مسروق کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے ہمارے لیے کھانا طلب کیا اور کہا کہ میں کسی کھانے سے سیر نہیں ہوتی ہوں کہ رونا چاہتی ہوں پھر رونے لگتی ہوں۔ میں نے سوال کیا: ایسا کیوں؟ عائشہ رضی الله عنہا نے کہا: میں اس حالت کو یاد کرتی ہوں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا، اللہ کی قسم! آپ روٹی اور گوشت سے ایک دن میں دو بار کبھی سیر نہیں ہوئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2356]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف، وانظر مایأتي بعدہ (تحفة الأشراف: 17627) (ضعیف) (سند میں مجالد بن سعید ضعیف ہیں، اگلی روایت صحیح ہے جس کا سیاق اس حدیث کے سیاق سے قدرے مختلف ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، التعليق الرغيب (4 / 109) ، مختصر الشمائل (128)
قال الشيخ زبير على زئي: (2356) إسناده ضعيف مجالد : ضعيف (تقدم: 653)
ننظر إلى الهلال ثلاثة أهلة في شهرين وما أوقدت في أبيات رسول الله نار ما كان يعيشكم قالت الأسودان التمر والماء كان لرسول الله جيران من الأنصار كان لهم منائح وكانوا يمنحون رسول الله
ننظر إلى الهلال ثم الهلال ثلاثة أهلة في شهرين وما أوقدت في أبيات رسول الله نار ما كان يعيشكم قالت الأسودان التمر والماء كان لرسول الله جيران من الأنصار كانت لهم منائح وكانوا يمنحون
ننظر إلى الهلال ثم الهلال ثم الهلال ثلاثة أهلة في شهرين وما أوقد في أبيات رسول الله نار ما كان يعيشكم قالت الأسودان التمر والماء كان لرسول الله جيران من الأنصار وكانت لهم منائح
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7452
حضرت عروہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے،کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہافرماتی تھیں:اللہ کی قسم! میرے بھانجے!ہم ایک دفعہ پہلی کا چاند دیکھتے پھر (اگلے مہینے)پہلی کا چاند دیکھتے دومہینوں میں تین دفعہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجروں میں چولہا نہ جلا ہو تا۔(عروہ نے)کہا:میں نے پوچھا خالہ تو آپ کی گزران کے لیے کون سی چیز ہوتی؟انھوں نے کہا: وہ کالی چیزیں کھجور اور پانی البتہ انصار میں سے کچھ (گھرانے)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمسائے تھے اور انھیں دودھ دینے والی اونٹیناں ملی ہوئی تھیں۔وہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:7452]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: دوسرے ماہ کے اختتام پرتیسرے ماہ کا چاند نظر آجاتا ہے، اس طرح دو ماہ میں تین چاند نظر آجاتے ہیں اور پانی کو کھجور کی مناسبت و غلبہ سے سیاہ کہہ دیا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7452
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2567
2567. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے حضرت عروہ ؓ سے فرمایا: اے میرے بھانجے! ہم چاند دیکھتے، پھر دوسرا چاند دیکھتے، اس طرح دو ماہ میں تین چاند دیکھتے اور اس دوران میں رسول اللہ ﷺ کے گھروں میں سے کسی میں آگ نہیں جلتی تھی۔ میں نے عرض کیا: خالہ جان!ایسے حالات میں آپ کا گزر اوقات کیا ہوتا تھا؟ انھوں نےفرمایا: دو کالی چیزوں: کھجور اور پانی پر (گزارہ کرتے تھے)، نیز رسول اللہ ﷺ کے کچھ انصاری پڑوسی تھے جن کے پاس دودھ دینے والی بکریاں تھیں اور وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس دودھ کا تحفہ بھیجتے توآپ ہمیں بھی پلاتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2567]
