عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کے دو قسم کے لوگوں کے لیے اسلام میں کوئی حصہ نہیں ہے: (۱) مرجئہ (۲) قدریہ“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس باب میں عمر، ابن عمر اور رافع بن خدیج رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب القدر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2149]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/المدقدمة 9 (73) (تحفة الأشراف: 6222) (ضعیف) (سند میں ”نزار بن حیان اسدی“ ضعیف ہیں)»
وضاحت: ۱؎: مرجئہ: باطل اور گمراہ فرقوں میں سے ایک فرقہ ہے جو یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ بندہ کو اپنے افعال کے سلسلہ میں کچھ بھی اختیار حاصل نہیں، جمادات کی طرح وہ مجبور محض ہے ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ جس طرح کفر کے ساتھ اطاعت و فرمانبرداری کچھ بھی مفید نہیں اسی طرح ایمان کے ساتھ معصیت ذرہ برابر نقصان دہ نہیں۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (105) ، الظلال (334 و 335) // يعني كتاب " السنة " لابن أبي عاصم طبع المكتب الإسلامي، وضعيف الجامع الصغير (3498) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2149) ضعيف / جه 62 نزار : ضعيف (تق: 7104) وللحديث شاھد ضعيف ، انظر الحديث الآتي (2149 ب)
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2149
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: مرجئہ: باطل اور گمراہ فرقوں میں سے ایک فرقہ ہے جویہ اعتقاد رکھتا ہے کہ بندہ کو اپنے افعال کے سلسلہ میں کچھ بھی اختیار حاصل نہیں، جمادات کی طرح وہ مجبور محض ہے اُن کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ جس طرح کفر کے ساتھ اطاعت و فرمانبرداری کچھ بھی مفید نہیں اسی طرح ایمان کے ساتھ معصیت ذرہ برابر نقصان دہ نہیں۔
قدریہ: وہ فرقہ ہے جس کا یہ عقیدہ ہے کہ بندہ اپنے افعال کا خود خالق ہے اس میں اللہ کے ارادہ و مشیئت کا کچھ بھی دخل نہیں، یہ فرقہ تقدیر کا سرے سے منکر ہے۔ یہ بات تودرست ہے کہ یہ دونوں فرقے افراط وتفریط کا شکارہیں، مگرمذکوربالاسب مرفوع روایات ضعیف درجہ کی ہیں، اگرانہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما تک موقوف تسلیم کیاجائے تو درست ہے۔
نوٹ:
(سندمیں ”سلام بن ابی عمرہ“ ضعیف ہیں)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2149
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 105
´ایمان کی کچھ علامات` «. . . وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: \" صِنْفَانِ مِنْ أُمَّتِي لَيْسَ لَهُمَا فِي الْإِسْلَامِ نَصِيبٌ: الْمُرْجِئَةُ وَالْقَدَرِيَّةُ \". رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ . . .» ”. . . سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے کہا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں دو قسم کے ایسے لوگ ہیں جن کا اسلام میں کچھ بھی حصہ نہیں: مرجیہ، قدریہ۔“ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 105]
تخریج: [سنن ترمذي 2149]، [سنن ابن ماجه 62]
تحقیق الحدیث: اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ اسے ترمذی کے علاوہ ابن ماجہ [62] نے بھی روایت کیا ہے۔ ● اس کا راوی نزار بن حیان الاسدی ضعیف ہے۔ دیکھئے: [تقريب التهذيب: 7104، انوار الصحيفة ص612، اور كتاب المجروحين لابن حبان 56/3] ● اس روایت کے بہت سے ضعیف شواہد ہیں جن کے باوجود بھی یہ روایت ضعیف ہی ہے۔
