الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ترمذي
كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: ایام فتن کے احکام اور امت میں واقع ہونے والے فتنوں کی پیش گوئیاں
63. باب مَا جَاءَ فِي ذِكْرِ ابْنِ صَائِدٍ
63. باب: ابن صائد (ابن صیاد) کا بیان۔
حدیث نمبر: 2249
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِابْنِ صَيَّادٍ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ فِيهِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَهُوَ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ عِنْدَ أُطُمِ بَنِي مَغَالَةَ وَهُوَ غُلَامٌ، فَلَمْ يَشْعُرْ حَتَّى ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ظَهْرَهُ بِيَدِهِ، ثُمَّ قَالَ: " أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟ " فَنَظَرَ إِلَيْهِ ابْنُ صَيَّادٍ، قَالَ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ الْأُمِّيِّينَ، ثُمَّ قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَتَشْهَدُ أَنْتَ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " آمَنْتُ بِاللَّهِ وَبِرُسُلِهِ "، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا يَأْتِيكَ؟ " قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ: يَأْتِينِي صَادِقٌ وَكَاذِبٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خُلِّطَ عَلَيْكَ الْأَمْرُ "، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي خَبَأْتُ لَكَ خَبِيئًا وَخَبَأَ لَهُ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ سورة الدخان آية 10 "، فَقَالَ ابْنُ صَيَّادٍ: هُوَ الدُّخُّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اخْسَأْ فَلَنْ تَعْدُوَ قَدْرَكَ "، قَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ائْذَنْ لِي فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنْ يَكُ حَقًّا فَلَنْ تُسَلَّطَ عَلَيْهِ، وَإِنْ لَا يَكُنْهُ فَلَا خَيْرَ لَكَ فِي قَتْلِهِ "، قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: يَعْنِي الدَّجَّالَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ جس میں عمر بن خطاب بھی تھے ابن صیاد کے پاس سے گزرے، اس وقت وہ بچوں کے ساتھ بنی مغالہ کے ٹیلوں کے پاس کھیل رہا تھا، وہ ایک چھوٹا بچہ تھا اس لیے اسے آپ کی آمد کا احساس اس وقت تک نہ ہو سکا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اس کی پیٹھ پر مارا، پھر فرمایا: کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ ابن صیاد نے آپ کی طرف دیکھ کر کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ امیوں کے رسول ہیں، پھر ابن صیاد نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا ہوں، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: تمہارے پاس (غیب کی) کون سی چیز آتی ہے؟ ابن صیاد نے کہا: میرے پاس ایک سچا اور ایک جھوٹا آتا ہے، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے اوپر تیرا معاملہ مشتبہ ہو گیا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہارے لیے (دل میں) ایک بات چھپاتا ہوں اور آپ نے آیت: «يوم تأتي السماء بدخان مبين» ۱؎ چھپا لی، ابن صیاد نے کہا: وہ (چھپی ہوئی چیز) «دخ» ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھٹکار ہو تجھ پر تو اپنی حد سے آگے نہیں بڑھ سکے گا، عمر رضی الله عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئیے میں اس کی گردن اڑا دوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر وہ حقیقی دجال ہے تو تم اس پر غالب نہیں آ سکتے اور اگر وہ نہیں ہے تو اسے قتل کرنے میں کوئی بھلائی نہیں ہے۔ عبدالرزاق کہتے ہیں: «حقا» سے آپ کی مراد دجال ہے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2249]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الجنائز 79 (1354)، والجھاد 178 (3055)، والأدب 97 (6618)، صحیح مسلم/الفتن 19 (2930)، سنن ابی داود/ الملاحم 16 (4329) (تحفة الأشراف: 6932)، و مسند احمد (2/148) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: آپ اس دن کے منتظر رہیں جب کہ آسمان ظاہر دھواں لائے گا۔