حدیث حاشیہ: دودھ بطور تحفہ بھیجنا اس سے ثابت ہوا۔ دو مہینے میں تین چاند اس طرح دیکھتیں کہ پہلا چاند مہینے کے شروع ہونے پر دیکھا‘ پھر دوسرا چاند اس کے ختم پر تیسرا چاند دوسرے مہینے کے ختم پر۔ کالی چیزوں میں پانی کو بھی شامل کر جیا‘ حا لانکہ پانی کالا نہیں ہوتا۔ لکن عرب لوگ تثنیہ ایک چیز کے نام سے کر دیتے ہیں۔ جیسے شمسین قمرین چاند سورج دونوں کو کہتے ہیں اس طرح ابیضین دودھ اور پانی دونوں کو کہہ دیتے ہیں اور صرف دودھ ابیض یعنی سفید ہوتا ہے۔ پانی کا تو کوئی رنگ نہیں ہوتا۔ اس حدیث سے دودھ کا بطور تحفہ و ہدیہ و ہبہ پیش کرنا ثابت ہوا۔ فوائد کے لحاظ سے یہ بہت ہی بڑا ہبہ ہے جو ایک انسان کو پیش کرتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2567
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5416
5416. سیدنا عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: مدینہ طیبہ آنے کے بعد آل محمد ﷺ نے کبھی مسلسل تین دن گندم کی روٹی پیٹ بھر کر نہیں کھائی یہاں تک کہ آپ ﷺ دینا سے رخصت ہو گئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5416]
حدیث حاشیہ: آپ بہت کم کھانا پسند فرماتے تھے۔ یہی حال آپ کی آل پاک کا تھا۔ یہاں اکثر سے یہی مراد ہے۔ اللہ ہر مسلمان کو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر قسم کی سنت پر عمل کرنے کی توفیق بخشے۔ خاص طور پر مدعیان علم و فضل کو جو کثرت خوری میں بدنام ہیں جیسے اکثر پیر زادے سجادہ نشین جو بکثرت کھا کھا کر لحیم و شحیم بن جاتے ہیں، إلا ما شاء اللہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5416
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6687
6687. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: محمد ﷺ کے اہل خانہ کبھی مسلسل تین دن تک سالن کے ساتھ گیہوں کی روٹی نہیں کھا سکے حتیٰ کہ آپ اللہ تعالٰی سے جا ملے۔ ابن کثیر بیان کرتے ہیں: ہمیں سفیان نے بتایا ان سے عبدالرحمن نے حدیث ذکر کی ان سے ان کے والد نے،ان سے سیدہ عائشہ ؓ نے یہی حدیث بیان کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6687]
حدیث حاشیہ: اس سند کے بیان کرنے سے یہ غرض ہے کہ عابس کی ملاقات حضرت عائشہ ؓ سےثابت ہو جائے۔ کیونکہ اگلی روایت عن کےساتھ ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6687
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2567
2567. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے حضرت عروہ ؓ سے فرمایا: اے میرے بھانجے! ہم چاند دیکھتے، پھر دوسرا چاند دیکھتے، اس طرح دو ماہ میں تین چاند دیکھتے اور اس دوران میں رسول اللہ ﷺ کے گھروں میں سے کسی میں آگ نہیں جلتی تھی۔ میں نے عرض کیا: خالہ جان!ایسے حالات میں آپ کا گزر اوقات کیا ہوتا تھا؟ انھوں نےفرمایا: دو کالی چیزوں: کھجور اور پانی پر (گزارہ کرتے تھے)، نیز رسول اللہ ﷺ کے کچھ انصاری پڑوسی تھے جن کے پاس دودھ دینے والی بکریاں تھیں اور وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس دودھ کا تحفہ بھیجتے توآپ ہمیں بھی پلاتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2567]
حدیث حاشیہ: (1) کھجور کے متعلق تو کہا جا سکتا ہے کہ وہ کالی ہے کیونکہ مدینہ طیبہ کی کھجور سیاہ ہی ہوتی ہے لیکن پانی کو تغليباً سیاہ کہا گیا ہے۔ عربی زبان میں بسا اوقات غالب شے کا لحاظ کیا جاتا ہے۔ کھجور اصل چیز ہے وہ اگر کالی ہے تو پانی کو بھی کالا کہہ دیا۔ (2) اس حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ کے انصاری پڑوسی آپ کو دودھ بھیجتے تھے۔ اس بنا پر دودھ کا بطور تحفہ و ہدیہ بھیجنا ثابت ہوا۔ فوائد کے اعتبار سے یہ بہت قیمتی تحفہ ہے جو ایک انسان دوسرے کو پیش کرتا ہے۔ (3) حدیث سے معلوم ہوا کہ مال دار شخص غریب آدمی سے اچھا برتاؤ کرے اور اسے اپنے مال سے عطیہ کرتا رہے، نیز انسان کو چاہیے کہ وہ تھوڑی چیز پر قناعت کرے۔ قناعت سے انسان کی عزت و آبرو اور خودداری محفوظ رہتی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2567
