ابوبکر صدیق رضی الله عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: اے لوگو! تم یہ آیت پڑھتے ہو «يا أيها الذين آمنوا عليكم أنفسكم لا يضركم من ضل إذا اهتديتم»۱؎ اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا بھی ہے کہ جب لوگ ظالم کو (ظلم کرتے ہوئے) دیکھیں پھر بھی اس کے ہاتھ پکڑ نہ لیں (اسے ظلم کرنے سے روک نہ دیں) تو قریب ہے کہ ان پر اللہ کی طرف سے عمومی عذاب آ جائے (اور وہ ان سب کو اپنی گرفت میں لے لے)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- کئی ایک نے یہ حدیث اسماعیل بن خالد سے مرفوعاً اسی حدیث کی طرح روایت کی ہے، ۳- بعض لوگوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے بلکہ ابوبکر رضی الله عنہ کے قول کے طور پر اسماعیل سے، اسماعیل نے قیس سے اور قیس نے ابوبکر سے روایت کی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3057]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر حدیث رقم 2168 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مسلمانو! تمہارے ذمہ ہے اپنے آپ کو بچانا اور سنبھالنا، جب تم سیدھی راہ پر رہو گے تو تمہیں گمراہ شخص نقصان نہ پہنچا سکے گا (المائدہ: ۱۰۵)۔
۲؎: یعنی اپنے آپ کو بچانے اور سنبھالنے کے لیے ضروری ہے کہ ظالم کو ظلم سے روک دیا جائے ایسا نہ کرنے سے اللہ کی طرف سے عمومی عذاب آنے کا خطرہ ہے پھر وہ سب کو اپنی گرفت میں لے لے گا۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3057
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: مسلمانو! تمہارے ذمہ ہے اپنے آپ کوبچانا اورسنبھالنا، جب تم سیدھی راہ پر رہو گے تو تمہیں گمراہ شخص نقصان نہ پہنچا سکے گا (المائدۃ: 105)۔
2؎: یعنی اپنے آپ کو بچانے اور سنبھالنے کے لیے ضروری ہے کہ ظالم کو ظلم سے روک دیا جائے ایسا نہ کرنے سے اللہ کی طرف سے عمومی عذاب آنے کا خطرہ ہے پھر وہ سب کو اپنی گرفت میں لے لے گا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3057
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4338
´امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا بیان۔` قیس بن ابی حازم کہتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا: لوگو! تم آیت کریمہ «عليكم أنفسكم لا يضركم من ضل إذا اهتديتم»”اے ایمان والو اپنی فکر کرو جب تم راہ راست پر چل رہے ہو تو جو شخص گمراہ ہے وہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا“(سورۃ المائدہ: ۱۰۵) پڑھتے ہو اور اسے اس کے اصل معنی سے پھیر کر دوسرے معنی پر محمول کر دیتے ہو۔ وھب کی روایت جسے انہوں نے خالد سے روایت کیا ہے، میں ہے: ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ فرما رہے تھے: ”لوگ جب ظالم کو ظلم کرتے دیکھیں، اور اس کے ہاتھ نہ پکڑیں تو قریب ہے کہ ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الملاحم /حدیث: 4338]
فوائد ومسائل: 1 سورۃ مائدہ کی مذکورہ بالا آیت میں ذکر کی گئی بات جب تم راہِ راست پر چل رہے ہو۔ ۔ اسی صورت میں صحیح ہو سکتی ہے، جب اہلِ ایمان شریعت کا تقاضا پورا کرتے ہوئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دے رہے ہوں اور پو ری قوت سے اس عمل میں منہمک اور مشغول ہوں۔ اگر اس سے اعراض اور پہلو تہی ہو تو راہِ راست پر ہونا خوش فہمی سے بڑھ کر نہیں۔ واللہ اعلم 2 امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے اہم ترین فریضے سے غفلت اور اس میں سست روی کا عقاب میرے خیا ل میں یہاں عذاب ہونا چاہیئے سب لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ سورۃ انفال میں فرمایا گیا ہے اور اس فتنے وبال اور عقاب میرے خیا ل میں یہاں عذاب ہو نا چاہیئے سے ڈرو جو تم میں سے محض ظالموں ہی کو نہ آئے گا۔ بلکہ دوسروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4338
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2168
