الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ترمذي
كتاب البيوع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
43. باب مَا جَاءَ إِذَا اخْتَلَفَ الْبَيِّعَانِ
43. باب: بائع (بیچنے والے) اور مشتری (خریدنے والے) کے اختلاف کا بیان۔
حدیث نمبر: 1270
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا اخْتَلَفَ الْبَيِّعَانِ، فَالْقَوْلُ قَوْلُ الْبَائِعِ، وَالْمُبْتَاعُ بِالْخِيَارِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ مُرْسَلٌ عَوْنُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ لَمْ يُدْرِكْ ابْنَ مَسْعُودٍ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا الْحَدِيثُ أَيْضًا، وَهُوَ مُرْسَلٌ أَيْضًا، قَالَ أَبُو عِيسَى 12: قَالَ إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، قُلْتُ لِأَحْمَدَ: إِذَا اخْتَلَفَ الْبَيِّعَانِ، وَلَمْ تَكُنْ بَيِّنَةٌ، قَالَ: الْقَوْلُ مَا قَالَ رَبُّ السِّلْعَةِ، أَوْ يَتَرَادَّانِ، قَالَ إِسْحَاق: كَمَا قَالَ، وَكُلُّ مَنْ كَانَ الْقَوْلُ قَوْلَهُ فَعَلَيْهِ الْيَمِينُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَكَذَا رُوِيَ عَنْ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنَ التَّابِعِينَ مِنْهُمْ: شُرَيْحٌ وَغَيْرُهُ نَحْوُ هَذَا.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب بائع اور مشتری میں اختلاف ہو جائے تو بات بائع کی مانی جائے گی، اور مشتری کو اختیار ہو گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث مرسل ہے، عون بن عبداللہ نے ابن مسعود کو نہیں پایا،
۲- اور قاسم بن عبدالرحمٰن سے بھی یہ حدیث مروی ہے، انہوں نے ابن مسعود سے اور ابن مسعود نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔ اور یہ روایت بھی مرسل ہے،
۳- اسحاق بن منصور کہتے ہیں: میں نے احمد سے پوچھا: جب بائع اور مشتری میں اختلاف ہو جائے اور کوئی گواہ نہ ہو تو کس کی بات تسلیم کی جائے گی؟ انہوں نے کہا: بات وہی معتبر ہو گی جو سامان کا مالک کہے گا، یا پھر دونوں اپنی اپنی چیز واپس لے لیں یعنی بائع سامان واپس لے لے اور مشتری قیمت۔ اسحاق بن راہویہ نے بھی وہی کہا ہے جو احمد نے کہا ہے،
۴- اور بات جس کی بھی مانی جائے اس کے ذمہ قسم کھانا ہو گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
تابعین میں سے بعض اہل علم سے اسی طرح مروی ہے، انہیں میں شریح بھی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1270]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 9531) (صحیح) وانظر أیضا: سنن ابی داود/ البیوع 74 (3511)، سنن النسائی/البیوع 82 (4652)، سنن ابن ماجہ/التجارات 19 (2186)، مسند احمد (1/446)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (1322 - 1324) ، أحاديث البيوع

   جامع الترمذيإذا اختلف البيعان فالقول قول البائع والمبتاع بالخيار
   سنن أبي داودإذا اختلف البيعان وليس بينهما بينة فهو ما يقول رب السلعة أو يتتاركان
   سنن ابن ماجهإذا اختلف البيعان وليس بينهما بينة والبيع قائم بعينه فالقول ما قال البائع أو يترادان البيع
   سنن النسائى الصغرىإذا اختلف البيعان وليس بينهما بينة فهو ما يقول رب السلعة أو يتركا
   بلوغ المرام إذا اختلف المتبايعان ،‏‏‏‏ وليس بينهما بينة ،‏‏‏‏ فالقول ما يقول رب السلعة أو يتتاركان