عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو وعظ و نصیحت کا سلسلے میں اوقات کا خیال کیا کرتے تھے، اس ڈر سے کہ کہیں ہم پر اکتاہٹ طاری نہ ہو جائے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الأدب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2855]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/العلم 11 (68)، و 12 (70)، والدعوات 69 (6411)، صحیح مسلم/المنافقین 19 (2821) (تحفة الأشراف: 9254)، و مسند احمد (1/377، 425، 440، 443، 462) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: معلوم ہوا کہ وعظ و نصیحت کے لیے وقفے وقفے کے ساتھ کچھ وقت مقرر کرنا چاہیئے، کیونکہ ایسا نہ کرنے سے لوگوں پر اکتاہٹ طاری ہونے کا خطرہ ہے جس سے وعظ و نصیحت کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2855
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: معلوم ہوا کہ وعظ ونصیحت کے لیے وقفے وقفے کے ساتھ کچھ وقت مقررکرنا چاہئے، کیونکہ ایسا نہ کرنے سے لوگوں پر اکتاہٹ طاری ہونے کا خطرہ ہے جس سے وعظ ونصیحت کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2855
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 207
´روزانہ وعظ و نصیحت سے گریز` «. . . وَعَن شَقِيق: كَانَ عبد الله يُذَكِّرُ النَّاسَ فِي كُلِّ خَمِيسٍ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ لَوَدِدْتُ أَنَّكَ ذكرتنا كُلِّ يَوْمٍ قَالَ أَمَا إِنَّهُ يَمْنَعُنِي مِنْ ذَلِكَ أَنِّي أَكْرَهُ أَنْ أُمِلَّكُمْ وَإِنِّي أَتَخَوَّلُكُمْ بِالْمَوْعِظَةِ كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَخَوَّلُنَا بِهَا مَخَافَةَ السَّآمَةِ عَلَيْنَا . . .» ”. . . سیدنا شقیق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہفتے میں ہر جمرات کو وعظ اور نصیحت کیا کرتے تھے۔ ایک دن ایک صاحب نے ان سے کہا کہ اے ابوعبد الرحمن! ہماری خواہش ہے کہ آپ ہمیں ہر روز نصیحت فرماتے رہیں۔ اس پر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ (ایسا میں کر سکتا ہوں) لیکن اس طرح کرنے سے یہ چیز مانع ہے کے میں تمہں پریشانی میں ڈال دوں گا۔ اور یہ مجھے پسند نہیں ہے کہ تم کو ملال میں ڈال دوں۔ (کیونکہ تم روزانہ وعظ سنتے سنتے اکتا کر وعظ سننا چھوڑ دو گے) میں تمہں اس معاملے میں اس طرح رعایت اور خبرگیری رکھتا ہوں۔ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری خبرگیری کرتے تھے اور ہمارے اکتا جانے کا اندیشہ سے خاص رعایت و لحاظ فرماتے تھے۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 207]
تخريج الحدیث: [صحيح بخاري 70]، [صحيح مسلم 7127]
فقہ الحدیث: ➊ وعظ و نصیحت کی طوالت اور اختصار میں موقع محل اور عام سامعین کا خیال رکھنا مسنون ہے۔ ➋ دعوتی تقاریر اور تبلیغ کے لئے کوئی دن مخصوص کر لینا جائز ہے۔ ➌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا۔ ➍ جو لوگ ساری ساری رات یا رات کے بہت زیادہ حصے میں دھواں دھار تقریریں کرتے رہتے ہیں اور پھر صبح کی نماز سے غافل ہو کر سو جاتے ہیں، ان کا یہ عمل غلط اور قابل مذمت ہے۔ ➎ سائل کے سوال کا جواب دلیل سے دینا چاہئے۔ ➏ اگر کوئی پوچھے کہ حدیث مذکور میں سائل سے مراد کون ہیں؟ تو عرض ہے کہ ان سے مراد مشہور زاہد و عابد یزید بن معاویہ النخعی ہیں جیسا کہ حافظ ابن حجر نے اشارہ کیا ہے۔ دیکھئے: [فتح الباري 1؍164 ح70] یاد رہے کہ یہ مشہور یزید بن معاویہ الاموی کے علاوہ دوسرے شخص تھے، ان کی روایتیں کتاب الزہد للامام أحمد وغیرہ (اور ان کا ذکر صحیح بخاری میں جیسا کہ تقریب التہذیب: 7776 میں ہے) میں موجود ہیں اور قاضی ابوبکر بن العربی المالکی کو اپنی کتاب العواصم من القواصم [ص232۔ 