عطیہ قرظی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں قریظہ کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا، تو جس کے (زیر ناف کے) بال نکلے ہوئے تھے اسے قتل کر دیا جاتا اور جس کے نہیں نکلے ہوتے اسے چھوڑ دیا جاتا، چنانچہ میں ان لوگوں میں سے تھا جن کے بال نہیں نکلے تھے، لہٰذا مجھے چھوڑ دیا گیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، اگر بلوغت اور عمر معلوم نہ ہو تو وہ لوگ (زیر ناف کے) بال نکلنے ہی کو بلوغت سمجھتے تھے، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب السير عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1584]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ الحدود 17 (4404)، سنن النسائی/الطلاق 20 (3460)، وقطع السارق 17 (4996)، سنن ابن ماجہ/الحدود 4 (2541)، (تحفة الأشراف: 9904)، و مسند احمد (4/310)، و 5/312) (صحیح)»