عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آخری زمانہ ۱؎ میں ایک قوم نکلے گی جس کے افراد نوعمر اور سطحی عقل والے ہوں گے، وہ قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، قرآن کی بات کریں گے لیکن وہ دین سے اسی طرح نکل جائیں گے جیسے شکار سے تیر آر پار نکل جاتا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- دوسری حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے جس میں آپ نے انہیں لوگوں کی طرح اوصاف بیان کیا کہ وہ لوگ قرآن پڑھیں گے، مگر ان کے گلے کے نیچے نہیں اترے گا، وہ دین سے ایسے ہی نکل جائیں گے جیسے کمان سے تیر نکل جاتا ہے، ان سے مقام حروراء کی طرف منسوب خوارج اور دوسرے خوارج مراد ہیں، ۳- اس باب میں علی، ابوسعید اور ابوذر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2188]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/المقدمة 12 (168) (تحفة الأشراف: 9210)، و مسند احمد (1/404) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے مراد خلافت راشدہ کا اخیر زمانہ ہے، اس خلافت کی مدت تیس سال ہے، خوارج کا ظہور علی رضی الله عنہ کے دور خلافت میں ہوا، جب خلافت راشدہ کے دو سال باقی تھے تو علی رضی الله عنہ نے نہروان کے مقام پر ان سے جنگ کی، اور انہیں قتل کیا، خوارج میں نوعمر اور غیر پختہ عقل کے لوگ تھے جو پرفریب نعروں کا شکار ہو گئے تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی ہر زمانہ میں ظاہر ہو رہے ہیں آج کے پرفتن دور میں اس کا مظاہرہ جگہ جگہ نظر آ رہا ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی صحیح سمجھ دے اور ہر طرح کے فتنوں سے محفوظ رکھے، آمین۔
يخرج في آخر الزمان قوم أحداث الأسنان سفهاء الأحلام يقولون من خير قول الناس يقرءون القرآن لا يجاوز تراقيهم يمرقون من الإسلام كما يمرق السهم من الرمية فمن لقيهم فليقتلهم فإن قتلهم أجر عند الله لمن قتلهم
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2188
اردو حاشہ: وضاحت 1؎: اس سے مراد خلافت راشدہ کا اخیر زمانہ ہے، اس خلافت کی مدت تیس سال ہے، خوارج کا ظہور علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہوا، جب خلافت راشدہ کے دوسال باقی تھے تو علی رضی اللہ عنہ نے نہروان کے مقام پران سے جنگ کی، اور انہیں قتل کیا، خوارج میں نوعمر اور غیر پختہ عقل کے لوگ تھے جو پر فریب نعروں کا شکار ہوگئے تھے۔ اوررسول اکرمﷺکی یہ پیش گوئی ہرزمانہ میں ظاہر ہورہے ہیں آج کے پرفتن دورمیں اس کا مظاہرہ جگہ جگہ نظرآرہا ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی صحیح سمجھ دے اورہرطرح کے فتنوں سے محفوظ رکھے آمین۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2188
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث168
´خوارج کا بیان۔` عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اخیر زمانہ میں کچھ نوعمر، بیوقوف اور کم عقل لوگ ظہور پذیر ہوں گے، لوگوں کی سب سے اچھی (دین کی) باتوں کو کہیں گے، قرآن پڑھیں گے، لیکن ان کے حلق سے نہ اترے گا، وہ اسلام سے ویسے ہی نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے، تو جو انہیں پائے قتل کر دے، اس لیے کہ ان کا قتل قاتل کے لیے اللہ تعالیٰ کے نزدیک باعث اجر و ثواب ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 168]
اردو حاشہ: (1) آخری زمانے کا مطلب بعض علماء نے خلافت راشدہ کا آخری زمانہ مراد لیا ہے کیونکہ یہ خارجی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ظاہر ہوئے تھے، ممکن ہے قیامت کے قریب بھی ایسے لوگ سامنے آئیں جو انہی گمراہیوں کا شکار ہوں جن میں خارجی مبتلا تھے۔ واللہ أعلم. (2) بدعت، خواہ عقیدہ میں ہو یا عمل میں، کم عقلی کی دلیل ہے۔ گویا بدعت کو وہی شخص ایجاد یا اختیار کرتا ہے جو دین کی سمجھ نہیں رکھتا یا دین کو ناقص سمجھتا ہے۔
(3) گمراہ فرقے اپنی گمراہی کی تائید میں ایسی چیزیں پیش کرتے ہیں، جن سے کم علم آدمی دھوکا کھا جاتا ہے اور ان باتوں کو پختہ دلائل سمجھ بیٹھتا ہے، لیکن اگر ان کے مزعومہ دلائل کو قرآن و حدیث کی روشنی میں پرکھا جائے تو ان کی غلطی واضح ہو جاتی ہے۔
(4) قرآن کے گلے سے آگے نہ گزرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ زبان سے قرآن پڑھیں گے، لیکن اس کا اثر ان کے دلوں پر نہ ہو گا یا ان کے دل قرآن کی صحیح سمجھ سے محروم ہوں گے۔
(5) بدعتی اپنے خود ساختہ اقوال و افعال ہی کو اسلام سمجھتا ہے، اس لیے وہ اصلی اسلام سے محروم ہو جاتا ہے۔ جس طرح وہ تیر جو شکار کیے جانے والے جانور میں سے آر پار گزر جائے کہنے کو تو اس کا تعلق بھی اس جانور سے قائم ہوا ہے، لیکن حقیقت میں یہ تعلق کالعدم ہے۔ اسی طرح خوارج یا دوسرے اہل بدعت کا تعلق بظاہر تو اسلام سے قائم ہوتا ہے کیونکہ وہ شہادتین کا اقرار کرتے ہیں اور مسلمانوں والے اعمال کرتے ہیں، لیکن بدعت کی وجہ سے ان کی نیکیاں غیر مقبول اور کالعدم ہو جاتی ہیں، اس طرح اسلام سے ان کا تعلق قائم نہیں رہ پاتا۔
(6) اہل بدعت کو پہلے سمجھانا چاہیے اور ان کی غلطیاں واضح کرنی چاہئیں، پھر بھی اگر وہ باز نہ آئیں اور عام مسلمانوں کے لیے گمراہی کا باعث بننے لگیں تو اسلامی حکومت کو ان سے باغیوں کا سا سلوک روا رکھ کے، بزور قوت ان کے فتنہ کا خاتمہ کرنا چاہیے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی پہلے خوارج کو سمجھانے کے لیے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو بھیجا تھا جس کے نتیجے میں ان میں سے بہت سے افراد کی سمجھ میں بات آگئی اور انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اطاعت قبول کر لی۔ جو بغاوت پر مصر رہے ان سے جنگ کی گئی۔ (البداية والنهاية: 4؍292)
(7) فتنے کا خاتمہ کرنے کے لیے اسلامی حکومت سے تعاون نیک کام ہے، جس پر ثواب ملے گا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 168