم۔ جو کوئی انہیں یاد کر لے وہ جنت میں داخل ہوگا۔ أحْصَیْنَاہ کے معنی ہیں: حفظناه یعنی ہم نے اسے محفوظ کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7392]
حدیث حاشیہ:
سورہ یٰسین کی آیت (وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُبِينٍ) (یٰسین: 12)
میں یہ لفظ وارد ہوا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7392   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2736  
2736. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں، یعنی سو سے ایک کم ہے، جس شخص نے ان کو یاد کیا تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2736]
حدیث حاشیہ:
(1)
اقرار میں کسی قسم کی شرط اور استثنا جائز ہے، خواہ زیادہ مقدار میں سے تھوڑی کا استثنا ہو یا اس کے برعکس تھوڑی مقدار میں زیادہ کا استثنا ہو کیونکہ قرآن میں دونوں استثنا موجود ہیں، ایک یہ ہے:
﴿إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ إِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغَاوِينَ ﴿٤٢﴾ )
بےشک میرے بندوں پر تیرا کچھ زور نہ چل سکے گا مگر ان لوگوں پر جو گمراہ ہو کر تیری پیروی کریں گے۔
(الحجر42: 15)
اور دوسرا استثنا یہ ہے:
﴿وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ ﴿٣٩﴾ إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ ﴿٤٠﴾ )
اور میں ان سب کو بہکا کے چھوڑوں گا مگر تیرے مخلص بندے اس سے محفوظ رہیں گے۔
(الحجر40،39: 15)
ان میں سے ایک، دوسرے سے زیادہ ہے اور ان میں استثنیٰ واقع ہوا ہے۔
معلوم ہوا کہ دونوں قسم کے استثنا صحیح ہیں۔
جمہور کا یہی موقف ہے۔
بہرحال اقرار میں کوئی شرط لگانا یا کسی کو مستثنیٰ کرنا صحیح ہے۔
(فتح الباري: 434/5) (2)
واضح رہے کہ اس حدیث میں ان اسمائے حسنیٰ کی خبر دی گئی ہے جنہیں یاد کرنے اور ان کے مطابق عمل کرنے والے کو جنت کی خوش خبری دی گئی ہے۔
ویسے اللہ تعالیٰ کے ننانوے ناموں کے علاوہ بھی بے شمار نام ہیں۔
ان میں سے اکثر قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں۔
ان میں لفظ "اللہ" اسم ذاتی ہے اور باقی صفاتی نام ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2736   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6410  
6410. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: اللہ تعالٰی کے ننانوے یعنی ایک کم سو نام ہیں جو شخص بھی انہیں یاد کرے گا وہ جنت میں جائے گا۔ اللہ طاق (ایک) ہے اور طاق کو پسند کرتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6410]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جیسا کہ دوسری حدیث میں اس کی صراحت ہے۔
(صحیح البخاري، الشروط، حدیث: 2736) (2)
کتاب و سنت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت کے سو سے بہت زیادہ نام ہیں۔
ننانوے ناموں کی تخصیص صرف اس بنا پر ہے کہ ان کا یاد کرنا جنت میں داخلے کا سبب ہے۔
ان اسماء کو یاد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انہیں بار بار پڑھے اور ان کے تقاضوں کو پورا کرے۔
ان اسماء کے مجموعے کو اسماء حسنیٰ کہا جاتا ہے۔
ان میں بعض نام ایسے ہیں جنہیں اس اعتبار سے ایک خاص عظمت اور امتیاز حاصل ہے کہ اگر ان کے ذریعے سے دعا کی جائے تو قبولیت کی زیادہ امید کی جا سکتی ہے۔
ان اسماء کو ''اسم اعظم'' کا نام دیا گیا ہے۔
وہ کوئی ایک نام نہیں جیسا کہ عوام میں مشہور ہے بلکہ متعدد اسمائے حسنیٰ کو ''اسم اعظم'' کہا گیا ہے۔
