قیس بن کثیر کہتے ہیں کہ ایک شخص مدینہ سے ابو الدرداء رضی الله عنہ کے پاس دمشق آیا، ابوالدرداء رضی الله عنہ نے اس سے کہا: میرے بھائی! تمہیں یہاں کیا چیز لے کر آئی ہے، اس نے کہا: مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث بیان کرتے ہیں، ابو الدرداء نے کہا: کیا تم کسی اور ضرورت سے تو نہیں آئے ہو؟ اس نے کہا: نہیں، انہوں نے کہا: کیا تم تجارت کی غرض سے تو نہیں آئے ہو؟ اس نے کہا: نہیں۔ میں تو صرف اس حدیث کی طلب و تلاش میں آیا ہوں، ابو الدرداء نے کہا: (اچھا تو سنو) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو شخص علم دین کی تلاش میں کسی راستہ پر چلے، تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اسے جنت کے راستہ پر لگا دیتا ہے۔ بیشک فرشتے طالب (علم) کی خوشی کے لیے اپنے پر بچھا دیتے ہیں، اور عالم کے لیے آسمان و زمین کی ساری مخلوقات مغفرت طلب کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ پانی کے اندر کی مچھلیاں بھی، اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہی ہے جیسے چاند کی فضیلت سارے ستاروں پر، بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نے کسی کو دینار و درہم کا وارث نہیں بنایا، بلکہ انہوں نے علم کا وارث بنایا ہے۔ اس لیے جس نے اس علم کو حاصل کر لیا، اس نے (علم نبوی اور وراثت نبوی سے) پورا پورا حصہ لیا“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ہم عاصم بن رجاء بن حیوہ کی روایت کے سوا کسی اور طریقہ سے اس حدیث کو نہیں جانتے، اور اس حدیث کی سند میرے نزدیک متصل نہیں ہے۔ اسی طرح انہیں اسناد سے محمود بن خداش نے بھی ہم سے بیان کی ہے، ۲- یہ حدیث عاصم بن رجاء بن حیوہ نے بسند «داود بن جميل عن كثير بن قيس عن أبي الدرداء عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے۔ اور یہ حدیث محمود بن خداش کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، اور محمد بن اسماعیل بخاری کی رائے ہے کہ یہ زیادہ صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب العلم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2682]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ العلم 1 (3641)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 17 (223) (تحفة الأشراف: 10958)، وسنن الدارمی/المقدمة 32 (354) (صحیح) (سند میں کثیر بن قیس، یا قیس بن کثیر ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے: زہد وکیع رقم 519)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ علماء و محدثین بہت بڑی فضیلت کے حامل ہیں، حصول علم کے لیے دور دراز کا سفر درکار ہے، یہ سفر خالص علم دین کی نیت سے ہو کوئی دنیوی غرض اس کے ساتھ شامل نہ ہو، علم دین حاصل کرنے والے کے لیے جنت کا راستہ آسان ہو جاتا ہے، کائنات کی ساری مخلوق اس کے لیے مغفرت طلب کرتی ہیں، علماء انبیاء کے حقیقی وارث ہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (223)
قال الشيخ زبير على زئي: (2682) إسناده ضعيف / د 3641، جه 223 قيس بن كثير هو كثير بن قيس وهو ضعيف (تق: 5624) وللحديث شواهد ضعيفة
من سلك طريقا يبتغي فيه علما سلك الله به طريقا إلى الجنة الملائكة لتضع أجنحتها رضاء لطالب العلم العالم ليستغفر له من في السموات ومن في الأرض حتى الحيتان في الماء فضل العالم على العابد كفضل القمر على سائر الكواكب العلماء ورثة الأنبياء
