الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ترمذي
كتاب الإيمان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: ایمان و اسلام
18. باب مَا جَاءَ فِي افْتِرَاقِ هَذِهِ الأُمَّةِ
18. باب: امت محمدیہ کی فرقہ بندی کا بیان۔
حدیث نمبر: 2640
حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ أَبُو عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " تَفَرَّقَتِ الْيَهُودُ عَلَى إِحْدَى وَسَبْعِينَ أَوِ اثْنَتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً وَالنَّصَارَى مِثْلَ ذَلِكَ، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً " , وفي الباب عن سَعْدٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَعَوْفِ بْنِ مَالِكٍ , قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہود اکہتر یا بہتر فرقوں میں بٹ گئے اور نصاریٰ بھی اسی طرح بٹ گئے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ کی یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں سعد، عبداللہ بن عمرو، اور عوف بن مالک رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الإيمان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2640]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/الفتن 17 (3991) (تحفة الأشراف: 15082) (حسن صحیح)»

وضاحت: ۱؎: بعض احادیث میں یہ آیا ہے کہ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، ان میں سے بہتر جہنمی ہوں گے، صرف ایک فرقہ جنتی ہو گا، امت کے یہ فرقے کون ہیں؟ صاحب تحفہ الأحوذی نے اس کی تشریح میں یہ لکھا ہے کہ فرق مذمومہ سے فروعی مسائل میں اختلاف کرنے والے فرقے مراد نہیں ہیں، بلکہ اس سے مراد وہ فرقے ہیں جو اہل حق سے اصول میں اختلاف رکھتے ہیں، مثلاً توحید، تقدیر، نبوت کی شرطیں اور موالات صحابہ وغیرہ، کیونکہ یہ ایسے مسائل ہیں جن میں اختلاف کرنے والوں نے ایک دوسرے کی تکفیر کی ہے جب کہ فروعی مسائل میں اختلاف کرنے والے ایک دوسرے کی تکفیر نہیں کرتے، جنتی فرقہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو کتاب وسنت پر قائم رہنے والے اور صحابہ کرام سے محبت کے ساتھ ان کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة (3991)

   جامع الترمذيتفرقت اليهود على إحدى وسبعين أو اثنتين وسبعين فرقة النصارى مثل ذلك تفترق أمتي على ثلاث وسبعين فرقة
   سنن أبي داودافترقت اليهود على إحدى أو ثنتين وسبعين فرقة تفرقت النصارى على إحدى أو ثنتين وسبعين فرقة تفترق أمتي على ثلاث وسبعين فرقة
   سنن ابن ماجهتفرقت اليهود على إحدى وسبعين فرقة تفترق أمتي على ثلاث وسبعين فرقة

