عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھے، میں نے آپ سے کچھ کہا، آپ خاموش رہے، میں نے پھر آپ سے بات کی آپ پھر خاموش رہے، میں نے پھر بات کی آپ
(اس بار بھی) خاموش رہے، میں نے اپنی سواری کو جھٹکا دیا اور ایک جانب
(کنارے) ہو گیا، اور
(اپنے آپ سے) کہا: ابن خطاب! تیری ماں تجھ پر روئے، تو نے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم سے تین بار اصرار کیا، اور آپ نے تجھ سے ایک بار بھی بات نہیں کی، تو اس کا مستحق اور سزاوار ہے کہ تیرے بارے میں کوئی آیت نازل ہو
(اور تجھے سرزنش کی جائے) عمر بن خطاب کہتے ہیں: ابھی کچھ بھی دیر نہ ہوئی تھی کہ میں نے ایک پکارنے والے کو سنا، وہ مجھے پکار رہا تھا، عمر بن خطاب کہتے ہیں: میں رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، آپ نے فرمایا:
”ابن خطاب! آج رات مجھ پر ایک ایسی سورۃ نازل ہوئی ہے جو مجھے ان تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے جن پر سورج نکلتا ہے اور وہ سورۃ یہ ہے
«إنا فتحنا لك فتحا مبينا» ”بیشک اے نبی! ہم نے آپ کو ایک کھلم کھلا فتح دی ہے
“ (الفتح: ۱)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،
۲- بعض نے اس حدیث کو مالک سے مرسلاً
(بلاعاً) روایت کیا ہے۔
[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3262]