تنبیہ: سنن ترمذی کے قدیم قلمی نسخے میں اس حدیث کے بعد امام ترمذی کا قول لکھا ہوا ہے کہ «هذا حديث حسن غريب»[ص141ب] ● محدث متساہل ہو یا معتدل اس کی وہی توثیق و تضعیف اور تصحیح و تضعیف معتبر ہے جو جمہور محدثین کے خلاف نہ ہو۔ یاد رہے کہ جس روایت کی سند صحیح یا حسن لذاتہ نہ ہو تو وہ روایت دین میں حجت نہیں ہوتی، لہٰذا اس کے فوائد و فقہ الحدیث لکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث62
´ایمان کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس امت کے دو گروہ ایسے ہوں گے کہ اسلام میں ان کا کوئی حصہ نہیں: ایک مرجیہ ۱؎ اور دوسرا قدریہ (منکرین قدر)“۲؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 62]
اردو حاشہ: (1) یہ روایت تو سنداً ضعیف ہے، تاہم ”مُرْجِئَةُ، اور قَدَرِيَّةُ“ فرقوں کا وجود ایک مسلمہ تاریخی حقیقت ہے، اس لیے ذیل میں ان کے عقائد کا تذکرہ اور اہل سنت کے ان کے فرق و اختلاف کی تفصیل بیان کرنا مناسب معلوم ہوتی ہے۔ (مُرْجِئَةُ ‘ الارجاء) کے معنی موخر کرنا یا امید دلانا ہیں۔ (مُرْجِئَةُ) کو مُرْجِئَةُ کہنے کی چند وجوہات ہو سکتی ہیں:
٭ (مُرجِئَه) عمل کو نیت اور اعتقاد سے موخر کرتے ہیں۔
٭ ان کا یہ کہنا ہے کہ ایمان کے ساتھ معصیت کچھ مضر نہیں جیسا کہ کفر کے ساتھ اطاعت مفید نہیں۔
٭ کبیرہ گناہ کے مرتکب شخص کے معاملے کو آخرت کے دن تک مؤخر کرنا۔ دنیا میں اس کے جنتی یا جہنمی ہونے کا حکم نہیں لگایا جائے گا۔
٭ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلافت میں پہلے نمبر سے چوتھے نمبر پر مؤخر کرنا۔
(2)(مُرجِئَه) کی اقسام: مُرجِئَه کے مندرجہ ذیل فرقے ہیں:
*اَلْجَهْمِيَةُ الصَّالِحَية *اَلشَمَرِيَّة *اليُونُسِيَّة *اَلْيَوْنَانِيَة * اَلنَّجَّارِيَّة *الغَيْلَانِية *اَلْحَنَفِيَّة *اَلسَّبِيَّبية *المُعَاذِيَة *المُرِيْسَةَ * اَلْكَرَامِيَة. (3) مُرْجِئَه کے چند اہم عقائد یہ ہیں:
٭ ان کے نزدیک جس شخص نے کلمہ طیبہ کا اقرار کر لیا وہ ہرگز دوزخ میں نہیں جائے گا اگرچہ کفروشرک کی ہر غلاظت میں ملوث ہو جائے۔
٭ ان کے نزدیک ایمان صرف قول کا نام ہے، عمل اس میں شامل نہیں، اس لیے چاند، سورج اور بت کو سجدہ کرنا کفر نہیں بلکہ صرف کفر کی علامت ہے۔
٭ ایمان میں کمی بیشی نہیں ہوتی بلکہ ایک فاسق و فاجر شخص کا ایمان انبیاء اور فرشتوں کے ایمان کے برابر ہوتا ہے۔
٭ یہ صفات الہی کے منکر ہیں اور قیامت کے روز دیدار الہی کے بھی منکر ہیں۔
(4) مُرْجِئَه کے مقابلے میں اہل سنت والجماعت کے عقائد: مُرْجِئَه اور دیگر فرقوں کے مقابلے میں اہل سنت والجماعت کا عقیدہ عدل و انصاف پر مبنی ہے اور اس کی بنیاد کتاب اللہ اور سنت نبوی کی صریح نصوص ہیں، اس لیے ان کے عقیدے میں کسی قسم کی کجی یا تضاد نہیں ہے بلکہ ان کا عقیدہ صاف، سیدھا اور برحق ہے۔ اہل سنت والجماعت کے چند اہم عقائد یہ ہیں:
٭ ان کے نزدیک ایمان اقرار لسانی، تصدیق قلبی اور اعمال کے مجموعے کا نام ہے۔ اعمال ایمان سے خارج نہیں۔ نیکیوں سے ایمان بڑھتا ہے اور گناہوں سے اس میں کمی آتی ہے۔ اس کی دلیل قرآن مجید کی متعدد آیات ہیں جن میں سے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ﴿وَإِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُم مَّن يَقُولُ أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَـٰذِهِ إِيمَانًا ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ﴾(التوبة: 124) ”اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو بعض منافقین کہتے ہیں کہ اس سورت نے تم میں سے کس کے ایمان کو زیادہ کیا ہے؟ چنانچہ جو لوگ ایمان دار ہیں اس سورت نے ان کے ایمان کو زیادہ کیا ہے اور وہ خوش ہو رہے ہیں۔“ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح بخاری میں متعدد عناوین کے تحت اس مسئلے کو بیان کیا ہے، مثلا: (اِنَّ الْإِيْمَانَ هُوَ الْعَمَلُ، اَلصَّلَاةُ مِنَ الْإِيْمَانِ، اَلزَّكَاةُ مِنَ الْإِيْمَانِ، إتَّبَاعُ الْجَنَائِزِ مِنَ الْإِيْمَانِ، زِيَادَةُ الإِيْمَانِ وَ نُقْصَانُهُ) آیات قرآنی اور صحیح احادیث کی روشنی میں یہ واضح فرمایا ہے کہ اعمال ایمان کا حصہ ہیں اور اطاعت سے ایمان میں اضافہ اور نافرمانی سے اس میں کمی ہوتی ہے۔
٭ اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ مومن اپنے بعض گناہوں کی بنا پر دوزخ میں جا سکتا ہے لیکن وہ اپنے ایمان کی وجہ سے ایک نہ ایک دن جہنم سے نکل آئے گا، ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں نہیں رہے گا۔ اس کی دلیل حضرت انس رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے لَا إِلـٰه إلاَّ الله کا اقرار کیا اور اس کے دل میں جَو کے وزن کے برابر ایمان ہوا وہ جہنم سے نکل آئے گا اور جس نے لَا إِلـٰه إلاَّ الله کو مان لیا اور اس کے دل میں گندم کے دانے کے برابر ایمان ہوا وہ دوزخ سے نکل آئے گا، جس نے لَا إِلـٰه إلاَّ الله کی تصدیق کی اور اس کے دل میں ذرے کے برابر ایمان ہوا وہ بھی آگ سے نجات پا لے گا۔“(صَحِيْحُ الْبُخَارِي، اَلْإيْمَانُ، بَابُ زِيَادَةُ الْإِيْمَانِ وَ نُقْصَانُهُ، حَدِيْث: 44) نیز آپ کا ارشاد گرامی ہے: (مَنْ قَالَ لَا إِلـٰه إلاَّ الله اَنْجَتْهُ يَوماً مِّنْ دَهْرِهِ أصَابَهُ قَبْلَ ذَالِكَ مَا اَصَابَهُ) ”جس شخص نے لَا إِلـٰه إلاَّ الله کا اقرار کیا اور اسے یہ کلمہ طیبہ جہنم سے ایک نہ ایک دن نجات دلا دے گا اگرچہ اس سے پہلے اسے کچھ عذاب ہو بھی چکا ہو۔“(حلْيَةُ الأَوْلِيَاء: 5؍46) ‘وَشرْبُ الإِيْمَان، بَابُ فِي الْإِيْمَانِ بِاللهِ عَزَّوَجَلّ، حديث: 97، 96) یہ حکم اس شخص کا ہے جس نے لَا إِلـٰه إلاَّ الله کا اقرار کیا اور تمام واجبات و شرائط کا لحاظ رکھا اور خود کو کفر و شرک سے محفوظ رکھا۔ واللہ أعلم- ٭ اہل سنت والجماعت اللہ تعالیٰ کے تمام اسماء و صفات پر ایمان رکھتے ہیں اور اس میں تشبیہ، تمثیل، تکیف یا تاویل کے بغیر ایمان لاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کے بارے میں ان کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ صفات اللہ تعالیٰ کی شان اور علو مرتبہ کے لائق ہیں۔ کسی مخلوق کی صفت کے ساتھ ان کی مشابہت لازم نہیں آتی کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (لَيْسَ كَمِثْلِه شَئ) ”اس جیسی کوئی چیز نہیں۔“ نیز اہل سنت والجماعت قیامت کے روز مومنوں کو دیدار الہی ہونے کے قائل ہیں، اس کی دلیل میں صحیحین کی یہ روایت پیش کی جاتی ہے: صحابہ کرام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کا دیدار کر سکیں گے؟ آپ نے فرمایا: ”تم چودھویں رات کے چاند کو دیکھنے میں کوئی مشکل پاتے ہو؟“ صحابہ نے عرض کیا: نہیں، اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”کیا سورج کو دیکھنے میں تمہیں کوئی دقت ہوتی ہے جبکہ اس کے سامنے کوئی بادل بھی نہ ہو؟“ صحابہ نے عرض کیا: نہیں، اے اللہ کے رسول! تو آپ نے فرمایا: ”تم اسی طرح بلا مشقت و رکاوٹ اپنے رب کا دیدار کرو گے....“(صَحِيْحُ الْبُخَارِي، اَلتَّوْحِيْد، بَابُ قَوْلُ الله تعاليٰ (وُجوهٌ يَّومَئِذٍ نّاضِرَةٌ ﴿22﴾ إِلى رَبِّها ناظِرَةٌ) حديث: 7437 وصَحِيْحُ مُسلِم، اَلإيْمَانُ، بَابُ مَعْرِفَة طَرِيقِ الرُّويَةِ، حديث: 182)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 62