233] میں عجیب غلطی لگی تھی۔ وہ یزید بن معاویہ النخعی کو یزید بن معاویہ الاموی سمجھ بیٹھے، حالانکہ ایسا سمجھنا بالکل غلط ہے۔ ديكهئے: [كتاب الزهد للامام أحمد ص367 ح2150] ◄ قاضی ابوبکر نے کتاب الزہد کی طرف جو روایت منسوب کی ہے وہ اصل کتاب میں نہیں ملی اور نہ دنیا کی کسی کتاب میں امام احمد کی سند سے ملی ہے۔ یزید بن معاویہ بن ابی سفیان کے بارے میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا درج ذیل قول علامہ ابن الجوزی نے نقل کیا ہے: «فأنبأنا أبوبكر محمد بن عبدالباقي البزاز عن أبى إسحاق البرمكي عن أبى بكر عبدالعزيز بن جعفر قال: ثنا مهنا بن يحييٰ قال: سألت أحمد عن يزيد بن معاوية فقال: هو الذى فعل بالمدينة ما فعل. قلت: وما فعل؟ قال: نهبها، قلت: فنذكر عنه الحديث؟ قال: لا يذكر عنه الحديث ولا ينبغي لأحد أن يكتب عنه حديثًا. قلت: ومن كان معه حين فعل ما فعل؟ قال: أهل الشام»[الرد على المتعصب العنيد المانع من ذم يزيد لابن الجوزي ص4۔ وسنده حسن] اس روایت کی سند حسن ہے۔ محمد بن عبدالباقی بن محمد بن عبداللہ الانصاری قاضی مرستان جمہور کے نزدیک موثق ہونے کی وجہ سے حسن الحدیث تھے۔ نیز دیکھئے: [سير اعلام النبلاء 2۔ ؍23۔ 28] ◄ انھیں ابن الجوزی نے (ثقہ) «ثبت حجة» قرار دیا ہے۔ دیکھئے: [المنتظم 18؍14، وفيات 535ه] اور [سير اعلام النبلاء 2۔ ؍26] ابواسحاق البرمکی صدوق تھے۔ [تاريخ بغداد 6؍139] ◄ محمد بن عبدالباقی کی ان سے روایت بطریقہ سماع نہیں بلکہ بطریقہ اجازت ہے جو کہ جمہور محدثین کے اصول سے مقبول ہے۔ عبدالعزیز بن جعفر روایت میں ثقہ تھے۔ ديكهئے: [سير اعلام النبلاء 16؍144] ◄ مھنا بن یحییٰ جمہور کے نزدیک موثق ہونے کی وجہ سے حسن الحدیث تھے۔ تنبیہ: امام احمد کا یہ قول [السنة للخلال فقره: 845 وسنده صحيح] میں بھی صحیح سند سے موجود ہے۔
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 70
´اساتذہ کو چاہیے کہ اپنے شاگردوں کے ذہن کا خیال رکھیں` «. . . كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَخَوَّلُنَا بِهَا مَخَافَةَ السَّآمَةِ عَلَيْنَا . . .» ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس خیال سے کہ ہم کبیدہ خاطر نہ ہو جائیں، وعظ کے لیے ہمارے اوقات فرصت کا خیال رکھتے تھے . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 70]
� تشریح: احادیث بالا اور اس باب سے مقصود اساتذہ کو یہ بتلانا ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کے ذہن کا خیال رکھیں، تعلیم میں اس قدر انہماک اور شدت صحیح نہیں کہ طلباءکے دماغ تھک جائیں اور وہ اپنے اندر بے دلی اور کم رغبتی محسوس کرنے لگ جائیں۔ اسی لیے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے درس و مواعظ کے لیے ہفتہ میں صرف جمعرات کا دن مقرر کر رکھا تھا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ نفل عبادت اتنی نہ کی جائے کہ دل میں بے رغبتی اور ملال پیدا ہو۔ بہرحال اصول تعلیم یہ ہے کہ «يسروا والاتعسروا وبشروا ولاتنفروا»
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 70
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6411