من سلك طريقا يطلب فيه علما سلك الله به طريقا من طرق الجنة الملائكة لتضع أجنحتها رضا لطالب العلم العالم ليستغفر له من في السموات ومن في الأرض والحيتان في جوف الماء فضل العالم على العابد كفضل القمر ليلة البدر على سائر الكواكب العلماء ورثة الأنبي
من سلك طريقا يلتمس فيه علما سهل الله له طريقا إلى الجنة الملائكة لتضع أجنحتها رضا لطالب العلم طالب العلم يستغفر له من في السماء والأرض حتى الحيتان في الماء فضل العالم على العابد كفضل القمر على سائر الكواكب العلماء هم ورثة الأنبياء
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2682
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ علماء ومحدثین بہت بڑی فضیلت کے حامل ہیں، حصول علم کے لیے دور دراز کا سفر درکار ہے، یہ سفر خالص علم دین کی نیت سے ہو کوئی دنیوی غرض اس کے ساتھ شامل نہ ہو، علم دین حاصل کرنے والے کے لئے جنت کا راستہ آسان ہو جاتا ہے، کائنات کی ساری مخلوق اس کے لیے مغفرت طلب کرتی ہیں، علماء انبیاء کے حقیقی وارث ہیں۔
نوٹ: (سند میں کثیر بن قیس، یا قیس بن کثیر ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے: زہد وکیع رقم: 519)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2682
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 212
´اہل علم کی فضیلت` «. . . عَن كثير بن قيس قَالَ كُنْتُ جَالِسًا مَعَ أَبِي الدَّرْدَاءِ فِي مَسْجِد دمشق فَجَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ يَا أَبَا الدَّرْدَاءِ إِنِّي جِئْتُكَ مِنْ مَدِينَةِ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا جِئْتُ لِحَاجَةٍ قَالَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَطْلُبُ فِيهِ عِلْمًا سَلَكَ اللَّهُ بِهِ طَرِيقًا مِنْ طُرُقِ الْجَنَّةِ وَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا رِضًا لِطَالِبِ الْعِلْمِ وَإِنَّ الْعَالِمَ يسْتَغْفر لَهُ من فِي السَّمَوَات وَمَنْ فِي الْأَرْضِ وَالْحِيتَانُ فِي جَوْفِ الْمَاءِ وَإِنَّ فَضْلَ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ عَلَى سَائِرِ الْكَوَاكِبِ وَإِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ وَإِنَّ الْأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا وَإِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ ". رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَهْ وَالدَّارِمِيُّ وَسَمَّاهُ التِّرْمِذِيُّ قَيْسَ بن كثير . . .» ”. . . سیدنا کثیر بن قیس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں دمشق کی جامع مسجد میں ابودرداء رضی اللہ عنہ صحابی کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص ان کے پاس آ کر کہنے لگا کہ اے ابودرداء! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر مدینہ منورہ سے یہ سن آیا ہوں کہ آپ کے پاس ایک حدیث ہے جسے آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں (صرف اسی حدیث کے سننے کے لیے میں حاضر ہوا ہوں اور اس کے علاوہ کسی کام سے نہیں آیا ہوں۔) ابودرداء رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص علم حاصل کرنے کے لیے سفر اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے راستے پر چلاتا ہے اور یقیناًً اللہ تعالیٰ کے فرشتے دینی علم حاصل کرنے والوں کی خوشنودی کے لیے اپنے پروں کا سایہ ان پر کئے رہتے ہیں اور عالم دین باعمل کے لیے آسمان کی تمام چیزیں اور زمین کی تمام چیزیں استعفار کرتی ہیں اور یہاں تک کہ مچھلیاں بھی پانی کے اندر ایسے عالم کے لیے دعائے معفرت کرتی ہیں۔ اور عالم کی فضیلت اور بزرگی عبادت گزار آدمی پر ایسی ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر ہوتی ہے اور علماء نبیوں اور رسولوں کی وارث اور ان کے جانشین ہیں اور ان پیغمبروں نے روپے پیسے کو نہیں چھوڑا ہے، بلکہ علم کو ورثہ میں چھوڑا ہے۔ پس جس نے علم حاصل کر لیا ہے تو اس نے کامل حصہ حاصل کر لیا ہے۔ اس حدیث کو احمد، ترمذی، ابوداؤد ابن ماجہ اور دارمی نے روایت کیا ہے۔ اس حدیث کو احمد، ترمذی، ابوداؤد ابن ماجہ اور دارمی نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے راوی کا نام قیس بن کثیر بتایا ہے۔ . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 212]
تحقیق الحدیث: اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ روایت مذکورہ میں دو راوی ضیعف ہیں: ➊ کثیر بن قیس یا قیس بن کثیر۔ [تقريب التهذيب: 5624، وقال: ضعيف] ➋ داود بن جمیل۔ [تقريب التهذيب: 1778، وقال: ضعيف] ◄ سنن ابی داود [3642] میں اس کی دوسری سند بھی ہے لیکن وہ بھی ضعیف ہے۔ اس میں شبیب بن شیبہ مجہول ہے۔ دیکھئے: [تقريب التهذيب: 2741] یا اس سے مراد شعیب بن رزیق ہیں، جو کہ قول راجح میں حسن الحدیث راوی تھے۔ دیکھئے تحریر [تقريب التهذيب 2؍117 ت 2801] اگر شبیب بن شیبہ سے شعیب بن رزیق ابوشیبہ مراد لیا جائے تو پھر دو باتیں اہم ہیں: ➊ ولید بن مسلم رحمہ اللہ مدلس تھے۔ ◄ امام ابومسہر (عبدالاعلیٰ بن مسہر الغسانی / متوفی 218ھ) رحمہ اللہ نے کہا: «كان الوليد يأخذ من ابن أبى السفر حديث الأوزاعي وكان ابن أبى السفر كذّاب [!] وهو يقول فيها: قال الأوزاعي» ولید (بن مسلم) ابن ابی السفر سے اوزاعی کی حدیث لیتے اور ابن ابی السفر (لعلہ یوسف بن السفر: کاتب الاوزاعی) کذاب تھا، اور وہ (ولید بن مسلم) کہتے: اوزاعی نے کہا۔ [تاريخ دمشق 66؍212 وسنده صحيح] ◄ اس قول کی سند صحیح ہے اور راویوں کا مختصر تعارف درج ذیل ہے: ➊ ابوالقاسم بن السمرقندی شیخ ابن عساکر ثقہ تھے۔ دیکھئے: [سير اعلام النبلاء 20 ؍28- 31] ➋ ابوالفضل بن البقال ثقہ تھے۔ دیکھئے: [المنتظم 16؍2۔ 3۔ 2۔ 4 ت3495 وفيات 471ه] ➌ ابوالحسین بن بشران صدوق تھے۔ دیکھئے: [سير اعلام النبلاء 17؍312] ➍ عثمان بن أحمد عرف ابن السماک ابوعمر والدقاق ثقہ و صدوق تھے۔ دیکھئے: [لسان الميزان 4؍131 - 132، دوسرا نسخه 4؍588 - 590] ➎ حنبل بن اسحاق ثقہ تھے۔ ◄ ہمارے عربی دوست اور الشیخ الصالح ابوجابر عبداللہ بن محمد بن عثمان الانصاری المدنی حفظہ اللہ نے تین جلدوں میں ایک کتاب لکھی ہے: «القول النفيس فى براءة الوليد بن مسلم من التدليس» ◄ اس کتاب میں حنبل بن اسحاق کے بارے میں ابوجابر الانصاری المدنی حفظہ اللہ نے سیوطی سے نقل کیا: «. . . له تاريخ حسن وغيره وله عن أحمد سؤالات يأتي فيها بغرائب ويخالف رفاقه. . .» ”اس کی تاریخ اچھی ہے، وغیرہ، اور اس نے احمد بن حنبل سے سوالات کئے جن میں وہ غرائب لاتا تھا اور اپنے رفقاء کی مخالفت کرتا تھا۔۔۔۔