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5416
5416. سیدنا عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: مدینہ طیبہ آنے کے بعد آل محمد ﷺ نے کبھی مسلسل تین دن گندم کی روٹی پیٹ بھر کر نہیں کھائی یہاں تک کہ آپ ﷺ دینا سے رخصت ہو گئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5416]
حدیث حاشیہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت کم کھانا پسند فرماتے تھے۔ آپ کو دنیوی عیش و عشرت میں قطعاً کوئی رغبت نہ تھی۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کا بھی یہی حال تھا، چنانچہ حضرت جحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ گوشت کا ثرید کھایا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو ڈکار لے رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابو جحیفہ! اپنے ڈکار کو روکو، جو لوگ دنیا میں سیر ہو کر کھاتے ہیں وہ قیامت کے دن بھوکے ہوں گے۔ “(المستدرك علی الصحیحین للحاکم: 121/4، و السلسلة الصحیحة للألباني، حدیث: 343) اس کے بعد حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ نے وفات تک کبھی سیر ہو کر نہیں کھایا جب صبح کا کھانا کھاتے تو شام کا کھانا چھوڑ دیتے اور جب شام کو کھانا کھاتے تو صبح کا ناغہ کرتے۔ (عمدة القاري: 421/14)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5416
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6687
6687. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: محمد ﷺ کے اہل خانہ کبھی مسلسل تین دن تک سالن کے ساتھ گیہوں کی روٹی نہیں کھا سکے حتیٰ کہ آپ اللہ تعالٰی سے جا ملے۔ ابن کثیر بیان کرتے ہیں: ہمیں سفیان نے بتایا ان سے عبدالرحمن نے حدیث ذکر کی ان سے ان کے والد نے،ان سے سیدہ عائشہ ؓ نے یہی حدیث بیان کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6687]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں اکثر اوقات کھجور ہوتی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی سے سیر ہوتے تھے۔ کبھی کبھار گندم کی روٹی کے ساتھ کھجور بھی تناول فرماتے، یہی کھجور ان کا سالن تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ روٹی کے علاوہ گھر میں جو چیز بھی ہوتی اسے سالن کہا جاتا تھا جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوپہر کا کھانا طلب کیا تو آپ کو روٹی اور گھر میں موجود کوئی بھی سالن پیش کر دیا گیا۔ (صحیح البخاري، الأطعمة، حدیث: 5430)(2) ابن بطال نے کہا کہ گھر میں جو بھی چیز بطور سالن استعمال کی جاتی ہے اسے عرف میں سالن ہی کہا جاتا ہے، خواہ وہ مائع ہو یا جامد۔ (فتح الباري: 696/11) لغوی اعتبار سے روٹی پر جس چیز کی بھی ہلکی سی تَہ بنائی جا سکے وہ سالن ہے، جیسے: گھی اور شہد وغیرہ، پھر اس میں توسع کیا گیا تو ہر اس چیز پر سالن کا اطلاق کر دیا گیا جو روٹی کے ساتھ کھائی جائے۔ یہ ضروری نہیں کہ اس سے روٹی ملا کر کھائی جائے اور روٹی کے اجزاء اس میں تحلیل ہوں۔ (3) سالن کی یہ تعریف محض تکلف ہے۔ بہرحال اگر کسی نے روٹی کے ساتھ کوئی بھی چیز بطور سالن استعمال کی تو اس کی قسم ٹوٹ جائے گی۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6687