۲؎: بعض صحابہ کرام یہ سمجھتے تھے کہ یہی وہ مسیح دجال ہے جس کے متعلق قرب قیامت میں ظہور کی خبر دی گئی ہے، لیکن فاطمہ بنت قیس کی روایت سے جس میں تمیم داری نے اپنے سمندری سفر کا حال بیان کیا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ قطعیت اس بات میں ہے کہ ابن صیاد دجال اکبر نہیں بلکہ کوئی اور ہے، ابن صیاد تو ان دجاجلہ، کذابین میں سے ایک ہے جن کے ظہور کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی، اور ان میں سے اکثر کا ظہور ہو چکا ہے، رہے وہ صحابہ جنہوں نے وثوق کے ساتھ قسم کھا کر ابن صیاد کو دجال کہا حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی اسے دجال کہا گیا اور آپ خاموش رہے تو یہ سب تمیم داری والے واقعہ سے پہلے کی باتیں ہیں۔

قال الشيخ الألباني: **

   صحيح البخاريخبأت لك خبيئا قال الدخ قال اخسأ فلن تعدو قدرك قال عمر ائذن لي فأضرب عنقه قال دعه إن يكن هو فلا تطيقه وإن لم يكن هو فلا خير لك في قتله
   صحيح البخاريأتشهد أني رسول الله فنظر إليه ابن صياد فقال أشهد أنك رسول الأميين فقال ابن صياد للنبي أتشهد أني رسول الله قال له النبي آمنت بالله ورسله قال النبي ماذا ترى قال ابن صياد يأتيني صادق وكاذب قال النبي صل
   صحيح البخاريانطلق النبي وأبي بن كعب يأتيان النخل الذي فيه ابن صياد حتى إذا دخل النخل طفق النبي يتقي بجذوع النخل وهو يختل ابن صياد أن يسمع من ابن صياد شيئا قبل أن يراه وابن صياد مضطجع على فراشه في قطيفة له فيها رمزة فرأت أم ابن صياد
   صحيح البخاريأتشهد أني رسول الله فنظر إليه فقال أشهد أنك رسول الأميين ثم قال ابن صياد أتشهد أني رسول الله فرضه النبي ثم قال آمنت بالله ورسله ثم قال لابن صياد ماذا ترى قال يأتيني صادق وكاذب قال رسول الله خلط عليك الأمر قال رسول الل
   صحيح البخاريانطلق رسول الله وأبي بن كعب الأنصاري يؤمان النخل التي فيها ابن صياد حتى إذا دخل رسول الله طفق رسول الله يتقي بجذوع النخل وهو يختل أن يسمع من ابن صياد شيئا قبل أن يراه وابن صياد مضطجع على فراشه في قط
   صحيح البخاريتشهد أني رسول الله فنظر إليه ابن صياد فقال أشهد أنك رسول الأميين فقال ابن صياد للنبي أتشهد أني رسول الله فرفضه وقال آمنت بالله وبرسله فقال له ماذا ترى قال ابن صياد يأتيني صادق وكاذب فقال النبي خلط عليك الأمر ثم قال له
   صحيح مسلمأتشهد أني رسول الله فنظر إليه ابن صياد فقال أشهد أنك رسول الأميين فقال ابن صياد لرسول الله أتشهد أني رسول الله فرفضه رسول الله وقال آمنت بالله وبرسله ثم قال له رسول الله ماذا ترى قال ابن صياد يأتيني
   جامع الترمذيأتشهد أني رسول الله فنظر إليه ابن صياد قال أشهد أنك رسول الأميين ثم قال ابن صياد للنبي أتشهد أنت أني رسول الله فقال النبي آمنت بالله وبرسله ثم قال النبي ما يأتيك قال ابن صياد يأتيني صادق وكاذب فقال
   سنن أبي داودأتشهد أني رسول الله قال فنظر إليه ابن صياد فقال أشهد أنك رسول الأميين ثم قال ابن صياد للنبي أتشهد أني رسول الله فقال له النبي آمنت بالله ورسله ثم قال له النبي ما يأتيك قال يأتيني صادق وكاذب فقال له
   بلوغ المرام الإسلام يعلو ولا يعلى

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2249 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2249  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
آپ اس دن کے منتظر رہیں جب کہ آسمان ظاہر دھواں لائے گا۔

2؎:
بعض صحابہ کرام یہ سمجھتے تھے کہ یہی وہ مسیح دجال ہے جس کے متعلق قرب قیامت میں ظہور کی خبردی گئی ہے،
لیکن فاطمہ بنت قیس کی روایت سے جس میں تمیم داری نے اپنے سمندری سفر کا حال بیان کیا ہے،
معلوم ہوتا ہے کہ قطعیت اس بات میں ہے کہ ابن صیاد دجال اکبر نہیں بلکہ کوئی اور ہے،
ابن صیاد تو ان دجاجلہ،
کذابین میں سے ایک ہے جن کے ظہور کی رسول اللہ ﷺ نے خبردی تھی،
اور ان میں سے اکثر کا ظہور ہوچکا ہے،
رہے وہ صحابہ جنہوں نے وثوق کے ساتھ قسم کھا کر ابن صیاد کو دجال کہا حتی کہ آپ ﷺ کے سامنے بھی اسے دجال کہا گیا اور آپﷺ خاموش رہے تو یہ سب تمیم داری والے واقعہ سے پہلے کی باتیں ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2249   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1126  
´جزیہ اور صلح کا بیان`
سیدنا عائذ بن عمرو المذنی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسلام غالب رہتا ہے مغلوب نہیں ہوتا۔ (سنن دارقطنی) «بلوغ المرام/حدیث: 1126»
تخریج:
«أخرجه الدار قطني: 3 /252 وسنده ضعيف، وللحديث شواهد عند الطحاوي في معاني الآثار:2 /150 وغيره، وعلقه البخاري، الجنائز، قبل حديث:1354.»