“[بحواله طبقات الحفاظ ص272 ت611] ◄ اور حافظ ذہبی کی [سير اعلام النبلاء 13؍52] سے نقل کیا: «. . . . . له مسائل كثيرة عن أحمد ويتفرد ويغرب. . . .» اس نے احمد سے بہت سے مسائل بیان کئے، وہ (بعض میں) منفرد رہتا ہے اور غرائب بیان کرتا ہے۔ [القول النفيس ج3 ص124] ◄ عرض ہے کہ یہ جرح جمہور کی توثیق کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔ ● حنبل بن اسحاق کے بارے میں: ◄خطیب بغدادی نے کہا: «وكان ثقة ثبتا» ◄ دارقطنی نے کہا: «وكان صدوقًا» وہ سچا تھا۔ [تاريخ بغداد 8؍287 ت4386 وسنده صحيح] ◄ ابن الجوزی نے کہا: «وكان ثقة ثبتًا صدوقًا»[المنتظم 12؍256 ت179۔، وفيات 273ه] ◄ خود حافظ ذہبی نے کہا: «الحافظ الثقة»[تذكرة الحفاظ 2؍6۔۔ ت624]، اور کہا: «الإمام الحافظ المحدث الصدوق المصنف»[سير اعلام النبلاء 13؍51] ◄ خود سیوطی نے کہا: «الحافظ الثقة»[طبقات الحفاظ ص272 ت 611] ↰ جمہور کی اس زبردست توثیق کے مقابلے میں غرائب اور افراد بیان کرنے والی جرح کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ➏ حنبل بن اسحاق کے استاذ امام یحییٰ بن معین بہت بڑے ثقہ امام بلکہ فوق الثقہ تھے۔ ↰ خلاصہ یہ کہ ابومسہر کے قول کی سند صحیح ہے اور اس سے ولید بن مسلم کا مدلس ہونا ثابت ہے۔ ◄ امام دارقطنی نے ولید بن مسلم کے بارے میں کہا: «الوليد بن مسلم يرسل، يروي عن الأوزاعي أحاديث الأوزاعي عن شيوخ ضعفاء عن شيوخ قد أدركهم الأوزاعي مثل: نافع وعطاء والزهري فيسقط أسماء الضعفاء ويجعلها عن الأوزاعي عن عطاء يعني مثل عبدالله ابن عامر الأسلمي وإسماعيل بن مسلم.» ولید بن مسلم مرسل روایتیں بیان کرتے تھے، وہ اوزاعی سے ان کی حدیثیں بیان کرتے جو انہوں نے ضعیف استادوں سے بیان کی تھیں، انہوں نے ان استادوں سے بیان کی تھیں جنہیں اوزاعی نے پایا یعنی دیکھا تھا۔ مثلاً نافع، عطاء اور زہری پھر وہ ضعیف راویوں کے نام گرا دیتے اور ان روایتوں کو «عن اوزاعي عن عطاء» بیان کر دیتے، یعنی عبداللہ بن عامر الاسلمی اور اسماعیل بن مسلم جیسے (ضعیف راویوں کو وہ سند سے گراتے تھے۔)[كتاب الضعفاء و المتروكون: 631] ◄ امام دارقطنی کے اس قول سے معلوم ہوا کہ ولید بن مسلم تدلیس تسویہ کرتے تھے۔ ◄ ولید بن مسلم کو حافظ ابن حجر، العلائی، ابوزرعہ ابن العراقی، ذہبی، حلبی، مقدسی، اور سیوطی وغیرہم نے مدلس قرار دیا ہے۔ دیکھئے: [الفتح المبين ص73] اور ان کا کوئی مخالف مجھے معلوم نہیں ہے، لہٰذا تدلیس ولید پر اجماع ہے۔ ◄ شعیب بن رزیق والی روایت [تحفة الاشراف 8؍227] میں ان (ولید بن مسلم) کے سماع کی تصریح موجود نہیں۔ ➋ شعیب بن رزیق سے ولید بن مسلم والی روایت کی مکمل سند اور مکمل متن نامعلوم ہے۔ [سنن ابن ماجه 239] وغیرہ میں اس حدیث کے ضعیف شواہد بھی ہیں، جن کے ساتھ یہ روایت ضعیف ہی رہتی ہے، اگرچہ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے: «لكن له شواهد يتقوي بها» لیکن اس کے شواہد ہیں جس سے یہ قوی ہو جاتی ہے۔ [فتح الباري 1؍16۔، قبل ح68!] فائدہ: صحیح مسلم میں آیا ہے: ”اور جو شخص علم حاصل کرنے کے لئے اس کے راستے پر چلے گا تو اللہ اس کا جنت کی طرف راستہ آسان کر دے گا۔۔۔۔“[ح2699، اضواء المصابيح: 204، ماهنامه الحديث حضرو: 66 ص3] ◄ اسی طرح یہ بھی صحیح ہے کہ انبیاء کی (مال و دولت والی) وراثت نہیں ہوتی، بلکہ وہ جو بھی چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔ دیکھئے: صحیح بخاری [3094] و صحیح مسلم [1757] ◄ امام جعفر الصادق رحمہ اللہ نے فرمایا: ”اور بےشک انبیاء کے وارث علماء ہیں، بےشک نبیوں کی وراثت درہم و دینار نہیں ہوتی لیکن وہ علم کی وراثت چھوڑتے ہیں، جس نے اسے لیا تو اس نے بڑا حصہ لے لیا۔