الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ترمذي
كتاب البيوع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
8. باب مَا جَاءَ فِي كِتَابَةِ الشُّرُوطِ
8. باب: خرید و فروخت کے شرائط لکھ لینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1216
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، أَخْبَرَنَا عَبَّادُ بْنُ لَيْثٍ صَاحِبُ الْكَرَابِيسِيِّ الْبَصْرِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَجِيدِ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: قَالَ لِي الْعَدَّاءُ بْنُ خَالِدِ بْنِ هَوْذَةَ: أَلَا أُقْرِئُكَ كِتَابًا كَتَبَهُ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قُلْتُ: بَلَى فَأَخْرَجَ لِي كِتَابًا " هَذَا مَا اشْتَرَى الْعَدَّاءُ بْنُ خَالِدِ بْنِ هَوْذَةَ، مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اشْتَرَى مِنْهُ عَبْدًا، أَوْ أَمَةً، لَا دَاءَ، وَلَا غَائِلَةَ، وَلَا خِبْثَةَ بَيْعَ الْمُسْلِمِ الْمُسْلِمَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبَّادِ بْنِ لَيْثٍ، وَقَدْ رَوَى عَنْهُ هَذَا الْحَدِيثَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْحَدِيثِ.
عبدالمجید بن وہب کہتے ہیں کہ مجھ سے عداء بن خالد بن ھوذہ نے کہا: کیا میں تمہیں ایک تحریر نہ پڑھاؤں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے لکھی تھی؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، ضرور پڑھائیے، پھر انہوں نے ایک تحریر نکالی، (جس میں لکھا تھا) یہ بیع نامہ ہے ایک ایسی چیز کا جو عداء بن خالد بن ھوذہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے خریدی ہے، انہوں نے آپ سے غلام یا لونڈی کی خریداری اس شرط کے ساتھ کی کہ اس میں نہ کوئی بیماری ہو، نہ وہ بھگیوڑو ہو اور نہ حرام مال کا ہو، یہ مسلمان کی مسلمان سے بیع ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف عباد بن لیث کی روایت سے جانتے ہیں۔ ان سے یہ حدیث محدثین میں سے کئی لوگوں نے روایت کی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1216]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/البیوع 19 (تعلیقاً فی الترجمة) سنن ابن ماجہ/التجارات 47 (2251) (تحفة الأشراف: 9848) (حسن)»

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں تحریروں کا رواج عام تھا اور مختلف موضوعات پر احادیث لکھی جاتی تھیں۔

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (2251)

   جامع الترمذيهذا ما اشترى العداء بن خالد بن هوذة من محمد رسول الله اشترى منه عبدا أو أمة لا داء ولا غائلة ولا خبثة بيع المسلم المسلم
   سنن ابن ماجههذا ما اشترى العداء بن خالد بن هوذة من محمد رسول الله اشترى منه عبدا أو أمة لا داء ولا غائلة ولا خبثة بيع المسلم للمسلم

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 1216 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1216  
اردو حاشہ:
وضاحت: 1 ؎:
اس حدیث سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ نبی اکرمﷺکی حیات طیبہ میں تحریروں کا رواج عام تھا اورمختلف موضوعات پراحادیث لکھی جاتی تھیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1216   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2251  
´غلام یا لونڈی خریدنے کا بیان۔`
عبدالمجید بن وہب کہتے ہیں کہ مجھ سے عداء بن خالد بن ہوذہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا میں تم کو وہ تحریر پڑھ کر نہ سناؤں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے لکھی تھی؟ میں نے کہا: کیوں نہیں؟ ضرور سنائیں، تو انہوں نے ایک تحریر نکالی، میں نے جو دیکھا تو اس میں لکھا تھا: یہ وہ ہے جو عداء بن خالد بن ہوذہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے خریدا، عداء نے آپ سے ایک غلام یا ایک لونڈی خریدی، اس میں نہ تو کوئی بیماری ہے، نہ وہ چوری کا مال ہے، اور نہ وہ مال حرام ہے، مسلمان سے مسلمان کی بیع ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2251]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
قیمتی چیز کی خرید وفروخت کے وقت تحریر لکھ لینی چاہیے۔

(2)
غلام یا لونڈی خریدی۔
یعنی تحریر میں غلام کا لفظ تھا یا لونڈی کا۔
یہ شک عباد بن لیث کی طرف سے ہے جو امام ابن ماجہ کےاستاد کےاستاد ہیں۔

(3) (غائلة)
کا یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ اسے بھاگ جانے، چوری یا زنا کرنے کی یا ایسی کوئی دوسری بری عادت نہیں، اور یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ وہ چوری کا مال نہیں اور یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ بیچنے والا غلام کا عیب نہیں چھپا رہا۔

(4) (خبشة)
کامطلب حرام بھی بیان کیا گیا ہے اور اخلاقی خرابی بھی۔

(5)
مسلمان کی مسلمان سے بیع کا مطلب یہ ہے کہ یہ بیع ان تمام اصول وضوابط کے تحت شمار ہو گی جو اسلامی قوانین میں موجود ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2251