الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: تفسیر قرآن کریم
3. باب وَمِنْ سُورَةِ الْبَقَرَةِ
3. باب: سورۃ البقرہ سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 2966
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَكِيمٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، قَالَ: " سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ عَنِ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَقَالَ: كَانَا مِنْ شَعَائِرِ الْجَاهِلِيَّةِ، فَلَمَّا كَانَ الْإِسْلَامُ أَمْسَكْنَا عَنْهُمَا فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا سورة البقرة آية 158 قَالَ: هُمَا تَطَوُّعٌ وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ سورة البقرة آية 158 " قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عاصم الأحول کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی الله عنہ سے صفا اور مروہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا: یہ دونوں جاہلیت کے شعائر میں سے تھے ۱؎، پھر جب اسلام آیا تو ہم ان دونوں کے درمیان طواف کرنے سے رک گئے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت «إن الصفا والمروة من شعائر الله» (صفا و مروہ شعائر الٰہی میں سے ہیں) نازل فرمائی۔ تو جو شخص بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے اس کے لیے ان دونوں کے درمیان طواف (سعی) کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ان کے درمیان طواف (سعی) نفل ہے اور جو کوئی بھلائی کام ثواب کی خاطر کرے تو اللہ تعالیٰ اس کا قدردان اور علم رکھنے والا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2966]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الحج 80 (1648)، وتفسیر البقرة 21 (4496)، صحیح مسلم/الحج 43 (1278) (تحفة الأشراف: 929) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی ان علامات اور نشانیوں میں سے ہیں جن کی زمانہ جاہلیت میں پرستش و پوجا ہوتی تھی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2966 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2966  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی ان علامات اور نشانیوں میں سے ہیں جن کی زمانہ جاہلیت میں پرستش وپوجا ہوتی تھی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2966