عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اقرع بن حابس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، ابوبکر رضی الله عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اللہ کے رسول! آپ انہیں ان کی اپنی قوم پر عامل بنا دیجئیے، عمر رضی الله عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! آپ انہیں عامل نہ بنائیے، ان دونوں حضرات نے آپ کی موجودگی میں آپس میں توتو میں میں کی، ان کی آوازیں بلند ہو گئیں، ابوبکر نے عمر رضی الله عنہما سے کہا: آپ کو تو بس ہماری مخالفت ہی کرنی ہے، عمر رضی الله عنہ نے کہا: میں آپ کی مخالفت نہیں کرتا، چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی «يا أيها الذين آمنوا لا ترفعوا أصواتكم فوق صوت النبي»”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی آواز بلند نہ کرو“(الحجرات: ۲)، اس واقعہ کے بعد عمر رضی الله عنہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرتے تو اتنے دھیرے بولتے کہ بات سنائی نہیں پڑتی، سامع کو ان سے پوچھنا پڑ جاتا، راوی کہتے ہیں: ابن زبیر نے اپنے نانا یعنی ابوبکر رضی الله عنہ کا ذکر نہیں کیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- بعض نے اس حدیث کو ابن ابی ملیکہ سے مرسل طریقہ سے روایت کیا ہے اور اس میں عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہما کا ذکر نہیں کیا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3266]
وضاحت: ۱؎: یعنی: ابن زبیر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پست ترین آواز سے بات نہ کرنے کے سلسلے میں صرف عمر کا ذکر کیا، اپنے نانا ابوبکر رضی الله عنہ کا ذکر نہیں کیا۔