تشریح:
1. اس حدیث میں خبر و اطلاع بھی ہے اور پیش گوئی بھی کہ اسلام ہمیشہ غالب بن کر رہنے کے لیے آیا ہے‘ مغلوب بن کر رہنے کے لیے نہیں‘ لہٰذا اہل اسلام کو چاہیے کہ نظریاتی اور عملی طور پر اسے غالب رکھنے کی کوشش کرتے رہیں۔
اسلام کی صحیح تبلیغ و اشاعت کریں۔
اور اس کے مطابق پہلے خود اپنی عملی زندگی ڈھالیں تاکہ ان کے عمل و کردار اور اخلاق و اطوار سے متاثر ہو کر غیر مسلم دائرۂ اسلام میں داخل ہوں۔
2.اس حدیث کو ہدنہ (صلح) کی تمہید اور ابتدا کے طور پر ذکر کیا گیا ہے کہ باہمی مصالحت میں اگر بفرض محال کوئی شرط بظاہر اسلام کے ماننے والے کے مفاد کے خلاف بھی معلوم ہو تو پریشان ہونے اور گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
3. اسلام اللہ کا پسندیدہ دین ہے۔
وہ اسے ہمیشہ سربلند و بالاتر اور اعلیٰ و غالب رکھے گا۔
اس کے ماننے والے اگر اس کے مطابق عمل کریں گے تو سرخرو ہوں گے اور اللہ تعالیٰ اسلام اور اہل اسلام کی نصرت و مدد فرمائے گا۔
4. اسلام کا دلائل و براہین کے اعتبار سے سب پر غالب رہنا تو ایک مسلمہ حقیقت ہے۔
راویٔ حدیث:
«حضرت عائذ بن عمرو مزنی رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ ابو ہبیرہ ان کی کنیت تھی۔
بصرہ میں فروکش ہوگئے تھے۔
نیک ترین صحابہ میں سے تھے۔
بیعت رضوان میں حاضر تھے۔
یزید بن معاویہ کے عہد میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1126   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4329  
´ابن صیاد کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ جس میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے ابن صیاد کے پاس سے گزرے، وہ بنی مغالہ کے ٹیلوں کے پاس بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، وہ ایک کمسن لڑکا تھا تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا احساس اس وقت تک نہ ہو سکا جب تک آپ نے اپنے ہاتھ سے اس کی پشت پر مار نہ دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ تو ابن صیاد نے آپ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا، اور بولا: ہاں، میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ امیوں کے رسول ہیں، پھر ابن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الملاحم /حدیث: 4329]
فوائد ومسائل:
علامہ ابنِ اثیر النہایہ میں لکھتے ہیں کہ یہ ایک یہودی تھا جو ان کے ساتھ ملا جلا رہتا تھا۔
اس کا نام صَا فُ کہا گیا ہے۔
اس کے پاس کہانت اور جادو کا علم تھا اور وہ اپنے وقت میں اللہ کے نیک بندوں کے لیئے ایک امتحان تھا تا کہ جو ہلاک ہو دلیل کے ساتھ ہلاک ہو اور جو زندہ رہے دلیل ک ساتھ زندہ رہے۔
اکثر کہتے ہیں کہ یہ مدینہ میں مرا اور یہ بھی کہا گیا کہ واقعہ حرا کے مو قعے پر اسے گم پایا گیا اور پھر ملا نہیں۔
واللہ اعلم۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4329   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6618  
6618. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے ابن صیاد سے فرمایا: میں نے تیرے لیے ایک بات اپنے دل میں چھپا رکھی ہے (بتا وہ کیا ہے؟) اس نے کہا: وہ دخ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بد بخت، دور ہو جا! تو اپنی حیثیت سے ہرگز آگے نہیں بڑھ سکےگا۔ حضرت عمر ؓ نے عرض کی: آپ مجھے اجازت دیں، میں اس کی گردن اڑاؤں۔ آپ نے فرمایا: اسے چھوڑ دو، اگر یہ وہی ہے تو تم اسے قتل نہیں کر سکتے اور اگر یہ وہ نہیں تو اس کے قتل کرنے میں تمہیں کوئی فائدہ نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6618]