عوام میں جو باتیں اسم اعظم کے متعلق مشہور ہیں وہ بالکل بے اصل اور خود ساختہ ہیں۔
(3)
اسمائے حسنیٰ کے مقابلے میں لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی ننانوے نام گھڑ لیے ہیں، یہ بھی بے بنیاد ہیں۔
ہم ان کے متعلق مستقل بحث، حدیث: 7392 کے فوائد میں کریں گے۔
بإذن اللہ تعالیٰ
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6410   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7392  
7392. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے ننانو نے نام ہیں، یعنی سو سے کم ایک کم۔ جو کوئی انہیں یاد کر لے وہ جنت میں داخل ہوگا۔ أحْصَیْنَاہ کے معنی ہیں: حفظناه یعنی ہم نے اسے محفوظ کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7392]
حدیث حاشیہ:

اس عنوان کی غرض اللہ تعالیٰ کے اسماء کو ثابت کرنا ہے جو اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں۔
یہ نام اس توحید کا حصہ ہیں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا اوراپنی اُمت کو اسے اختیار کرنے کی دعوت دی۔
اللہ تعالیٰ کے جتنے بھی نام ہیں وہ اس کی جلالت وعظمت پردلالت کرتے ہیں اسی لیے انھیں (الْحُسْنَى)
کہا جاتا ہے، مثلاً:
۔
العلیم:
اس ذات کو کہتے ہیں جس کا علم تمام کائنات کا احاطہ کیے ہوئے اور زمین وآسمان میں ایک ذرہ بھی اس سے اوجھل نہ ہو۔
۔
القدیر:
اس ہستی کو کہا جاتا ہے جو ایسی زبردست طاقت کی مالک ہو جسے کوئی عاجز نہ کرسکے۔
۔
الرحیم:
کا لفظ اللہ تعالیٰ کی اس عظیم الشان رحمت پردلالت کرتا ہے جو ہرچیز سے وسیع ہے۔

یہ حدیث اللہ تعالیٰ کے اسماء کو نناوے میں منحصر کرنے کی دلیل نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نام اس تعداد سے کہیں زیادہ ہیں۔
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے نناوے نام ایسے ہیں جنھیں یاد کرلینے سے جنت کا پروانہ مل جاتا ہے جیسا کہ کوئی شخص کہے:
میرے پاس سو کتابیں ہیں جو میں نے غریب طلباء میں تقسیم کرنی ہیں، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اس کے پاس سوسے زیادہ کتابیں نہیں ہیں۔
ان میں سے کچھ نام ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو آگاہ کیا ہے اور بعض ایسے ہیں جنھیں علم غیب میں رکھاہے کیونکہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(اللَّهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ وَابْنُ عَبْدِكَ وَابْنُ أَمَتِكَ نَاصِيَتِي بِيَدِكَ مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ عَدْلٌ فِيَّ قَضَاؤُكَ أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ أَوْ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِيعَ قَلْبِي وَنُورَ صَدْرِي وَجِلَاءَ حُزْنِي وَذَهَابَ هَمِّي)
جوشخص کسی مصیبت یا پریشانی میں مبتلا ہو تو وہ درج ذیل دعا پڑھے، اللہ تعالیٰ اس کے رنج والم دور کر دے گا اور اس کے بدلے اسے خوشی عطا فرمائےگا:
" اے اللہ! بے شک میں تیرا بندہ ہوں۔
تیرے بندے کا فرزند ہوں۔
تیری بندی کا لخت جگر ہوں۔
میری پریشانی تیرے ہاتھ میں ہے۔
تیرا حکم مجھ پر جاری ہے۔
میرے متعلق تیرا فیصلہ عدل وانصاف پر مبنی ہے۔
میں تجھ سے تیرے ہر اس نام کے طفیل سوال کرتا ہوں جوتونے اپنے لیے رکھا ہے یا وہ اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھایا ہے یا اسے تونے اپنی کتاب میں اُتارا ہے یا اسے اپنے پاس علم غیب میں ہی رکھ لیا ہے۔