“[الاصول من الكافي للكليني ج1 ص34، باب ثواب العالم و المتعلم ح1، وسنده صحيح عند الشيعة، موطأ امام مالك رواية ابن القاسم بتحقيقي ص115 ح44] ◄ سیدنا صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”(مجھے پتا چلا ہے کہ) بےشک طالب علم کے لئے فرشتے اپنے پَر بچھاتے ہیں، اس کے طلب علم کی رضامندی کے لئے۔“[سنن الترمذي: 3535، 3536 وقال: ”حسن صحيح“ وهو حديث حسن] ◄ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عالم کو عابد پر اس طرح فضیلت ہے، جیسے میری فضیلت تم میں سے ایک ادنیٰ آدمی پر ہے“، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بےشک اللہ (رحمت برساتا ہے اور) اس کے فرشتے، آسمانوں اور زمینوں والے حتیٰ کہ چیونٹی اپنے سوراخ (بل) میں اور مچھلی (سمندر، پانی میں) بھی لوگوں کو خیر سکھانے والے استاد کے لئے دعائیں کرتی ہے۔“ دیکھئے: اضواء المصابیح حدیث [213]، ترمذی [2685]
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3641
´علم حاصل کرنے کی طرف رغبت دلانے کا بیان۔` کثیر بن قیس کہتے ہیں کہ میں ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کے ساتھ دمشق کی مسجد میں بیٹھا تھا کہ اتنے میں ان کے پاس ایک شخص آیا اور ان سے کہنے لگا: اے ابو الدرداء! میں آپ کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر سے اس حدیث کے لیے آیا ہوں جس کے متعلق مجھے یہ خبر ملی ہے کہ آپ اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں میں آپ کے پاس کسی اور غرض سے نہیں آیا ہوں، اس پر ابوالدرداء نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جو شخص طلب علم کے لیے راستہ طے کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اسے جنت کی راہ چلاتا ہے اور فرشتے طال۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب العلم /حدیث: 3641]
فوائد ومسائل: 1۔ اس روایت کو بعض حضرات نے شواہد کی بنا پر حسن قرار دیا ہے۔
2۔ لفظ علم کا اطلاق درحقیقت کتاب اللہ سنت رسول اللہ ﷺ اور ان کے متعلقات پر ہوتا ہے۔ ان کے علاوہ جو دیگر علوم ہیں۔ وہ دراصل فن اور کسب کے ہنر ہیں۔ کہنے والے نے کیا خوب کہا ہے۔ (العلم قال الله قال رسوله قال الصحابة هم أولو العرفان) علم تو یہ ہے کہ اللہ نے کہا اللہ کے رسول ﷺنے کہا اور صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین نے کہا۔ یہی علم وعرفان والے ہیں۔
2۔ اس حدیث میں اخلاص کے ساتھ حصول علم اور صاحب علم کی بہت بڑی فضیلت کا بیان ہے۔
4۔ انبیاء کی عظمت اس تعلق کی بنا پر ہے۔ جو انہیں اللہ رب العالمین کے ساتھ حاصل ہے۔ اور پھر علماء کی شان وراثت انبیاء کی وجہ سے ہے۔ اس لئے واجب ہے کہ علماء اس نسبت کی خوب حفاظت کریں اور اپنے آپ کو کسی بھی دنیادار سے ہیچ نہ جانیں۔
5۔ اللہ اور نبی کریمﷺ کے ساتھ محبت کا لازمی تقاضا ہے کہ علمائے حق اور طلبائے دین کے ساتھ محبت رکھی جائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3641
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث223
