عبداللہ بن مغفل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک چہرے سے درخت کی شاخوں کو ہٹا رہے تھے اور آپ خطبہ دے رہے تھے، آپ نے فرمایا: ”اگر یہ بات نہ ہوتی کہ کتے دیگر مخلوقات کی طرح ایک مخلوق ہیں تو میں انہیں مارنے کا حکم دیتا ۱؎، سو اب تم ان میں سے ہر سیاہ کالے کتے کو مار ڈالو، جو گھر والے بھی شکاری، یا کھیتی کی نگرانی کرنے والے یا بکریوں کی نگرانی کرنے والے کتوں کے سوا کوئی دوسرا کتا باندھے رکھتے ہیں ہر دن ان کے عمل (ثواب) سے ایک قیراط کم ہو گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- یہ حدیث بسند «حسن البصریٰ عن عبد الله بن مغفل عن النبي صلى الله عليه وسلم» مروی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيد والذبائح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1489]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر حدیث رقم 1486 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: کتوں کو دیگر مخلوقات کی طرح ایک مخلوق آپ نے اس لیے کہا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: «وما من دآبة في الأرض ولا طائر يطير بجناحيه إلا أمم أمثالكم»”یعنی: جتنے قسم کے جاندار زمین پر چلنے والے ہیں اور جتنے قسم کے پرند ہیں جو اپنے دونوں بازوؤں سے اڑتے ہیں ان میں کوئی قسم ایسی نہیں جو کہ تمہاری طرح کے گروہ نہ ہوں“۔ (سورة الأنعام: ۳۸) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شکار، جانوروں اور کھیتی کی حفاظت کے لیے کتے پالنا جائز ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3204)
قال الشيخ زبير على زئي: (1489) إسناده ضعيف / تقدم: 1486
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1489
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: کتوں کو دیگر مخلوقات کی طرح ایک مخلوق آپ نے اس لیے کہا کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَمَا مِن دَآبَّةٍ فِي الأَرْضِ وَلاَ طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلاَّ أُمَمٌ أَمْثَالُكُم﴾(سورة الأنعام: 38)(یعنی: جتنے قسم کے جاندار زمین پر چلنے والے ہیں اور جتنے قسم کے پرند ہیں جو اپنے دونوں بازؤں سے اڑتے ہیں ان میں کوئی قسم ایسی نہیں جو کہ تمہاری طرح کے گروہ نہ ہوں۔ ) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شکار، جانوروں اور کھیتی کی حفاظت کے لیے کتے پالنا جائز ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1489