حدیث حاشیہ:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ اس لیے کہا کہ خس کم جہاں پاک آئندہ دجال کا اندیشہ ہی نہ رہے۔
اس حدیث کی مناسبت کتاب القدر سے یوں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر وہ دجال ہے تب تو تم اسے مار ہی نہ سکو گے کیوں کہ اللہ نے تقدیر یوں لکھی ہے کہ وہ قیامت کے قریب نکلے گا اور لوگوں کو گمراہ کرے گا آخر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ سے قتل ہوگا۔
تقدیر کے خلاف نہیں ہو سکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ دجال کے لفظی معنی کے لحاظ سے ابن صیاد بھی دجالوں کی فہرست ہی کا ایک فرد تھا اس کے سارے کاموں میں دجل اور فریب کا پورا پورا دخل تھا، ایسے لوگ امت میں بہت ہوئے ہیں اور آج بھی موجود ہیں اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے ان کو دجالون کذابون کہا گیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6618   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2638  
2638. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابی بن کعب انصاری ؓ اس نخلستان کا قصد کر کے چلے جس میں ابن صیاد تھا۔ رسول اللہ ﷺ جب باغ میں داخل ہوئے تو کھجوروں کی آڑ میں چھپ چھپ کر چلنے لگے۔ رسول اللہ ﷺ اس کی کچھ باتیں اس کے دیکھنے سے پہلے سننا چاہتے تھے۔ ابن صیاد اپنے بستر پر چادر میں منہ لپیٹے لیٹا ہوا تھا اور کچھ گنگنا رہا تھا۔ چنانچہ نبی ﷺ درختوں کی آڑ میں آرہے تھے کہ ابن صیاد کی ماں نے آپ کو دیکھ لیا۔ اس نے (فوراً) ابن صیاد سے کہا: اے صاف! یہ محمد (ﷺ آرہے) ہیں۔ یہ سن کر ابن صیاد گنگناہٹ سے رک گیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اگر وہ اسے (اس حال پر) چھوڑ دیتی تو معاملہ واضح ہو جاتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2638]
حدیث حاشیہ:
ابن صیاد مدینہ میں ایک یہودی لڑکا تھا جو بڑ مارا کرتا تھا کہ مجھ پر بھی وحی اترتی ہے۔
حالانکہ اس پر شیطان سوار تھا۔
اکثر نیم بے ہوشی میں رہتا تھا اور دیوانگی کی باتیں کرتا تھا۔
آنحضرت ﷺ نے ایک مرتبہ چاہا چھپ کر اس کی بڑ کو سنیں اور وہ آپ کو دیکھ نہ سکے۔
یہی واقعہ یہاں مذکور ہے اور اسی سے حضرت امام ؒ نے ترجمۃ الباب کو ثابت فرمایا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2638   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2638  
2638. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابی بن کعب انصاری ؓ اس نخلستان کا قصد کر کے چلے جس میں ابن صیاد تھا۔ رسول اللہ ﷺ جب باغ میں داخل ہوئے تو کھجوروں کی آڑ میں چھپ چھپ کر چلنے لگے۔ رسول اللہ ﷺ اس کی کچھ باتیں اس کے دیکھنے سے پہلے سننا چاہتے تھے۔ ابن صیاد اپنے بستر پر چادر میں منہ لپیٹے لیٹا ہوا تھا اور کچھ گنگنا رہا تھا۔ چنانچہ نبی ﷺ درختوں کی آڑ میں آرہے تھے کہ ابن صیاد کی ماں نے آپ کو دیکھ لیا۔ اس نے (فوراً) ابن صیاد سے کہا: اے صاف! یہ محمد (ﷺ آرہے) ہیں۔ یہ سن کر ابن صیاد گنگناہٹ سے رک گیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اگر وہ اسے (اس حال پر) چھوڑ دیتی تو معاملہ واضح ہو جاتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2638]
حدیث حاشیہ:
(1)
جس نے چھپ کر کوئی واقعہ دیکھا یا سنا تو کیا اس کی گواہی معتبر ہو گی یا نہیں؟ بعض حضرات کا خیال ہے کہ جو شخص چھپ کر کسی کے حالات معلوم کرتا ہے، اس کی عدالت مجروح ہے، لہذا اس کی شہادت قبول نہیں ہو گی لیکن بعض اوقات ایسا کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ حالات کا صحیح علم ہو سکے، چنانچہ ابن صیاد چھپ کر نافرمانی اور فریب کرتا تھا، ایسے لوگوں کا کسی بھی حیلے سے کلام سننا جائز ہے تاکہ پوری وضاحت کے بعد کوئی حکم لگایا جائے، چنانچہ رسول اللہ ﷺنے چھپ کر ابن صیاد کے حالات معلوم کرنے کا پروگرام بنایا اور اس کی گفتگو چھپ کر سنی، نیز فرمایا:
اگر اس کی ماں اسے خبردار نہ کرتی تو اس کے متعلق کئی امور کا انکشاف ہوتا۔
(2)
اگر چھپ کر بات سننے والے کی شہادت قبول نہ کی جائے تو سراغ رسانی کا محکمہ اور اس کی کارکردگی فضول ہو گی۔
اب تو دنیا اتنی ترقی کر گئی ہے کہ کسی مقام پر چھوٹا سا آلہ لگایا جاتا ہے جس میں اہل مجلس کی تمام گفتگو ریکارڈ ہو جاتی ہے، ایسی شہادت قبول تو ہو گی، البتہ اس پر جرح کی جا سکتی ہے تاکہ کوئی فاسق و فاجر اس سے ناجائز فائدہ نہ اٹھا سکے۔
جہاں آوازوں کے اشتباہ کا اندیشہ ہو تو ایسی گواہی پر مکمل انحصار نہیں کیا جائے گا جس کی بنیاد صرف سماعت ہے۔
بہرحال ایسے معاملات میں جرح کا حق محفوظ رہنا چاہیے تاکہ حقیقت حال تک رسائی حاصل ہو سکے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2638   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6618  
6618. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے ابن صیاد سے فرمایا: میں نے تیرے لیے ایک بات اپنے دل میں چھپا رکھی ہے (بتا وہ کیا ہے؟) اس نے کہا: وہ دخ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بد بخت، دور ہو جا! تو اپنی حیثیت سے ہرگز آگے نہیں بڑھ سکےگا۔ حضرت عمر ؓ نے عرض کی: آپ مجھے اجازت دیں، میں اس کی گردن اڑاؤں۔ آپ نے فرمایا: اسے چھوڑ دو، اگر یہ وہی ہے تو تم اسے قتل نہیں کر سکتے اور اگر یہ وہ نہیں تو اس کے قتل کرنے میں تمہیں کوئی فائدہ نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6618]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ تھا کہ اگر یہ وہی دجال ہے جس کا خروج اور لوگوں کو گمراہ کرنا، اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے تو تمہارا خالق و مالک تمہیں اسے قتل کرنے کی قدرت نہیں دے گا بلکہ درمیان میں حائل ہو جائے گا۔
اگر تجھے اسے قتل کرنے کی قدرت دے دے تو اللہ تعالیٰ کے علم میں نقص آئے گا جو محال ہے۔
مقصد یہ ہے کہ تقدیر کا فیصلہ قطعی اور اٹل ہے۔
اگر کہیں کسی کے لیے ٹل سکتا تو آج حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ کہہ کر مایوس نہ کیا جاتا کہ تم اس بچے (ابن صیاد)
کو قتل کر ہی نہیں سکتے۔
(2)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دنیا میں دوبارہ آنا اور تشریف لا کر دجال کو قتل کرنا تقدیر کے ان حتمی فیصلوں میں داخل ہو چکا ہے جو اٹل ہیں۔
یہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے بہادر کی قوت آزمائی بھی بے کار ہے۔
یہ قدرت کے راز ہیں، اگر وہ کسی قید و شرط کو بیان کر کے اپنے فیصلے کو ٹال دیتا تو آج ہی یہ امت ان ہولناک مصائب سے نجات پا لیتی جن کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، مگر اس ذات بے نیاز کو اس کی کوئی پروا نہیں ہے۔
(3)
اس وضاحت کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں یہ وسوسہ بھی پیدا نہیں ہوا کہ لاؤ، ذرا آزمائش تو کر کے دیکھوں کہ مجھ میں اس کے قتل کی طاقت ہے یا نہیں۔
بہرحال تقدیر میں جس طرح دجال کا قتل مقدر ہو چکا ہے۔
اسی طرح اس کا قاتل بھی مقدر ہو چکا ہے، یہ ناممکن ہے کہ وہ قتل تو ہو جائے مگر ہو کسی اور سبب سے، وہ یقیناً قتل ہو گا مگر اسی سبب سے جو اس کے لیے مقدر ہو چکا ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6618