6411. حضرت شقیق سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا انتظار کر رہے تھے کہ یزید بن معاویہ تشریف لائے۔ ہم نے عرض کی: آپ تشریف رکھیں، انہوں نے جواب دیا: بلکہ میں اندر جاتا ہوں تاکہ تمہارے ساتھی، یعنی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو باہر لاؤں۔ اگر وہ نہ آئے تو میں تنہا ہی آ جاؤں گا اور تمہارے ساتھ بیٹھ جاؤں گا اس دوران میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے جبکہ وہ ان (یزید بن معاویہ) کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے، پھر وہ ہمارے سامنے کھڑے ہوئے اور فرمایا: مجھے تمہارے بیٹھنے کی خبر پہنچی تھی لیکن مجھے تمہارے پاس آنے سے اس امر نے منع کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں کبھی کبھی وعظ فرمایا کرتے تھے تاکہ ہم اکتا نہ جائیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6411]
حدیث حاشیہ: آدم تا ایں دم خدائے پاک کے وجود برحق کو ماننے والی جتنی قومیں گزرچکی ہیں یا موجود ہیں ان سب میں دعا کا تصور وتخیل وتعامل موجود ہے۔ موحد قوموں نے ہر قسم کی نیک دعاؤں کا مرکز اللہ پاک رب العالمین کی ذات واحد کو قرار دیا اور مشرکین اقوام نے اس صحیح مرکز سے ہٹ کر اپنے دیوتاؤں، اولیاء، پیروں، شہیدوں، قبروں، بتوں کے ساتھ یہ معاملہ شروع کر دیا۔ تاہم اس قسم کے تمام لوگوں کا دعا کے تصور پر ایمان رہا ہے اور اب بھی موجود ہے۔ اسلام میں دعاء کو بہت بڑی اہمیت دی گئی ہے، پیغمبر اسلام علیہ صلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں الدعاءُ مُخُّ العِبَادةِ یعنی عبادت کا اصلی مغز دعاء ہی ہے۔ اس لئے اسلام میں جن جن کاموں کو عبادت کا نام دیا گیا ہے ان سب کی بنیاد از اول تا آخر دعاؤں کا ایک بہترین گل دستہ ہے۔ روزہ، حج کا بھی یہی حال ہے۔ زکوٰۃ میں ....دینے والے کے حق میں نیک دعا سکھلا کر بتلا یا گیا ہے کہ اسلام کا اصل مدعا جملہ عبادات سے دعا ہے چنانچہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ الدعاءُ ھو العِبَادةُ ثم قرأ ﴿وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ﴾(رواہ أحمد وغیرہ) یعنی دعا عبادت ہے بلکہ ایک روایت کے مطابق دعاؤں میں وہ غضب کی قوت رکھی گئی ہے کہ ان سے تقدیریں بدل جاتی ہیں۔ (موصوف مترجم کا اشارہ شاید اس حدیث کی طرف ہے کہ اگر کوئی چیز تقدیر وقضاء سے سبقت لے جا سکتی ہے تو یہ دعا تھی لیکن اس کا وہ مطلب نہیں جو موصوف نے لیا ہے اس میں تو واضح طور پر یہ بتایا جا رہا ہے کہ دعا میں بڑی تاثیر ہے جو کسی دوا میں بھی نہیں لیکن یہ تقدیر نہیں بدل سکتی گویا یوں کہئے کہ مومن کا آخری ہتھیار دعا ہے جو تریاق مجرب ہے اگر اس پر حاوی ہے تو صرف قدر وقضاء (عبدالرشید تونسوی) اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص تاکید فرمائی کہ فعلیکم عبادَ اللہ بالدعاءِ رواہ الترمذي یعنی اے اللہ کے بندو! بالضرور دعا کو اپنے لئے لازم کر لو۔ ایک روایت میں ہے کہ جو شخص اللہ سے دعا نہیں مانگتا سمجھ لو وہ خدا کے غضب میں گرفتار ہے اور فرمایا کہ جس کے لئے دعا بکثرت کرنے کا دروازہ کھول دیا گیا سمجھ لو اس کے لئے رحمت الٰہی کے دروازے کھل گئے اور بھی بہت سی روایات اس قسم کی موجود ہیں۔ پس اہل ایمان کا فرض ہے کہ اللہ پاک سے ہر وقت دعا مانگنا اپنا عمل بنا لیں۔ قبولیت دعا کے لئے قرآن وسنت کی روشنی میں کچھ تفصیلات ہیں، اس مختصر مقالہ میں ان کو بھی سر سری نظر سے ملاحظہ فرما لیجئے تاکہ آپ کی دعا بالضرور قبول ہوجائے۔ (1) دعا کرتے وقت یہ سوچ لینا ضروری ہے کہ اس کا کھانا پینا اس کا لباس حلال مال سے ہے یا حرام سے، اگر رزق حلال و صدق مقال و لباس طیب مہیا نہیں ہے تو دعا سے پہلے ان کو مہیا کرنے کی کوشش کرنی ضروری ہے۔ (2) قبولیت دعا کے لئے یہ شرط بڑی اہم ہے کہ دعا کرتے وقت اللہ برحق پر یقین کامل ہو اور ساتھ ہی دل میں یہ عزم بالجزم ہو کہ جو وہ دعا کررہا ہے وہ ضرور قبول ہوگی رد نہیں کی جائے گی۔ (3) قبولیت دعا کے لئے دعا کے مضمون پر توجہ دینا بھی ضروری ہے۔ اگر آپ قطع رحمی کے لئے ظلم وزیادتی کے لئے یا قانون قدرت کے برعکس کوئی مطالبہ اللہ کے سامنے رکھ رہے ہیں تو ہر گز یہ گمان نہ کریں کہ اس قسم کی دعائیں بھی آپ کی قبول ہوں گی۔ (4) دعا کرنے کے بعد فوراً ہی اس کی قبولیت آپ پر ظاہر ہو جائے، ایسا تصور بھی صحیح نہیں ہے، بہت سی دعائیں فوراً اثر دکھاتی ہیں بہت سی کافی دیر کے بعد اثر پذیر ہوتی ہیں۔ بہت سی دعا بظاہر قبول نہیں ہوتیں مگر ان کی برکات سے ہم کسی آنے والی آفت سے بچ جاتے ہیں اور بہت سی دعائیں صرف آخرت کے لئے ذخیرہ بن کر رہ جاتی ہیں۔ بہر حال دعا بشرائط بالا کسی حال میں بھی بیکار نہیں جاتیں۔ (5) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آداب دعا میں بتلایا ہے کہ اللہ کے سامنے ہاتھوں کو ہتھیلیوں کی طرف سے پھیلا کر صدق دل سے سائل بن کر دعا مانگوفرمایا: ”تمہارا رب کریم بہت ہی حیادارہے اس کو شرم آتی ہے کہ اپنے مخلص بندے کے ہاتھوں کو خالی واپس کر دے، آخرمیں ہاتھوں کو چہرے پرمل لینا بھی آداب دعا سے ہے۔ (آداب دعا سے ہے کہنے کی بجائے یوں کہا جائے کہ جائز ہے بغیر ملے اگر نیچے گرا دیے جائیں تب بھی آداب دعا میں شامل ہے۔ (عبد الرشیدتونسوی)(6) پیٹھ پیچھے اپنے بھائی مسلمان کے لئے دعا کر نا قبولیت کے لحاظ سے فوری اثر رکھتا ہے۔ مزید یہ کہ فرشتے ساتھ میں آمین کہتے ہیں اور دعا کرنے والے کو دعا دیتے ہیں کہ خدا تم کو بھی وہ چیز عطا کرے جو تم اپنے غائب بھائی کے لئے مانگ رہے ہو۔ (7) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ پانچ قسم کے آدمیوں کی دعا ضرور قبو ل ہوتی ہے۔ مظلوم کی دعا، حاجی کی دعا جب تک وہ واپس ہو، مجاہد کی دعا یہاں تک کہ وہ اپنے مقصد کو پہنچے۔ مریض کی دعا یہاں تک کہ وہ تندرست ہو، پیٹھ پیچھے اپنے بھائی کے لئے دعا ئے خیر جو قبولیت میں فوری اثر رکھتی ہے۔ (8) ایک دوسری روایت کی بنا پر تین دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں۔ والدین کا اپنی اولاد کے حق میں دعا کرنا، مظلوم کی دعا بعض روایت کی بنا پر روزہ دار کی دعا اورامام عادل کی دعا بھی فوری اثر دکھلاتی ہے۔ مظلوم کی دعا کے لئے آسمانوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور بارگاہ احدیت سے آواز آتی ہے کہ مجھ کو قسم ہے اپنے جلال کی اور عزت کی میں ضرور تیری مدد کروں گا اگرچہ اس میں کچھ وقت لگے۔ (9) کشادگی، بے فکری فارغ البالی کے اوقات میں دعاؤں میں مشغول رہنا کمال ہے، ورنہ شدائد ومصائب میں تو سب ہی دعا کرنے لگ جاتے ہیں اولاد کے حق میں بددعا کرنے کی ممانعت ہے اسی طرح اپنے لئے یا اپنے مال کے لئے بھی بددعا نہ کرنی چاہئے۔ (10) دعا کرنے سے پہلے پھر اپنے دل کا جائزہ لیجئے کہ اس میں سستی غفلت کا کوئی داغ دھبہ تونہیں ہے۔ دعا وہی قبول ہوتی ہے جو دل کی گہرائی سے صدق نیت سے حضور قلب ویقین کا مل کے ساتھ کی جائے۔ یہ چند باتیں بطور ضروری گذارشات کے ناظرین کے سامنے رکھ دی گئی ہیں۔ امید بلکہ یقین کامل ہے کہ بخاری شریف کا مطالعہ فرمانے والے بھائی بہن سب اپنے اس حقیر ترین خادم کو بھی اپنی دعا میں شریک رکھیں گے اور اگر کہیں بھول چوک نظر آئے تو اس سے مخلصانہ طور پر مطلع کریں گے، یا اپنے دامن عفو میں چھپا لیں گے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6411
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:107