توقرآن کو میرے دل کی بہار، میرے غم کا مداوا اور میری پریشانی کا علاج بنا دے۔
(مسندأحمد: 391/1)

اس حدیث میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کچھ نام ایسے ہیں جو اس نے اپنی مخلوق کو سکھائے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جنھیں اپنے پاس علم غیب میں رکھا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے نناوے ناموں کی تعداد بیان کرنے کے متعلق کوئی حدیث ثابت نہیں، جامع ترمذی میں ایک روایت میں نناوے (99)
نام بیان ہوئے ہیں۔
(جامع الترمذي، الدعوات، حدیث: 3507)
لیکن یہ روایت ولید بن مسلم کی تدلیس کی بنا پر ضعیف ہے، البتہ بعض علماء نے اجتہاد سے کتاب وسنت سے نناوے نام بیان کیے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ وہی نام ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت کیا ہے۔
یہ نام اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق تکییف وتمثیل اور تحریف وتعطیل کے بغیر ثابت کیے جائیں۔
ان کے متعلق کوئی تاویل کرنے کی بجائے انھیں مبنی برحقیقت تسلیم کیا جائے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اللہ کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہ سب کچھ سننے والا دیکھنے والا ہے۔
(الشوریٰ: 11)
اللہ تعالیٰ کے یہ نام حسن کے بلند ترین اور اعلیٰ ترین مقام پر پہنچے ہوئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے ذاتی نام کے علاوہ باقی نام مشتق ہیں جو اس کی صفات پر دلالت کرتے ہیں، مثلاً:
عزیز۔
عزت پر اور حکیم، حکمت پر، اللہ تعالیٰ کے ناموں میں کوئی نام جامد نہیں اسی لیے "الدھر" اللہ تعالیٰ کا نام نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ کے ناموں کی تفصیل حسب ذیل ہے:
هـُـوَ اللهُ الْذِي لا إِلــَهَ إِلا هـُـوَ الـرَّحْــمَــنُ الـرَّحِــيـمُ الــمَــلِــكُ الــقـُـدُّوسُ الــسَّــلامُ الــمُـؤمِــنُ الـمُـهَــيْــمِـنُ الـعـَـزيــزُ الـجَــبَّــارُ الـمُـتَـكَـبِّـرُ الـخَـالِــقُ الــبَـاريءُ الــمُـصَـوِّرُ الــغـَـفـَّـارُ الــقـَهَّّـارُ الـوَهـَّـابُ الــرَزَّاقُ الـفـَـتـَّاحُ الـعَـلِــيـمُ الـقـَابـِضُ الـبَـاسِــط ُ الخـَافِـضُ الـرَّافِــعُ الــمُـعِــزُّ الــمُــذِلُ الـسَّـمِـيعُ الـبـصِــيــرُ الـحَـكـَـمُ الــعَــدْلُ الـلَّـطِـيـفُ الخَـبـِيـرُ الـحَـلِـيـمُ الـعـَظِـيـمُ الـغـَـفـُـورُ الـشَّـكُـورُ الـعَـلِـيُّ الـكـَبـِـيـرُ الحـَفِــيـظ ُ الـمُـقـِـيـتُ الحَـسِــيـبُ الـجَــلِـيـلُ الـكَـريـمُ الـرَّقِــيـبُ الـمُجـِـيـبُ الـوَاسِـعُ الـحَـكِــيـمُ الــوَدُودُ الــمَـجـِـيـدُ الــبَـاعِــثُ الـشَـهـِـيـدُ الــحَــقُّ الـوَكـِـيـلُ الــقـَويُّ الــمَــتِــيــنُ الـوَلـِيُّ الـحَــمِــيـدُ الـمحْـصِـي الــمُـبْـدِيءُ الــمُـعِــيـدُ الــمُـحْــيـِي الــمُــمِــيـتُ الــحَــيُّ الــقـَـيُّـومُ الـوَاجـِـدُ الــمَـاجـِـدُ الــوَاحِــدُ الــصَّــمَــدُ الـــقـَـادِر الـمُقـْـتَـدِرُ الــمُــقــَدِّمُ الـمُـؤَخِــرُ الأوَّلُ الآخِــــرُ الــظـَّاهِــرُ الـبـَاطِــنُ الـوَالـِـي الـمُـتَـعَـالي الـــبــِـرُّ الــتـَّوابُ الـمُـنْــتـَـقــِمُ الــعَــفـُـوُّ الــرَؤوفُ مَــالِـــكُ الــمُــلـْــكِ ذُو الــجَــلال ِ والإكـْــرَام ِ الـمُـقـْسِـط ُ الـجـَامِـعُ الــغـَـنـِيُّ الـمُـغـْـنِـي الــمَـانـِـعُ الـــضَّــارُّ الــنـَافِــعُ الـــنـُّـورُ الــهـَـادِي الــبـَـدِيـْـعُ الــبَـاقـِـي الـــوَارِثُ الـرَّشِـــيــدُ الـصــَّبُــورُ. واضح رہے کہ بعض نام صرف اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہیں مخلوق کے لیے ان کا استعمال صحیح نہیں، مثلاً رحمٰن، رزاق، الصمد اور خالق وغیرہ اور بعض نام ایسے ہیں جن کا مخلوق پر بھی اطلاق ہوتا ہے، مثلاً رؤف رحیم اللہ تعالیٰ کے لیے بھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی ان کا استعمال ہوا ہے۔
