ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے ہر کسی کی دعا قبول کی جاتی ہے، جب تک کہ وہ جلدی نہ مچائے (جلدی یہ ہے کہ) وہ کہنے لگتا ہے: میں نے دعا کی مگر وہ قبول نہ ہوئی“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں انس رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3387]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الدعوات 22 (6340)، صحیح مسلم/الزکر والدعاء 25 (2735)، سنن ابی داود/ الصلاة 358 (1484)، سنن ابن ماجہ/الدعاء 8 (3853) (تحفة الأشراف: 12929)، وط/القرآن 8 (29)، و مسند احمد (2/396) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ دعا کرتے ہوئے انسان یہ کبھی نہ سوچے کہ دعا مانگتے ہوئے اتنا عرصہ گزر گیا اور دعا قبول نہیں ہوئی، بلکہ اسے مسلسل دعا مانگتے رہنا چاہیئے، کیونکہ اس تاخیر میں بھی کوئی مصلحت ہے جو صرف اللہ کو معلوم ہے۔
لا يزال يستجاب للعبد ما لم يدع بإثم أو قطيعة رحم ما لم يستعجل قيل يا رسول الله ما الاستعجال قال يقول قد دعوت وقد دعوت فلم أر يستجيب لي فيستحسر عند ذلك ويدع الدعاء
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3387
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس سے معلوم ہوا کہ دعا کرتے ہوئے انسان یہ کبھی نہ سوچے کہ دعاء مانگتے ہوئے اتنا عرصہ گذر گیا اور دعا قبول نہیں ہوئی، بلکہ اسے مسلسل دعاء مانگتے رہنا چاہیے، کیوں کہ اس تاخیر میں بھی کوئی مصلحت ہے جو صرف اللہ کو معلوم ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3387
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 448
´صرف اللہ ہی سے دعا مانگی جائے ` «. . . عن ابى هريرة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”يستجاب لاحدكم ما لم يعجل فيقول: قد دعوت فلم يستجب لي . . .» ”. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے ہر ایک کی دعا قبول ہوتی ہے جب تک جلد بازی نہ کرے، یعنی یہ نہ کہے کہ میں نے دعا کی ہے لیکن قبول نہیں ہوئی . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 448]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 6340، ومسلم 2735، من حديث مالك به]
تفقه ① اس حدیث کی شرح میں حافظ ابن عبدالبر فرماتے ہیں: اس حدیث میں دلیل ہے کہ آیت «اُدعُوْني استجب لكم» مجھ سے دعا مانگو میں تمہاری دعا قبول کروں گا، اپنے عموم پر نہیں ہے، اس کی تخصیص کی گئی ہے۔“[التمهيد 296/10] حافظ ابن عبدالبر نے سورۃ الانعام کی آیت [41] «فَيَكْشِفُ مَا تَدْعُوْنَ إِلَيْهِ إِنْ شَاءَ»”پس تم (مصیبتیں ٹالنے کے لئے) جو دعائیں کرتے ہو تو وہ (اللہ) اگر چاہے تو مصیبتیں دور کر دیتا ہے“ بھی بطور دلیل پیش کی ہے۔ ② دعا مانگنے کے بہت سے ارکان و آداب ہیں مثلاً: ➊ صرف اللہ ہی سے دعا مانگی جائے۔ ➋ غیر اللہ سے دعا نہ مانگی جائے۔ ➌ دل میں دعا کی مقبولیت کا یقین ہو۔ ➍ دعا مانگتے وقت دل و دماغ غافل نہ ہوں بلکہ آدمی پوری طرح اپنے رب کی طرف متوجہ ہو۔ ➎ کتاب و سنت کی مکمل اتباع ہو اور ہر قسم کی بدعت سے کلی اجتناب ہو۔ وغیرہ ③ نیز دیکھئے: [ح 336] ④ مشہور تابعی امام زید بن اسلم رحمہ الله فرماتے تھے، جو شخص بھی دعا کرتا ہے تو اس کی تین حالتیں ہوتی ہیں: ➊ یا تو اس کی دعا (فوراً) قبول ہو جاتی ہے۔ ➋ یا مؤخر (لیٹ) کر دی جاتی ہے۔ ➌ یا اس (کے گناہوں) کا کفارہ بن جاتی ہے۔ [الموطأ رواية يحييٰ 1/217 ح505 وسنده صحيح] ⑤ مشہور تابعی امام سعید بن المسیب رحمہ الله فرمایا کرتے تھے کہ (مرنے والا) آدمی اپنے (مرنے کے) بعد اپنی اولاد کی دعا کی وجہ سے آسمانوں کی بلندیوں جتنا اٹھایا جاتا ہے یعنی اس کے درجے بہت بلند ہوتے ہیں۔ [المؤطآ رواية يحيٰ 217/1 ح 507 و سنده صحيح] ⑥ اللہ کی رحمت سے کبھی ناامید نہیں ہونا چاہئے۔ ⑦ یہ شکوہ نہیں کرنا چاہئیے کہ میں نے بہت دعا کی لیکن قبول نہیں ہوئی۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 74
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1484
´دعا کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے ہر ایک کی دعا قبول کی جاتی ہے جب تک وہ جلد بازی سے کام نہیں لیتا اور یہ کہنے نہیں لگتا کہ میں نے تو دعا مانگی لیکن میری دعا قبول ہی نہیں ہوئی ۱؎۔“[سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1484]
1484. اردو حاشیہ: یعنی تاخیر سے بے چین ہوجائے۔ یا ویسے ہی مایوسی کا اظہار کرنے لگے۔ اور یہ دونوں ہی صورتیں مذموم ہیں۔ خیال رہے کہ قبولیت کے لئے ایک وقت مقرر ہے۔ لہذا بندے کو ہمیشہ مانگتے رہنا چاہیے۔ بے چین نہیں ہونا چاہیے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کی فرعون کے لئے بددعا چالیس سال بعد قبول ہوئی تھی۔ اور مایوسی(قنوط ویاس) کافروں کی صفت ہے۔ نیز قبولیت دعا کی کئی صورتیں ہوتی ہیں۔ ➊ عین مطلوب کا بروقت مل جانا۔ ➋ تاخیر سے ملنا۔جس میں کوئی نہ کوئی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے۔ ➌ بعض اوقات عین مطلوب تو نہیں دیا جاتا مگر اس کے بدلے کوئی اور شر دور کیا جاتا ہے۔ یا فائدہ پہنچا دیا جاتا ہے۔ ➍ یا اس کی دعا کو آخرت کےلئے زخیرہ کردیا جاتا ہے۔جب کہ انسان از حد محتاج ہوگا۔ (عون المعبود) کبھی ایسے بھی ہوتا ہے کہ ایک نافرمان اور عاصی قسم کا آدمی دعا کرتا ہے تو اس کا مطلوب اسے بڑی جلدی مل جاتا ہے۔مگر صالح انسان مانگتا رہتا ہے۔ اور اسے نہیں دیا جاتا۔ اس کی حقیقی حکمت تو اللہ ہی جانےمگر بعض بزرگوں کے چونکہ دست دعا بلند کرنا اور اے اللہ!اے اللہ! پکارنا بذاتہ عبادت اور محبوب عمل ہے۔اور اللہ عزوجل کو اچھا لگتا ہے۔کہ یہ بندہ اس کی چو ھٹ پر بیٹھا رہے۔اس لئے اس کا مطلوب اس کو نہیں دیا جاتا۔بلکہ اس کے درجات بلند کیے جاتے اور بعض دوسری نعمتیں دی جاتی ہیں۔ جب کہ دوسرا عاصی انسان اللہ کا مبغوض ہوتا ہے۔اور اللہ کو اس کے دربار میں حاضری پسند نہیں ہوتی۔تو جونہی وہ کوئی طلب پیش کرتا ہے۔ تو اللہ کی مشیت ہوتی ہے۔تو فورا ً اسے دے دی جاتی ہے۔نتیجتاً وہ اپنا مطلوب پاکر پھر سے اللہ سے غافل ہوجاتا ہے۔اسی طرح سے وہ تقرب الی اللہ اور اجر وثواب سے محروم کردیا جاتا ہے۔واللہ اعلم بالصواب۔ونسال اللہ العافیۃ۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1484
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3853