107- شقیق بن سلمہ بیان کرتے ہیں: ہم لوگ بیٹھے ہوئے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا انتظار کررہے تھے، یزید بن معاویہ نخعی ہمارے پاس آئے انہوں نے فرمایاؒ کیا ہوا ہے؟ ہم نے کہا: ہم سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا انتظار کررہے ہیں۔ انہوں نے دریافت کا: تمہارے خیال میں وہ کہاں ہوں گے؟ ہم نے کہا: گھر میں ہوں گے۔ انہں نے کہا: کیا میں جاکر تمہارے ساتھ بلا کر نہ لاؤں؟ راوی کہتے ہیں: تو وہ گئے اور تھوڑی ہی دیر کے بعد سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے اور ہمارے پاس آکر کھڑے ہوئے، ان کے ساتھ یزید بن معاویہ بھی تھے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مج۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:107]
فائدہ: ہر کام میں اعتدال ضروری ہے، جب بھی کوئی کام اعتدال کی حد کو عبور کر جاتا ہے، تب نقصان شروع ہو جاتا ہے۔ واعظین اور خطباء کو ایسا انداز نہیں اپنانا چاہیے کہ جو لوگوں کو تھکا دے، اور لوگوں کو دین کے قریب کرنے کی بجائے دین سے دور کر دے۔ لمبی لمبی تقاریر اور لمبے لمبے جلسے اور کانفرنسیں اور اکثر پروگرام لوگوں کو دین کے قریب کرنے کی بجائے دور کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ لہٰذا انداز خطابت تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، اور اہل علم حضرات کومنبر و محراب کا مالک بنانا ضروری ہے، کیونکہ خطیب نے لوگوں کے سامنے شریعت پیش کرنی ہے، وہ تب ہی کر سکے گا جب علم وحی میں ماہر ہوگا۔ افسوس کہ آج کل لوگ ان پڑھ، سریلی اور ترنم والی آواز نکالنے والے کومنبر و محراب کا مالک بنائے ہوئے ہیں، اور وہ غیر ثابت شدہ اور جھوٹی روایات بڑے زور وشور سے بیان کرتے ہوئے سنائی دیتے ہیں، الامان والحفیظ۔ ہمیں ہر کام قرآن وحدیث کے مطابق کرنا چاہیے، اس میں دونوں جہانوں کی کامیابی ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 107
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7129
ابو وائل رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیں جمعرات کو وعظ کیا کرتے تھے تو ان سے ایک آدمی نے کہا، اے ابو عبدالرحمٰن!ہم آپ کی گفتگو پسند کرتے ہیں اور اس کے خواہش مندہیں اور ہم چاہتے ہیں،آپ ہمیں روزانہ وعظ فرمایا کریں گے تو انھوں نے جواب دیا۔مجھے روزانہ وعظ کرنے سےصرف یہ چیز مانع ہے کہ میں تمھیں اکتاہٹ میں مبتلا پسند نہیں کرتا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری اکتاہٹ کو ناپسند کرتے ہوئے وعظ کرنے میں ہمارا خیال اور دھیان رکھتے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:7129]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے انصاری ساتھی کے ساتھ باری مقرر کی ہوئی تھی، ایک دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور ایک دن انصاری ساتھی، اس طرح تعلیم وتعلم کا سلسلہ روزانہ جاری رہتا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7129
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:68
68. حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ ہمارے اُکتا جانے کے اندیشے سے ہمیں وعظ و نصیحت کرنے کے لیے وقت اور موقع ومحل کا خیال رکھتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:68]