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2640 کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، سنن ترمذی3992  
فرقہ ناجیہ «السواد الاعظم» سے مراد صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کی جماعتِ حقہ ہے
ایک حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں تہتر (73) فرقے ہو جائیں گے جن میں صرف ایک جنتی ہے اور باقی سارے فرقے جہنمی ہیں۔ اسے درج ذیل صحابۂ کرام نے روایت کیا ہے:
الف: عوف بن مالک رضی اللہ عنہ [سنن ابن ماجه: 3992 وسنده حسن]
ب: معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ [سنن أبى داود: 4597 وسنده حسن]
ج: ابوامامہ رضی اللہ عنہ [المعجم الكبير للطبراني 8/321 ح 8035 وسنده حسن، السنن الكبريٰ للبيهقي 8/ 188، و سنده حسن]
اس آخری روایت میں فرقہ ناجیہ «السواد الاعظم» کو قرار دیا گیا ہے اور حدیث سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ میں «الجماعة» کا لفظ ہے، ان سب سے مراد صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کی جماعتِ حقہ ہے اور یہی «السواد الاعظم» ہے۔ نیز دیکھئے: [كتاب الشريعة الآجري ص 14، 15، نسخة أخريٰ ص 17]
خیر القرون گزر جانے کے بعد شرالقرون میں بعض مبتدعین کا اپنے آپ کو سوادِ اعظم قرار دینا اسی طرح غلط ہے جس طرح ایک صحیح العقیدہ مسلمان بہت سے گمراہوں کے اکثریتی علاقے میں رہ رہا ہو اور اکثریتی لوگ اس کے مقابلے میں اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہوں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِيْ عَلَي ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً»
اور میری اُمت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔
[سنن الترمذي: 2640 وَقَالَ: حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ وَ سَنَدُهُ حَسَنٌ وصححه ابن حبان: 1834، والحاكم 1/128، عليٰ شرط مسلم ووافقه الذهبي!]
یہ تینوں یا چاروں روایتیں اپنے مفہوم کے ساتھ صحیح لغیرہ ہیں بلکہ بعض علماء نے تہتر فرقوں والی حدیث کو متواتر قرار دیا ہے۔ دیکھئے: [نظم المتناثر من الحديث المتواتر للكتاني ص57 ح 18]
فرقوں والی بعض روایات ذکر کرنے کے بعد امام ابوبکر محمد بن الحسین الآجری رحمہ اللہ (متوفی 360ھ) فرماتے ہیں:
«رَحِمَ اللَّهُ عَبْدًا حَذِرَ هَذِهِ الْفِرَقَ، وَجَانَبَ الْبِدَعَ وَاتبع وَلَمْ يَبْتَدِعْ، وَلَزِمَ الْأَثَرَ وَطَلَبَ الطَّرِيقَ الْمُسْتَقِيمَ، وَاسْتَعَانَ بِمَوْلَاهُ الْكَرِيمِ»
اللہ اس بندے پر رحم کرے جس نے ان فرقوں سے ڈرایا اور بدعات سے دُوری اختیار کی، اس نے اتباع کی اور بدعات کی پیروی نہیں کی، اس نے آثار کو لازم پکڑا اور صراطِ مستقیم طلب کی اور اپنے مولیٰ کریم (اللہ) سے مدد مانگی۔
[الشريعة ص 18، دوسرانسخه ص 20 قبل ح 30]
. . . اصل مضمون کے لئے دیکھیں . . .
ماہنامہ الحدیث شمارہ 47 صفحہ 4 اور اضواء المصابیح فی تحقیق مشکوۃ المصابیح حدیث نمبر 140 اور 141
   ماہنامہ الحدیث حضرو، حدیث/صفحہ نمبر: 4   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2640  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
بعض احادیث میں یہ آیا ہے کہ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی،
ان میں سے بہتر جہنمی ہوں گے،
صرف ایک فرقہ جنتی ہوگا،
امت کے یہ فرقے کون ہیں؟ صاحب تحفہ الأحوذی نے اس کی تشریح میں یہ لکھا ہے کہ فرق مذمومہ سے فروعی مسائل میں اختلاف کرنے والے فرقے مراد نہیں ہیں،
بلکہ اس سے مراد وہ فرقے ہیں جو اہل حق سے اصول میں اختلاف رکھتے ہیں،
مثلاً توحید،
تقدیر،
نبوت کی شرطیں اور موالات صحابہ وغیرہ،
کیوں کہ یہ ایسے مسائل ہیں جن میں اختلاف کرنے والوں نے ایک دوسرے کی تکفیر کی ہے جب کہ فروعی مسائل میں اختلاف کرنے والے ایک دوسرے کی تکفیر نہیں کرتے،
جنتی فرقہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو کتاب وسنت پر قائم رہنے والے اور صحابہ کرام سے محبت کے ساتھ ان کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2640   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4596  
´سنت و عقائد کی شرح و تفسیر۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہود اکہتر یا بہتر فرقوں میں بٹ گئے، نصاریٰ اکہتر یا بہتر فرقوں میں بٹ گئے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4596]
فوائد ومسائل:
علامہ ابو منصور عبد القاہر تمیمی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ ان فقہاء کا اختلاف نہیں ہے کہ جن کے اجتہاد کی بنیاد فہم سنت پر ہے وہ اپنے اپنے اجتہاد کی بنیاد پراشیاء کے حلال یا حرام ہونے کی رائے دیتے ہیں، بلکہ اس تفرقہ سے مراد وہ اصولی اختلافات ہیں جو توحید تقدیر شروط نبوت ورسالت محبت حدیث اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ محبت وموالاۃ وغیرہ کے مسائل میں ظاہر ہوئے اور ان مسائل میں ایک دوسرے کو کافر کیاگیا۔
جبکہ فقہی نوعیت کے مسائل میں کسی نے کسی کو کافر نہیں کہا۔
(عون المعبود) 
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4596