الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ترمذي
كتاب الطهارة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: طہارت کے احکام و مسائل
86. بَابُ غَسْلِ الْمَنِيِّ مِنَ الثَّوْبِ
86. باب: منی کے کپڑے سے دھونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 117
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَائِشَةَ " أَنَّهَا غَسَلَتْ مَنِيًّا مِنْ ثَوْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , وَحَدِيثُ عَائِشَةَ أَنَّهَا غَسَلَتْ مَنِيًّا مِنْ ثَوْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَيْسَ بِمُخَالِفٍ لِحَدِيثِ الْفَرْكِ، لِأَنَّهُ وَإِنْ كَانَ الْفَرْكُ يُجْزِئُ فَقَدْ يُسْتَحَبُّ لِلرَّجُلِ أَنْ لَا يُرَى عَلَى ثَوْبِهِ أَثَرُهُ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: الْمَنِيُّ بِمَنْزِلَةِ الْمُخَاطِ فَأَمِطْهُ عَنْكَ وَلَوْ بِإِذْخِرَةٍ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے کپڑے سے منی دھوئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عباس رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے،
۳- اور عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث کہ انہوں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے کپڑے سے منی دھوئی ان کی کھرچنے والی حدیث کے معارض نہیں ہے ۱؎۔ اس لیے کہ کھرچنا کافی ہے، لیکن مرد کے لیے یہی پسند کیا جاتا ہے کہ اس کے کپڑے پر اس کا کوئی اثر دکھائی نہ دے۔ (کیونکہ مرد کو آدمیوں کی مجلسوں میں بیٹھنا ہوتا ہے) ابن عباس کہتے ہیں: منی رینٹ ناک کے گاڑھے پانی کی طرح ہے، لہٰذا تم اسے اپنے سے صاف کر لو چاہے اذخر (گھاس) ہی سے ہو۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 117]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الوضوء 64 (229)، و65 (232)، صحیح مسلم/الطہارة 32 (289)، سنن ابی داود/ الطہارة 136 (373)، سنن النسائی/الطہارة 187 (296)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 81 (536)، (تحفة الأشراف: 16135)، مسند احمد (2/142، 235) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اس لیے کہ ان دونوں میں مطابقت واضح ہے، جو لوگ منی کی طہارت کے قائل ہیں وہ دھونے والی روایت کو استحباب پر محمول کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ یہ دھونا بطور وجوب نہیں تھا بلکہ بطور نظافت تھا، کیونکہ اگر دھونا واجب ہوتا تو خشک ہونے کی صورت میں بھی صرف کھرچنا کافی نہ ہوتا، حالانکہ عائشہ رضی الله عنہا نے صرف کھرچنے پر اکتفاء کیا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (536)

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 117 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 117  
اردو حاشہ:
1؎:
اس لیے کہ ان دونوں میں مطابقت واضح ہے،
جو لوگ منی کی طہارت کے قائل ہیں وہ دھونے والی روایت کو استحباب پر محمول کرتے ہیں،
ان کا کہنا ہے کہ یہ دھونا بطور وجوب نہیں تھا بلکہ بطورنظافت تھا،
کیونکہ اگر دھونا واجب ہوتا تو خشک ہونے کی صورت میں بھی صرف کھرچنا کافی نہ ہوتا،
حالانکہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے صرف کھرچنے پر اکتفاء کیا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 117