(التوبة: 128)
اسی طرح سمیع وبصیر اللہ تعالیٰ کے لیے بھی ہیں اور انسان کے لیے بھی بولے جاتے ہیں۔
(الدھر: 2)
یہ صرف لفظی اشتراک ہے۔
معنوی اعتبار سے خالق، مخلوق کے مشابہ نہیں اور نہ مخلوق اپنے خالق کے مشابہ ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے ناموں کے ساتھ موسوم اور اس نے اپنا کوئی نام ایسا نہیں رکھا جس کے ساتھ وہ پہلے سے موسوم نہ ہو، اسی طرح اپنی صفات کے ساتھ ہمیشہ سے ہمیشہ تک موصوف ہے۔
اس کی بعض صفات ذاتی ہیں جوازل سے ابد تک اس کے ساتھ قائم ہیں، مثلاً:
الوجہ، الید، السمع، البصر وغیرہ اور بعض صفات فعلی ہیں جو مشیت اور ارادے سے متعلق ہیں جیسے الخلق، الرزق، النزول وغیرہ۔
ان صفات کی نوعیت قدیم لیکن ان کا نفاذ جدید ہے۔
واللہ المستعان۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کے آخر میں مناسبت کی بنا پر ایک قرآنی لفظ کی لغوی تشریح فرمائی ہے۔
اس سے بعض شارحین نے یہ نکتہ کشید کیا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی مراد ان اسمائے حسنیٰ کو زبانی یاد کرنا ہے، حالانکہ زبانی طور پر بعض اوقات منافقین بھی انھیں پڑھتے ہیں جیسا کہ خوارج کے متعلق حدیث میں ہے کہ وہ قرآن کی تلاوت کریں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔
ہمارے نزدیک احصاء کی دو صورتیں ہیں:
۔
عملی:
۔
اسمائے حُسنیٰ کے معانی کے مطابق انسان خود کو ڈھالے، مثلاً:
الرحیم، رحم کرنے والا، الکریم سخاوت کرنے والا، العَفُوّ معاف کرنے والا، انسان کو چاہیے کہ وہ دوسرں پر رحم کرے، سخاوت کرے اور درگزر سے کام لے۔
۔
قولی:
انھیں یاد کرے، ورد کے طور پر پڑھے، ان کے طفیل اللہ تعالیٰ سے سوال کرے۔
اس میں مومن کے علاوہ دوسرے بھی شریک ہیں، تاہم اہل ایمان، ان کے مطابق عقیدہ رکھنے اورعمل کرنے میں دوسروں سے ممتاز ہیں۔
(فتح الباري: 462/13)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7392   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل،صحیح بخاری7392  
... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں، جو انہیں یاد کر لے گا وہ جنت میں جائے گا۔ ... [صحيح بخاري 7392]
اللہ کے لئے خدا کا لفظ بالاجماع جائز ہے
اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں الٰہ اور رب کا فارسی و اردو وغیر ہ زبانوں میں ترجمہ: خدا ہے۔
ابوالفضل محمود آلوسی البغدا دی (متوفی 1270ھ) لکھتے ہیں کہ:
اس مقام پرخلاصہ کلام یہ ہے کہ علماء اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ باری تعالیٰ کے بارے میں ان اسماء وصفات کا اطلاق (مطلق استعمال) جائز ہے بشرطیکہ ان کے بارے میں شارع سے (شریعت میں) اجازت وارد ہے اور یہ نام ممنوع ہیں اگر ان کی ممانعت وارد (یعنی ثابت) ہے۔
جن ناموں کے بارے میں نہ اجازت ہے اور نہ منع، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے بارے میں ان کے جواز اطلاق میں اختلاف ہے اور اللہ ان ناموں کے مفہوم کے ساتھ موصوف ہے۔