´منکر سے نہ روکنے پر عذاب نازل ہونے کا بیان۔` ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ لوگو! تم یہ آیت پڑھتے ہو «يا أيها الذين آمنوا عليكم أنفسكم لا يضركم من ضل إذا اهتديتم»”اے ایمان والو! اپنی فکر کرو گمراہ ہونے والا تمہیں کوئی ضرر نہیں پہنچائے گا جب تم نے ہدایت پالی“(المائدہ: ۱۰۵) اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”جب لوگ ظالم کو دیکھ کر اس کا ہاتھ نہ پکڑیں (یعنی ظلم نہ روک دیں) تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا عذاب لوگوں پر عام کر دے“۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2168]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اے ایمان والو! اپنی فکرکرو گمراہ ہو نے والاتمہیں کوئی ضررنہیں پہنچائے گا جب تم نے ہدایت پالی۔ (المائدہ: 105) 2؎: ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ذہن میں جب یہ بات آئی کہ بعض لوگوں کے ذہن میں آیت ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ لاَ يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ﴾(المائدة: 105) سے متعلق یہ شبہ پیدا ہوا ہے کہ اپنی اصلاح اگرکر لی جائے تو یہی کافی ہے، امر بالمعروف و نہی عن المنکر ضروری نہیں ہے، تو اسی شبہ کے ازالہ کے لیے آپ نے فرمایا: لوگو! تم آیت کو غلط جگہ استعمال کررہے ہو، میں نے تو نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے، پھر آپ نے یہ حدیث بیان کی، گویا آیت کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ تمہارے سمجھانے کے باوجود اگر لوگ نیکی کا راستہ اختیار نہ کریں اور برائی سے باز نہ آئیں تو تمہارے لیے یہ نقصان دہ نہیں ہے جب کہ تم خود نیکی پر قائم اور برائی سے بچتے رہو، کیوں کہ امر بالمعروف کا فریضہ بھی نہایت اہم ہے، اگر کوئی مسلمان یہ فریضہ ترک کردے تو وہ ہدایت پر قائم رہنے والا کب رہے گا جب کہ قرآن ﴿إذا اھتدیتم﴾ کی شرط لگا رہا ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2168
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:3
قیس بن ابوحازم بیان کرتے ہیں: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی پھر انہوں نے یہ بات بیان کی: اے لوگو! تم یہ آیت تلاوت کرتے ہو۔ «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ»”اے ایمان والو! تم پر اپنی فکر لازم ہے اگر تم ہدایت یافتہ ہو، تو جو شخص گمراہ ہے، وہ تمہیں کچھ نقصان نہیں پہنچائے گا۔“[5-المائدة: 105](سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:) ہم نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”لوگ جب ظالم کو دیکھیں گے اور اس کے ہاتھوں کو نہیں پکڑیں گے تو عنقریب ان سب لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوگا۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر: 3]
فائدہ: خطبہ میں حمد و ثنا کا اہتمام کرنا مسنون ہے۔ خطبہ قرآن و حدیث سے مزین ہونا چاہیے اور بدعات و خرافات کی بھرپور انداز سے تردید کرنی چاہیے۔ اس حدیث میں موجود آیت کریمہ کے متعلق سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا تو انھوں نے فرمایا: ”یہ وہ وقت نہیں، آج تو تمھاری باتیں مان لی جاتی ہیں لیکن ہاں ایک ایسا زمانہ بھی آنے والا ہے کہ نیک باتیں کہنے اور بھلائی کا حکم کرنے والوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کی جائے گی، اور اس کی بات قبول نہیں کی جائے گی، اس وقت تم صرف اپنے نفس کی اصلاح میں لگ جاتا۔“[تفسير عبدالرزاق: 199/1، تفسير ابن جرير: 141/1] حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”حسن بصری نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے نہیں سنا ہے، اور اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔“[مجمع الزوائد: 22/7] سعید بن مسیب رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں: جب تم نے اچھی بات کی نصیحت کر دی اور بری بات سے روک دیا، پھر بھی کسی نے برائیاں کیں اور نیکیاں چھوڑ دیں تو اس کا تمھیں کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ [تفسير الطبري: 148/11، تفسير ابن كثير: 399/5، طبع دار عالم الكتب] بعض لوگ اس آیت کا یہ مطلب سمجھتے ہیں کہ انسان خود نیکی پر قائم رہے، دوسروں کی گمراہی اس کو کوئی نقصان نہیں دے سکتی، یہ مفہوم درست نہیں ہے۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس آیت کا صحیح مفہوم واضح فرما دیا کہ اپنے آپ کو نیک اعمال میں مصروف رکھو تاکہ گمراہیوں کا تم پر اثر واقع نہ ہو، لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے رہو اور گناہوں سے روکتے رہو ورنہ تم خود اس سے متاثر ہو کر گمراہی میں مبتلا ہو جاؤ گے۔ آج لوگوں نے نھی عن المنکر پر عمل چھوڑ رکھا ہے، جس کے نتیجے میں عذاب عام نازل ہو رہے ہیں، اور ایمان والے خود بھی انہی گمراہیوں میں مبتلا ہوتے جا رہے ہیں۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 3