سلیمان بن عمرو بن احوص کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا کہ وہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے۔ آپ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی۔ اور (لوگوں کو) نصیحت کی اور انہیں سمجھایا۔ پھر راوی نے اس حدیث میں ایک قصہ کا ذکر کیا اس میں یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا: ”سنو! عورتوں کے ساتھ خیر خواہی کرو۔ اس لیے کہ وہ تمہارے پاس قیدی ہیں۔ تم اس (ہمبستری اور اپنی عصمت اور اپنے مال کی امانت وغیرہ) کے علاوہ اور کچھ اختیار نہیں رکھتے (اور جب وہ اپنا فرض ادا کرتی ہوں تو پھر ان کے ساتھ بدسلوکی کا جواز کیا ہے) ہاں اگر وہ کسی کھلی ہوئی بیحیائی کا ارتکاب کریں (تو پھر تمہیں انہیں سزا دینے کا ہے) پس اگر وہ ایسا کریں تو انہیں بستروں سے علاحدہ چھوڑ دو اور انہیں مارو لیکن اذیت ناک مار نہ ہو، اس کے بعد اگر وہ تمہاری مطیع ہو جائیں تو پھر انہیں سزا دینے کا کوئی اور بہانہ نہ تلاش کرو، سنو! جس طرح تمہارا تمہاری بیویوں پر حق ہے اسی طرح تم پر تمہاری بیویوں کا بھی حق ہے۔ تمہارا حق تمہاری بیویوں پر یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر ایسے لوگوں کو نہ روندنے دیں جنہیں تم ناپسند کرتے ہو، اور تمہارے گھر میں ایسے لوگوں کو آنے کی اجازت نہ دیں جنہیں تم اچھا نہیں سمجھتے۔ سنو! اور تم پر ان کا حق یہ ہے کہ تم ان کے لباس اور پہنے میں اچھا سلوک کرو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- «عوان عندكم» کا معنی ہے تمہارے ہاتھوں میں قیدی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الرضاع/حدیث: 1163]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «*تخريج: سنن ابن ماجہ/النکاح 3 (1851)، والمؤلف في تفسیر التوبة (3087) (تحفة الأشراف: 10691) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: یعنی طاقت کے مطابق یہ چیزیں احسن طریقے سے مہیا کرو۔
استوصوا بالنساء خيرا فإن ما هن عوان عندكم ليس تملكون منهن شيئا غير ذلك إلا أن يأتين بفاحشة مبينة فإن فعلن فاهجروهن في المضاجع واضربوهن ضربا غير مبرح فإن أطعنكم فلا تبغوا عليهن سبيلا ألا إن لكم على نسائكم حقا ولنسائكم عليكم حقا فأما حقكم على نسائكم فلا
استوصوا بالنساء خيرا فإن هن عندكم عوان ليس تملكون منهن شيئا غير ذلك إلا أن يأتين بفاحشة مبينة فإن فعلن فاهجروهن في المضاجع واضربوهن ضربا غير مبرح فإن أطعنكم فلا تبغوا عليهن سبيلا إن لكم من نسائكم حقا ولنسائكم عليكم حقا فأما حقكم على نسائكم فلا يوطئن فرشكم
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1851
´شوہر پر بیوی کے حقوق کا بیان۔` عمرو بن احوص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کی، پھر فرمایا: ”عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی میری وصیت قبول کرو، اس لیے کہ عورتیں تمہاری ماتحت ہیں، لہٰذا تم ان سے اس (جماع) کے علاوہ کسی اور چیز کے مالک نہیں ہو، الا یہ کہ وہ کھلی بدکاری کریں، اگر وہ ایسا کریں تو ان کو خواب گاہ سے جدا کر دو، ان کو مارو لیکن سخت مار نہ مارو، اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو پھر ان پر زیادتی کے لیے کوئی بہانہ نہ ڈھونڈو، تمہارا عورت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1851]
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) وصیت تاکیدی نصیحت کو کہتے ہیں جس پر عمل کرنا بہت ضروری سمجھا جاتا ہے۔ ”وصیت قبول کرو“ کا مطلب یہ ہے کہ میں تمہیں وصیت کرتا ہوں۔ بہت سے صحابہ کرام جو حجۃ الوداع میں حاضر تھے ان کے لیے ممکن ہے کہ نبی ﷺ سے ان کی وہ آخری ملاقات ہو کیونکہ اس سے تین ماہ بعد رسول اللہ ﷺ اس دار فانی سے کوچ فرما گئے۔ ان کے لیے یہ خطبہ واقعی آخری نصیحت (وصیت) بن گیا۔