تمام زبانوں میں اللہ تعالیٰ کے بارے میں جو نام لیے جاتے ہیں، ان کے جواز اطلاق میں کسی کا بھی کوئی اختلاف نہیں ہے۔ (اگر اللہ کے بارے میں ایسانام لیا جائے جو ان زبانوں میں نہیں ہے) اور اس نام کے اطلاق سے اللہ کی مدح ہوئی ہے۔
نقص (خامی) کا وہم نہیں ہوتا تو جمہور اہل حق نے خطرے کے پیش نظر اسے مطلقاً منع کر دیا ہے جبکہ معتزلہ اسے مطلقاً جائز سمجھتے ہیں۔
قاضی ابوبکر بھی اسی طر ف مائل ہیں (کیونکہ الٰہ ورب کے بارے میں) خدا اور (ترکی زبان میں) تکری کا لفظ بغیر انکار کے مطلقاً شائع (ومشہور) ہے پس یہ اجماع ہے (کہ خدا کا لفظ جائز ہے)اور رد کیا گیا (یا وارد ہوا کہ) بے شک اگر اجماع ثابت ہو جائے تو شرعی اجازت کے لئے کافی ہے۔
[روح المعاني ج 5 جزء 9 ص 121 تحت آية: 180من سورة الاعراف]
اس طویل عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کے لئے خدا کا لفظ بالاجماع جائز ہے۔
اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ شاہ ولی اللہ الدہلوی (متوفی 1176ھ) نے قرآن مجید کے فارسی ترجمے میں جابجا، بڑی کثرت سے خدا کا لفظ لکھا ہے مثلاًً دیکھئے: [ص5 مطبوعه: تاج كمپني لميٹڈ]
سعدی شیرازی (متوفی 691ھ) نے بھی خدا اور خداوند کا لفظ کثر ت سے استعمال کیا ہے۔ مثلاًً دیکھئے: [بوستان ص 10]
مشہور اہل حدیث عالم فاخر الٰہ آبا دی (متوفی 1164ھ) نے فارسی زبان میں ایک بہترین رسالہ لکھا ہے جس کانام رسالہ نجاتیہ ہے۔ اس رسالے میں انہوں نے خدا کا لفظ لکھا ہے مثلاًً دیکھئے (ص 42) اسی طرح اور بھی بہت سے حوالے ہیں۔ یہ کتابیں علماء وعوام میں مشہور ومعروف رہی ہیں۔
کسی ایک مسلمان نے بھی یہ نہیں کہا کہ خدا کا لفظ ناجائز یا حرام یا شرک ہے۔
چودہویں پندرہویں صدی میں بعض لوگوں کا لفظ خدا کی مخالفت کرنا اجماع کے مخالف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
ا ……… اصل مضمون ………
اصل مضمون کے لئے دیکھئے ماہنامہ اشاعۃ الحدیث حضرو (شمارہ 20 صفحہ 40 اور 41) للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
   ماہنامہ الحدیث حضرو، حدیث/صفحہ نمبر: 40   

حدیث نمبر: 3506M
قَالَ يُوسُفُ، وَحَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
امام ترمذی کہتے ہیں کہ یوسف نے کہا: ہم سے بیان کیا عبدالاعلی نے اور عبدالاعلی نے ہشام بن حسان سے، ہشام نے محمد بن سیرین سے، محمد بن سیرین نے ابوہریرہ رضی الله عنہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مثل روایت کی۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3506M]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر ماقبلہ (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یہاں نناوے کا لفظ «حصر» کے لیے نہیں ہے کیونکہ ابن مسعود رضی الله عنہ کی ایک حدیث (جو مسند احمد کی ہے اور ابن حبان نے اس کی تصحیح کی ہے) میں ہے کہ آپ دعا میں کہا کرتے تھے: اے اللہ میں ہر اس نام سے تجھ سے مانگتا ہوں جو تم نے اپنے لیے رکھا ہے اور جو ابھی پردہ غیب میں ہے، اس معنی کی بنا پر اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مذکور بالا ان ننانوے ناموں کو جو یاد کر لے گا … نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ کا اصل نام اللہ ہے باقی نام صفاتی ہیں۔
۲؎: یعنی جو ان کو یاد کر لے اور صرف بسرد الاسماء معرفت اسے حاصل ہو جائے اور ان میں پائے جانے والے معنی و مفہوم کے تقاضوں کو پورا کر کے ان کے مطابق اپنی زندگی گزارے گا وہ جنت کا مستحق ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (2288 / التحقيق الثاني)