´دعا قبول ہوتی ہے بشرطیکہ جلدی نہ کرے۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے ہر ایک کی دعا قبول ہوتی ہے، بشرطیکہ وہ جلدی نہ کرے“، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! جلدی کا کیا مطلب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ یوں کہتا ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی لیکن اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول نہ کی“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الدعاء/حدیث: 3853]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) دعا کی قبولیت میں تاخیر ہو تو دعا کرتےرہنا چاہیے۔ ممکن ہے اس تاخیر میں بندے کے لیے بہتری ہو۔
(2) دعا مانگنا بہت بڑی نیکی اور عبادت ہے، لہٰذا اگر اللہ تعالیٰ کسی حکمت کی بنا پر بندے کو اس کی مطلوبہ چیز نہ دے تو بار بار دعا کرنے سےدعا کا ثواب بڑھتا چلا جاتا ہے اور یہ خود ایک انعام ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3853
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6936
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:" بندے کی دعا قبول ہوتی رہتی ہے، بشرطیکہ وہ گناہ اور قطع رحمی کی دعا نہ کرے۔ جب تک وہ جلد بازی سے کام نہ لے۔"پوچھا گیا اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! جلد بازی کیا ہے؟آپ نے فرمایا: بندہ کہتا ہے میں دعا کر چکا ہوں میں دعا کر چکا ہوں لیکن میں اس کو قبول ہوتی نہیں دیکھتا اور وہ دعا چھوڑبیٹھتا ہے(اور ناامید ہو جا تا ہے)۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:6936]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: يستحسر: وہ تھک ہار جاتا ہے اور دعا چھوڑ دیتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6936
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6936
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:" بندے کی دعا قبول ہوتی رہتی ہے، بشرطیکہ وہ گناہ اور قطع رحمی کی دعا نہ کرے۔ جب تک وہ جلد بازی سے کام نہ لے۔"پوچھا گیا اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! جلد بازی کیا ہے؟آپ نے فرمایا: بندہ کہتا ہے میں دعا کر چکا ہوں میں دعا کر چکا ہوں لیکن میں اس کو قبول ہوتی نہیں دیکھتا اور وہ دعا چھوڑبیٹھتا ہے(اور ناامید ہو جا تا ہے)۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:6936]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: يستحسر: وہ تھک ہار جاتا ہے اور دعا چھوڑ دیتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6936
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6340
6340. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے ہر ایک کی دعا قبول کی جاتی ہے جب تک وہ جلدی بازی سے کام نہ لے اور یوں کہنا شروع کر دے۔ میں نے دعا کی تھی لیکن میرے لیے وہ قبول نہیں ہوئی۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6340]
حدیث حاشیہ: قبولیت دعا کے لئے جلد بازی کرنا صحیح نہیں ہے۔ دعا اگر خلوص قلب کے ساتھ ہے اور شرائط وآداب دعا کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے تو وہ جلد یا بہ دیر ضرور قبول ہوگی۔ بظاہر قبول نہ بھی ہوتو وہ ذخیرہ آخرت بنے گی حدیث (یُستَجَابُ لأَحدِکُم ما لَم یعجل) کا یہی مطلب ہے کہ دعا میں مشغول رہو تھک ہار کر دعا کا سلسلہ نہ کاٹ دو نا امید ی کو پاس نہ آنے دو اور دعا برابر کرتے رہو۔ راقم الحروف کی زندگی میں ایسے بہت سے مواقع آئے کہ ہر طرف سے نا امیدیوں نے گھیر لیا مگر دعا کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔ آخر اللہ پاک کی رحمت نے دست گیری فرمائی اور دعا قبول ہوئی ایک آخری دعا اور ہے اور امید قوی ہے کہ وہ بھی ضرور قبول ہوگی یہ دعا تکمیل بخاری شریف اور خدمت مسلم شریف کے لئے ہے۔ حدیث کے باب کا مطلب یہ ہے کہ بندہ ناامیدی کا کلمہ منہ سے نہ نکالے اور اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو۔ مسلم شریف اور ترمذی کی روایت میں ہے جب تک گناہ یا ناطہ توڑنے کی دعا نہ کرے، دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔ اس لئے آدمی کو لازم ہے کہ دعا سے کبھی اکتائے نہیں اگر بالفرض جو مطلب چاہتا تھا وہ پورا نہ ہو تو یہ کیا کم ہے کہ دعا کا ثواب ملا۔ دوسری حدیث میں ہے کہ مومن کی دعا ضائع نہیں جاتی یا تو دنیا ہی میں قبول ہوتی ہے یا آخرت میں اس کا ثواب ملے گا اور دعا کے قبول ہونے میں دیر ہو تو جلدی نہ کرے نا امید نہ ہو جائے۔ بعض پیغمبروں کی دعا چالیس چالیس برس بعد قبول ہوئی ہے۔ ہر بات کا ایک وقت اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے وہ وقت آنا چاہئے(کل أمرمَرھُون بأوقاتِھَا) مثل مشہور ہے۔ اصل یہ ہے کہ دعا کی قبولیت کے لئے بڑی ضرورت اس چیز کی ہے کہ آدمی کا کھانا پینا پہننا رہنا سہنا سب حلال سے ہو حرام اور مشتبہ کمائی سے بچا رہے اس کے ساتھ باطہارت ہو کر رو بقبلہ خلوص دل سے دعا کرے اور اول اور آخرت اللہ کی تعریف اورثنا بیان کرے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے۔ (صلی اللہ علیہ وسلم) ان شرائط کے ساتھ کے جو دعا ہوگی وہ زود یا بدیر ضرور قبول کی جائے گی۔ نہ ہو اس سے مایوس امیدوار۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6340
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6340
6340. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے ہر ایک کی دعا قبول کی جاتی ہے جب تک وہ جلدی بازی سے کام نہ لے اور یوں کہنا شروع کر دے۔ میں نے دعا کی تھی لیکن میرے لیے وہ قبول نہیں ہوئی۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6340]
حدیث حاشیہ: (1) ایک روایت میں ہے کہ بندے کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے جب تک وہ گناہ اور قطع رحمی کی دعا نہ کرے اور جلد بازی کا مظاہرہ نہ کرے۔ پوچھا گیا: اللہ کے رسول! وہ جلد بازی کا مظاہرہ کیسے کرتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ''وہ کہتا ہے: میں نے دعا مانگی، دست سوال دراز کیا لیکن قبولیت کے اثرات نظر نہیں آتے، آخر کار تنگ آ کر دعا کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ '' (صحیح مسلم، الذکر والدعاء، حدیث: 6936 (2735)(2) قبولیت کا ایک وقت طے ہے، اس لیے اگر دعا کی قبولیت میں تاخیر ہو تو بھی دعا کرتے رہنا چاہیے ممکن ہے اس تاخیر میں کوئی بہتری ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اس دعا کو آخرت کے لیے ذخیرہ کر دے یا اس کے برابر اس سے کوئی بلا ٹال دے۔ بہرحال دعا مانگنا بہت بڑی نیکی اور عبادت ہے، لہذا اگر اللہ تعالیٰ اپنی کسی حکمت کی بنا پر بندے کو اس کی مطلوبہ چیز نہ دے تو بار بار دعا کرنے سے دعا کا ثواب بڑھتا چلا جاتا ہے اور یہ خود ایک بہت بڑا انعام ہے، لہذا ناامیدی کو اپنے پاس نہیں آنے دینا چاہیے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6340