(2) خطاب اگرچہ حجۃ الوداع میں حاضر ہونے والے صحابہ کرام سے فرمایا گیا تھا تاہم یہ حکم قیامت تک آنے والے تمام مومنوں کے لیے ہے۔
(3) مرد کو چاہیے کہ بیوی کے اخلاق و کردار کی نگرانی کرے تاہم بلاوجہ شکوک و شبہات میں مبتلا رہنا درست نہیں جب تک کوئی واضح مشکوک صورت سامنے نہ آئے۔
(4) واضح بے حیائی سے مراد ایسی حرکات ہیں جن پر روک ٹوک نہ کرنے سے بدکاری تک نوبت پہنچ سکتی ہے۔ زنا کا ارتکاب ہو جانے کی صورت میں دوسرے احکام ہیں جو قرآن و حدیث میں اپنے مقام پر مذکور ہیں۔
(5) بستروں میں الگ ہونے سے مراد ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے جنسی تعلقات منقطع کر لینا ہے۔ بعض علماء نے اس کی یہ صورت بیان فرمائی ہے کہ ایک ہی بستر پر ہوتے ہوئے عورت کی طرف پیٹھ کر کے لیٹ جائے تاکہ اس کا جذباتی ہیجان اسے معافی مانگنے اور اپنی اصلاح کرنے پر مجبور کر دے۔
(6) جب محسوس ہو کہ عورت اپنی غلطی پر پشیمان ہے اور اصلاح پر آمادہ ہے تو اس سے معمول کے تعلقات قائم کر لینے چاہییں اور بار بار گزشتہ غلطیوں کا طعنہ نہیں دینا چاہیے۔
(7) بعض اوقات صورتحال اس قدر خراب ہو جاتی ہے کہ جسمانی سزا ناگزیر ہو جاتی ہے لیکن یہ اصلاح کی کوشش کا آخری درجہ ہے جہاں تک ممکن ہو معاملات کو اس مرحلے پر نہیں پہنچنے دینا چاہیے۔
(8) اگر جسمانی سزا ضروری محسوس ہو تو اس میں بھی نرمی کا پہلو مدنظر ہونا چاہیے یعنی صرف اس حد تک سختی کی جائے یا سزا دی جائے جو تنبیہ کے لیے ضروری ہو اس سے زیادہ نہیں کیونکہ مقصود اصلاح ہے غصہ نکالنا یا بدلہ لینا نہیں۔
(9) مہمانوں کی تکریم ضروری ہے لیکن اگر کوئی ایسا شخص آتا ہے جسے خاوند اچھا نہیں سمجھتا تو عورت کو چاہیے کہ خاوند کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے اسے اجازت دینے سےمعذرت کر لے، یا کہہ دے کہ مرد گھر میں نہیں، پھر آ جائیے گا۔ ناپسندیدہ شخص کو بستر پر نہ بٹھانے کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ غیر مردوں سے ناجائز تعلقات استوار کرنے کی راہ ہموار نہ کی جائے۔ ان سے نرم لہجے میں ہنس ہنس کر بات کرنے کے بجائے سنجیدگی سے مختصر بات کر کے فارغ کر دیا جائے۔ امام خطابی فرماتے ہیں: ”اس کا مطلب یہ ہے کہ اجنبی مردوں کو گپ شپ کے لیے اپنے پاس گھر میں آنے کی اجازت نہ دیں، جیسے عرب میں یہ رواج تھا اور اسے عیب نہیں سمجھا جاتا تھا۔ پردے کا حکم نازل ہونے کے بعد اس سے منع کر دیا گیا۔“(حاشہ سنن ابن ماجہ از محمد فواد عبدالباقی) ہمارے ہاں دیہات میں، جہاں پردے کا اہتمام نہیں کیا جاتا اب بھی یہ صورت حال موجود ہے جو شرعی طور پر ممنوع ہے۔ بعض علماء نے فرمایا ہے کہ عورت اپنے محرم رشتہ داروں کو بھی خاوند کی اجازت کے بغیر گھر میں نہ آنے دے لیکن زیادہ صحیح یہ معلوم ہوتا ہے کہ خاوند کو ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ عورت کے محرم مردوں پر پابندی لگائے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے رضاعی چچا کو گھر میں آنے کی اجازت نہیں دی تھی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” وہ تمہارا چچا ہے، اسے آنے کی اجازت دو۔“(سنن ابن ماجة، حدیث: 1948) لباس اور خوراک کے بارے میں اچھا سلوک یہ ہے کہ اپنی حیثیت کے مطابق اچھا لباس اور مناسب خوراک مہیا کرے لیکن ایسے لباس سے منع کرنا چاہیے جو شریعت کی تعلیمات کے مطابق نہ ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1851