الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ترمذي
كتاب الصيد والذبائح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: شکار کے احکام و مسائل
12. باب مَا قُطِعَ مِنَ الْحَىِّ فَهُوَ مَيِّتٌ
12. باب: زندہ جانور سے کاٹا ہوا گوشت مردار کے حکم میں ہے۔
حدیث نمبر: 1480
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ , حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ رَجَاءٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ , عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ , عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ , عَنْ أَبِي وَاقِدٍ اللَّيْثِيِّ، قَالَ: قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَهُمْ يَجُبُّونَ أَسْنِمَةَ الْإِبِلِ , وَيَقْطَعُونَ أَلْيَاتِ الْغَنَمِ , فَقَالَ: " مَا قُطِعَ مِنَ الْبَهِيمَةِ وَهِيَ حَيَّةٌ فَهِيَ مَيْتَةٌ " , حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ الْجَوْزَجَانِيُّ , حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ نَحْوَهُ , قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ , لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ , وَأَبُو وَاقِدٍ اللَّيْثِيُّ اسْمُهُ: الْحَارِثُ بْنُ عَوْفٍ.
ابوواقد حارث بن عوف لیثی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے، وہاں کے لوگ (زندہ) اونٹوں کے کوہان اور (زندہ) بکریوں کی پٹھ کاٹتے تھے، آپ نے فرمایا: زندہ جانور کا کاٹا ہوا گوشت مردار ہے ۱؎۔ اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اس حدیث کو صرف زید بن اسلم کی روایت سے جانتے ہیں،
۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيد والذبائح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1480]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ الصید 3 (2858) (تحفة الأشراف: 15515)، وسنن الدارمی/الصید 9 (2061) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی ذبح کیے بغیر زندہ جانور کا وہ حصہ جو کاٹا گیا ہے اسی طرح حرام اور ناجائز ہے جس طرح دوسرے مردہ جانور حرام ہیں، اس لیے اس کاٹے گئے حصہ کا کھانا جائز نہیں، یہ طریقہ زمانہ جاہلیت کا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرما دیا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3216)

   جامع الترمذيما قطع من البهيمة وهي حية فهي ميتة
   سنن أبي داودما قطع من البهيمة وهي حية فهي ميتة
   بلوغ المرامما قطع من البهيمة،‏‏‏‏ وهي حية،‏‏‏‏ فهو ميت

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 1480 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1480  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی ذبح کیے بغیر زندہ جانور کا وہ حصہ جو کاٹا گیا ہے اسی طرح حرام اور ناجائز ہے جس طرح دوسرے مردہ جانور حرام ہیں،
اس لیے اس کاٹے گئے حصہ کا کھانا جائز نہیں،
یہ طریقہ زمانہ جاہلیت کا تھا،
آپ ﷺ نے اس سے منع فرما دیا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1480   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 13  
´زندہ جانوروں سے کچھ گوشت کاٹنا`
«. . . قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏ما قطع من البهيمة،‏‏‏‏ وهي حية،‏‏‏‏ فهو ميت . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا زندہ جانور میں سے جو کچھ کاٹ لیا جائے وہ مردار ہے . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 13]
لغوی تشریح:
«مَا قُطِعَ» یہاں «مَا» موصولہ ہے اور «قُطِعَ» فعل ماضی مجہول ہے، یعنی جو کچھ زندہ جانور کے جسم سے کاٹ لیا گیا۔
«الْبَهِيمَةِ» ہر چار پاؤں والا جانور، مگر چیر پھاڑ کرنے والا نہ ہو۔
«وَهِيَ حَيَّةٌ» اس میںواؤ حالیہ ہے، یعنی اس حال میں کہ اسے ذبح نہ کیا گیا ہو بلکہ زندہ ہو۔
«فَهُوَ» سے مراد وہ ٹکڑا ہے جو زندہ جانور سے کاٹ کر الگ کر لیا گیا ہو۔
«مَيِّتٌ» وہ مردہ کے حکم میں ہے، اس کا کھانا حرام ہے اور وہ نجس ہے۔ اور پانی وغیرہ کو نجس کر دینے والے باقی نجاسات کے حکم میں یہ بھی شامل ہے۔

فائدہ:
اہل جاہلیت زندہ جانوروں سے کچھ گوشت کاٹ کر کھایا کرتے تھے۔ اس حدیث میں ان کے اس فعل شنیع کا رد ہے اور یہ کہ ایسا کاٹا ہوا گوشت مردار اور پلید ہے، لہٰذا اس کا کھانا حرام ہے۔

راوئ حدیث:
SR سیدنا ابوواقد لیثی رضی اللہ عنہ: ER ابوواقد کنیت ہے، اصل نام حارث بن عوف ہے۔ بنو عامر بن لیث کی طرف منسوب ہیں، اس لئے لیثی کہلائے۔ قدیم الاسلام ہیں۔ ان کا شمار اہل مدینہ میں ہوتا ہے۔ ایک قول کے مطابق یہ غزوہ بدر میں شریک تھے۔ مکہ کے پڑوس میں رہائش اختیار کرلی۔ 65 یا 68 ہجری میں وفات پائی۔ ان کی عمر 75 یا 85 برس تھی۔ فخ مقام میں مقبرہ مہاجرین میں دفن کیے گئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 13   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2858  
´زندہ شکار (جانور) کے جسم سے کوئی حصہ کاٹ لیا جائے اس کے حکم کا بیان۔`
ابوواقد لیثی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زندہ جانور کے بدن سے جو چیز کاٹی جائے وہ مردار ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصيد /حدیث: 2858]
فوائد ومسائل:
یعنی عرب کے متعلق آتا ہے۔
کہ وہ دنبے کی چکتی کاٹ لیتے۔
اور زخم پر دوا لگا دیتے۔
اس طرح جانور بھی زندہ رہتا اورگوشت بھی کھا لیتے۔
تو شریعت نے اس کو مردار فرمایا ہے۔
یعنی حرام ہے۔
اور کتاب الصید میں اس حدیث کا تعلق یوں ہے۔
کہ اگر شکاری کتے نے یا تیر اور گولی وغیرہ نے جانور کا کوئی حصہ علیحدہ کر دیا گیا ہو اگر اسی حالت میں جان نکل گئی ہو تو دونوں ٹکڑے حلال ہیں۔
لیکن اگر روح نہیں نکلی اور کوئی حصہ الگ ہوچکا ہو۔
اور پھر اسے ذبح کی جا رہا ہو تو ذبح سے پہلے علیحدہ ہوجانے والا حصہ کھانے میں احتیاط کرنی چاہیے۔
ورنہ نشانہ مارتے ہوئے بسم اللہ تو پڑھی جا چکی ہے۔
اسے بھی کھایا جا سکتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2858