انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری کی درخواست کی، آپ نے فرمایا: ”میں تمہیں سواری کے لیے اونٹنی کا بچہ دوں گا“، اس آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں اونٹنی کا بچہ کیا کروں گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بھلا اونٹ کو اونٹنی کے سوا کوئی اور بھی جنتی ہے؟“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1991]
وضاحت: ۱؎: یعنی اونٹ اونٹنی کا بچہ ہی تو ہے، ایسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا تھا: «لا تدخل الجنة عجوز» یعنی ”بوڑھیا جنت میں نہیں جائیں گی“، جس کا مطلب یہ تھا کہ جنت میں داخل ہوتے وقت ہر عورت نوجوان ہو گی، اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان: «إني حاملك على ولد الناقة» کا بھی حال ہے، مفہوم یہ ہے کہ اگر کہنے والے کی بات پر غور کر لیا جائے تو پھر سوال کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (4886) ، مختصر الشمائل (203)
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1991
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی اونٹ اونٹنی کا بچہ ہی تو ہے، ایسے ہی آپ ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا تھا: (لَا تَدخُلُ الجَنَّةَ عَجُوز) یعنی بوڑھیا جنت میں نہیں جائیں گی، جس کا مطلب یہ تھا کہ جنت میں داخل ہوتے وقت ہر عورت نوجوان ہوگی، اسی طرح نبی اکرم ﷺ کے اس فرمان: -إني حاملك على ولد الناقة) کا بھی حال ہے، مفہوم یہ ہے کہ اگر کہنے والے کی بات پر غور کرلیاجائے تو پھر سوال کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1991
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4998
´ہنسی مذاق (مزاح) کا بیان۔` انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے سواری عطا فرما دیجئیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم تو تمہیں اونٹنی کے بچے پر سوار کرائیں گے“ وہ بولا: میں اونٹنی کے بچے کا کیا کروں گا؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آخر ہر اونٹ اونٹنی ہی کا بچہ تو ہوتا ہے۔“[سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4998]
فوائد ومسائل: خوش طبعی اور ہنسی مذاق انسانی طبیعت کا لازمہ ہے، اس سے طبیعت میں بشاشت آجاتی ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ بھی اس سے موصوف تھے، مگر اس میں حق وصدق کےسوا کچھ نہ ہوتا تھا۔ بخلاف اس کے جو کوئی جھوٹ بول کر ہنسے ہنسائے وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4998