عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ بنی سہم کا ایک شخص، تمیم داری اور عدی بن بداء کے ساتھ
(سفر پر) نکلا اور یہ سہمی
(جو تمیم داری اور عدی کا ہم سفر تھا) ایک ایسی سر زمین میں انتقال کر گیا جہاں کوئی مسلمان نہ تھا، جب اس کے دونوں ساتھی اس کا ترکہ لے کر آئے تو اس کے گھر والے
(ورثاء) کو اس کے متروکہ سامان میں چاندی کا وہ پیالہ نہ ملا جس پر سونے کا جڑاؤ تھا، چنانچہ
(جب مقدمہ پیش ہوا) رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے قسم کھلائی۔
(اور انہوں نے قسم کھا لی کہ ہمیں پیالہ نہیں ملا تھا) لیکن وہ پیالہ سہمی کے گھر والوں کو مکہ میں کسی اور کے پاس مل گیا، انہوں نے بتایا کہ ہم نے تمیم اور عدی سے اسے خریدا ہے۔ تب سہمی کے وارثین میں سے دو شخص کھڑے ہوئے۔ اور انہوں نے اللہ کی قسم کھا کر کہا کہ ہماری شہادت ان دونوں کی گواہی سے زیادہ سچی ہے۔ اور پیالہ ہمارے ہی آدمی کا ہے۔ ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: انہیں لوگوں کے بارے میں
«يا أيها الذين آمنوا شهادة بينكم» والی آیت نازل ہوئی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے، یہ ابن ابی زائدہ کی روایت ہے۔
[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3060]