ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خبر دی ہے: ”فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں مجسمے ہوں یا تصویر ہو“، (اس حدیث میں اسحاق راوی کو شک ہو گیا کہ ان کے استاد نے «تماثیل» اور «صورة» دونوں میں سے کیا کہا؟ انہیں یاد نہیں)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الأدب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2805]
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، سنن ترمذی 2805
تصاویر لٹکانا یا تصاویر والے کپڑے پہننا الاتحاف الباسم شرح موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم حدیث نمبر 125: رافع بن اسحاق سے روایت ہے کہ میں اور عبداللہ بن ابی طلحہ (سیدنا) ابوسعید الخدری (رضی اللہ عنہ) کی بیمار پُرسی کے لئے گئے تو انہوں نے ہمیں بتایا کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا: بے شک جس گھر میں مجسمے یا تصاویر ہوں تو وہاں (رحمت کے) فرشتے داخل نہیں ہوتے۔ اسحاق کو شک ہوا، انہیں واضح طور پر معلوم نہ تھا کہ ابوسعید الخدری (رضی اللہ عنہ) نے ان میں سے کون سا کلمہ کہا؟ تحقیق: «سنده صحيح» تخریج: [الموطأ رواية يحييٰ 2/965، 966ح 1867، ك 54ب 3 ح 6 التمهيد 1/300، الاستذكار: 1803] «٭ وأخرجه الترمذي 2805 من حديث مالك به وقال: حسن صحيح“ و صححه ابن حبان 1486» تفقہ: ➊ جاندار اشیاء مثلاًً انسان، حیوان اور پرندوں وغیرہ کی تصاویر بنانا حرام ہے۔ ➋ تصاویر کی حرمت کے اس عمومی حکم سے بعض چیزیں مستثنیٰ ہیں: بچوں کے کھیلنے کی گڑیاں اور کھلونے وغیرہ دیکھئے: [صحيح بخاري: 6130، صحيح مسلم: 2440، سنن ابي داود: 4932، وسنده حسن] کپڑے پر پرندے کی تصویر صحیح مسلم: [2107]، دارالسلام: [5521، 5522] وغیرہما سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی انگوٹھی پر ایک کھڑے شیر کی تصویر تھی۔ [مصنف ابن ابي شيبه 8/ 269 ح 25093 وسنده صحيح] سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی انگوٹھی پر ایک آدمی کی تصویر تھی جس کی گردن میں تلوار لٹکی ہوئی تھی۔ [ابن ابي شيبه 8/269 ح 25095 وسنده حسن، شرح معاني الآثار للطحاوي 4/ 266] ➌ موجودہ دور میں ویڈیو اور کمپیوٹر سی ڈی کی ایجادیں تصویر کے حکم میں نہیں ہیں کیونکہ ان پر کوئی تصویر نظر نہیں آتی۔ یہ سائنسی اور ٹیکنیکل کمال ہے جسے انسانوں نے دریافت کر لیا ہے لہٰذا یہ ایجادات نیک مقاصد مثلاًً تقریر، تعلیم، تربیت اور مناظرے وغیرہ کے لئے مباح کے حکم میں ہیں۔ رہے وہ اُمور جو شریعت کے خلاف ہیں تو ہر حالت میں ناجائز ہیں چاہے ان کے لئے ویڈیو یا سیڈیز استعمال کی جائیں یا نہ کی جائیں۔ . . . اصل مضمون کے لئے دیکھیں . . . الاتحاف الباسم شرح موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم حدیث نمبر 125
الاتحاف الباسم شرح موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم حدیث نمبر 260: ام المؤمنین عائشہ (صدیقہ رضی اللہ عنہا) سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک تکیہ نما چھوٹا کمبل خریدا جس پر تصویریں تھیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا تو دروازے پر کھڑے ہو گئے اور اندر تشریف نہ لائے۔ میں نے آپ کے چہرے پر ناپسندیدگی کے اثرات دیکھے اور کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرتی ہوں، مجھ سے کیا غلطی ہوئی ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ نمرقہ (چھوٹا تکیہ) کیا ہے؟ میں نے کہا: میں نے اسے آپ کے لئے خریدا ہے تاکہ آپ اس پر بیٹھیں اور تکیہ لگائیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان تصویر والوں کو قیامت کے دن عذاب ہو گا، انہیں کہا جائے گا کہ تم نے جو بنایا ہے اُسے زندہ کرو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس گھر میں تصویریں ہوں وہاں (رحمت کے) فرشتے داخل نہیں ہوتے۔ تحقیق: «سنده صحيح» تخریج: «متفق عليه» [الموطأ رواية يحييٰ 2/ 966، 967 ح 1869، ك 54 ب 3 ح 8 التمهيد 16/ 50، 51، الاستذكار: 1805] [٭ وأخرجه البخاري 2105 و مسلم 96/ 2107 من حديث مالك به۔ وفي رواية يحي بن يحي: ”وَتَوَسَّدُهَا“۔] تفقہ: ➊ کپڑا ہو یا کاغذ وغیرہ، جانداروں کی تصاویر بنانا حرام ہے۔ ➋ کتاب و سنت کے خلاف کاموں پر غصہ کرنا جائز ہے۔ ➌ جس گھر میں تصویریں ہوں وہاں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے۔ ➍ اگر لاعلمی میں غلطی ہو جائے تو معاف ہے لیکن صاحبِ علم کو چاہئے کہ اس شخص کو جو انجانے میں غلطی کر رہا ہے دلیل سے سمجھا دے۔ ➎ جن کپڑوں پر جانداروں کی تصویریں ہوں ان کا استعمال حرام ہے۔ ➏ جس کپڑے پر تصویریں تھیں اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھاڑ دیا تھا۔ دیکھئے: [صحيح بخاري 2479 و صحيح مسلم 2107] ➐ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی تو آپ ان کے پاس تشریف لے گئے۔ پھر وہاں ایک پردہ لٹکا ہوا دیکھ کر واپس چلے گئے۔ [مسند احمد 5/ 220، 221ح 21922 وسنده حسن، سنن ابي داود: 3755 وصححه ابن حبان مختصراً: 6320 والحاكم 1/ 186 ح 2758 ووافقه الذهبي] نیز دیکھئے: [صحيح بخاري: 2613] ➑ ایک روایت میں آیا ہے کہ سیدنا ابو مسعود عقبہ بن عمرو الانصاری رضی اللہ عنہ نے اس گھر میں دعوت کھانے سے انکار کر دیا تھا جہاں تصویر لگی ہوئی تھی۔ دیکھئے: [السنن الكبريٰ للبيهقي 7/368 وسنده حسن وصححه الحافظ ابن حجر رحمه الله فى فتح الباري 9/ 249 قبل ح 5181] ➒ تمام امور میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور یہ اہلِ حق کا امتیاز ہے۔ ٭ اگر شوہر کی اجازت ہو تو بیوی شرعی حدود اور پردے کے احکام کو مدِنظر رکھتے ہوئے خرید و فروخت کر سکتی ہے۔ ٭ بیوی اپنے مال میں شوہر کی اجازت کے بغیر اور شوہر کے مال میں اس کی اجازت کے ساتھ تصرف کر سکتی ہے۔ . . . اصل مضمون کے لئے دیکھیں . . . الاتحاف الباسم شرح موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم حدیث نمبر 260
الاتحاف الباسم شرح موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم حدیث نمبر 427: عبید اللہ (بن عبداللہ) بن عتبہ بن مسعود سے روایت ہے کہ وہ (سیدنا) ابوطلحہ الانصاری (رضی اللہ عنہ) کے پاس بیمار پرسی کے لئے گئے تو وہاں (سیدنا) سہل بن حنیف (رضی اللہ عنہ) بھی موجود تھے۔ ابوطلحہ (رضی اللہ عنہ) نے ایک آدمی کو بلایا پھر اپنے نیچے سے بستر کی چادر نکالی تو سہل بن حنیف (رضی اللہ عنہ) نے پوچھا: آپ نے اسے کیوں نکال دیا ہے؟ انہوں نے فرمایا: کیونکہ اس میں تصویریں ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا ہے آپ جانتے ہیں۔ تو سہل (رضی اللہ عنہ) نے کہا کیا آپ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ سوائے وہ نقش جو کپڑے پر ہو؟ تو انہوں نے کہا کیوں نہیں! لیکن یہ (کپڑا ہٹانا) میرے دل میں زیادہ پسندیدہ ہے۔ تحقیق: «سنده صحيح» تخریج: [الموطأ رواية يحييٰ 2/ 8966 ح 1868، ك 54ب 3 ح 7 التمهيد 21/ 191، لاستذكار: 1804] [٭ وأخرجه الترمذي 1750، وقال: ”حسن صحيح“ والنسائي 8/ 212 ح 5351 من حديث مالك به۔]
تفقہ: ➊ تصویر جائز نہیں ہے اِلایہ کہ کپڑے پر کچھ نقش و نگار ہوں۔ ➋ بہتر یہی ہے کہ شک و شبہے والی چیزوں سے بچا جائے۔ ➌ مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بہت اچھے تعلقات رکھنے چاہئیں، اگر کوئی بیمار ہو جائے تو بیمار پرسی کے لئے اس کے پاس جانا چاہئے۔ ➍ کتاب و سنت کے خلاف ہر بات کا دلیل کے ساتھ رد کرنا اہلِ ایمان کی نشانی ہے۔ ➎ خیر کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرنا بالکل صحیح ہے اور اس کا جواز کتاب و سنت اور اجماع سے ثابت ہے۔ . . . اصل مضمون کے لئے دیکھیں . . . الاتحاف الباسم شرح موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم حدیث نمبر 427
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 427