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تبلیغ و تعلیم کے لیے کچھ ایسے اوقات مقرر کیے جائیں جن میں سامعین اور متعلمین فراغت اور اطمینان کے ساتھ اسے جاری رکھ سکیں اور خوش دلی کے ساتھ اس کے سننے اور اس سے مستفید ہونے میں لگے رہیں اگر ہر وقت تبلیغ ہوتی رہے یا تعلیم دی جاتی رہے تو اس سے سامعین اور متعلمین اکتا کر کوتاہی کرنے لگ جاتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نشاط وملال اور حوائج و فراغت کا پورا خیال رکھتے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی صرف جمعرات کے دن وعظ و تبلیغ کرتے لوگوں کے اصرار کے باوجود روزانہ تذکیر و تبلیغ سے احتراز کرتے تھے۔ (فتح الباري: 214/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 68
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:70
70. حضرت ابو وائل سے روایت ہے، انہوں نے کہا: عبداللہ بن مسعود ؓ ہر جمعرات لوگوں کو وعظ کیا کرتے تھے۔ ایک شخص نے ان سے عرض کیا: اے عبدالرحمٰن! میں چاہتا ہوں کہ آپ ہمیں روزانہ وعظ و نصیحت فرمایا کریں۔ آپ نے فرمایا: مجھے اس کام سے یہ چیز مانع ہے کہ میں تمہیں اکتاہٹ میں نہیں ڈالنا چاہتا اور میں پندونصیحت میں تمہارے جذبات کا خیال رکھتا ہوں جس طرح نبی ﷺ وعظ کرتے وقت ہمارے جذبات کا خیال رکھتے تھے تاکہ ہم اُکتا نہ جائیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:70]
حدیث حاشیہ: 1۔ تعلیمی نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لیے اوقات تعلیم کی تقسیم اور تعیین ضروری ہے، اسی طرح وعظ و نصیحت کے لیے اگر کوئی دن مقرر کر لیا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں اور نہ اسے بدعت ہی کہا جا سکتا ہے، بلکہ ایسا کرنا ضروری ہے تاکہ معلمین اور متعلمین کا تعلیمی وقت ضائع نہ ہو۔ اگر اوقات کی تعیین نہ ہوتو ممکن ہے کہ استاد تو موجود ہو لیکن طلباء لاپتہ ہوں یا طلباء تو حاضر ہوں لیکن معلم حضرات غائب ہوں لہٰذا تعلیمی انتظام کے لیے ایام کی تعیین میں کوئی حرج نہیں، اس کی بنیاد تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں قائم ہو چکی تھی اور اعیان صحابہ بھی اس پر عمل پیرا رہے ہیں۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مدعا ثابت کرنے کے لیے ایک موقوف حدیث کا سہارا لیا ہے لیکن چونکہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ایک عمل کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے استنباط کیا ہے اس لیے دن کی تعیین کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 70
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6411
6411. حضرت شقیق سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا انتظار کر رہے تھے کہ یزید بن معاویہ تشریف لائے۔ ہم نے عرض کی: آپ تشریف رکھیں، انہوں نے جواب دیا: بلکہ میں اندر جاتا ہوں تاکہ تمہارے ساتھی، یعنی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو باہر لاؤں۔ اگر وہ نہ آئے تو میں تنہا ہی آ جاؤں گا اور تمہارے ساتھ بیٹھ جاؤں گا اس دوران میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے جبکہ وہ ان (یزید بن معاویہ) کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے، پھر وہ ہمارے سامنے کھڑے ہوئے اور فرمایا: مجھے تمہارے بیٹھنے کی خبر پہنچی تھی لیکن مجھے تمہارے پاس آنے سے اس امر نے منع کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں کبھی کبھی وعظ فرمایا کرتے تھے تاکہ ہم اکتا نہ جائیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6411]
حدیث حاشیہ: مقصد یہ ہے کہ وظائف و اوراد پڑھتے وقت بھی اس امر کا خیال رکھا جائے کہ وقفے وقفے سے ان کی ادائیگی ہو کیونکہ تکرار سے طبیعت بے زار ہو جاتی ہے۔ دل تنگ پڑ جاتا ہے، پھر انسان اس سے نفرت کرنے لگتا ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6411