´علماء کے فضائل و مناقب اور طلب علم کی ترغیب و تشویق۔` کثیر بن قیس کہتے ہیں کہ میں ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کے پاس دمشق کی مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ آپ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: اے ابوالدرداء! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر مدینہ سے ایک حدیث کے لیے آیا ہوں، مجھے یہ خبر ملی ہے کہ آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ حدیث روایت کرتے ہیں؟! ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے پوچھا: آپ کی آمد کا سبب تجارت تو نہیں؟ اس آدمی نے کہا: نہیں، کہا: کوئی اور مقصد تو نہیں؟ اس آدمی نے کہا: نہیں، ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے س۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 223]
اردو حاشہ: (1) یہ روایت بعض دوسرے محققین کے نزدیک صحیح ہے۔
(2) علماء کو مسجد میں علم سکھانے کے لیے بیٹھنا چاہیے یا ایسی جگہ علمی مجلس منعقد کرنی چاہیے جہاں کسی کو ان کے پاس آنے سے رکاوٹ نہ ہو اور ہر امیر و غریب، ادنیٰ واعلیٰ مستفید ہو سکے۔
(3) کسی بڑے عالم سے علم حاصل کرنے کے لیے ایک شہر سے دوسرے شہر جانا بہت اچھا کام ہے۔
(4) حصول علم کے لیے سفر کرنے والے سے اللہ کی ہر مخلوق خوش ہوتی اور اسے دعائیں دیتی ہے۔
(5) بالواسطہ سنی ہوئی حدیث کو بڑے عالم سے براہ راست سننے کی کوشش کرنا مستحب ہے، اسے محدثین کی اصطلاح میں عالی سند کا حصول کہتے ہیں۔
(6) استاد کو چاہیے کہ طالب علم کو علم کی اہمیت اور فضیلت سے باخبر کرے تاکہ اسے خوشی ہو اور شوق میں اضافہ ہو اور اس طرح وہ بہتر استفادہ کر سکے۔
(7) عالم، عبادت گزار سے افضل ہے کیونکہ عالم دوسروں کو فائدہ پہنچاتا ہے جب کہ عابد صرف اپنے لیے کوشش کرتا ہے۔ اس کے علاوہ عبادت کے لیے بھی علم کی ضرورت ہے ورنہ بدعات میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے جس سے بجائے اللہ کی رضا حاصل ہونے کے اللہ کا غضب نازل ہوتا ہے۔
(8) علماء کا یہ بہت بڑا شرف ہے کہ وہ نبیوں کے روحانی وارث ہیں۔ لیکن یہ بلند مقام ان پر اتنی ہی بڑی ذمہ داری بھی عائد کرتا ہے کہ وہ حق واضح کریں، حق کی طرف بلائیں، باطل سے منع کریں، اور اس راہ میں کسی خوف یا لالچ کو خاطر میں نہ لائیں، جس طرح انبیائے کرام نے اس علم کی تبلیغ میں جدوجہد، صبر، اخلاص اور للہیت کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا۔
(9) انبیائے کرام کا مالی ترکہ دوسرے لوگوں کی طرح وارثوں پر تقسیم نہیں ہوتا بلکہ وہ عام مسلمانوں پر صدقہ ہوتا ہے۔
(10) انبیاء کی میراث سے حصہ لینے کا دروازہ بند نہیں ہوا، ہر شخص اپنی محنت کے مطابق اس علمی میراث میں سے حصہ لے سکتا ہے کیونکہ یہ میراث نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ اس مقدس میراث میں سے زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرے۔
(11) عام طور پر کہا جاتا ہے کہ فرشتے طالب علم کے قدموں کے نیچے اپنے پر بچھا دیتے ہیں۔ حدیث کے الفاظ سے یہ مفہوم نہیں نکلتا۔ وضع کا لفظ رفع کے مقابلے میں ہے، اس کے لیے اس کے معنی پروں کا جھکانا بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ ”قدموں“ کا لفظ حدیث میں نہیں۔ فرشتوں کا پروں کو جھکانا محبت اور احترام کا اظہار ہے۔ واللہ أعلم.
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 223