عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے کسی عورت سے نکاح کیا اور اس کے ساتھ دخول کیا تو اس کے لیے اس کی بیٹی سے نکاح کرنا درست نہیں ہے، اور اگر اس نے اس کے ساتھ دخول نہیں کیا ہے تو وہ اس کی بیٹی سے نکاح کر سکتا ہے، اور جس مرد نے کسی عورت سے نکاح کیا تو اس نے اس سے دخول کیا ہو یا نہ کیا ہو اس کے لیے اس کی ماں سے نکاح کرنا حلال نہیں ہو گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے، اسے صرف ابن لہیعہ اور مثنی بن صالح نے عمرو بن شعیب سے روایت کیا ہے۔ اور مثنی بن صالح اور ابن لہیعہ حدیث کے سلسلے میں ضعیف قرار دیے جاتے ہیں۔ ۲- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب آدمی کسی کی ماں سے شادی کر لے اور پھر اسے دخول سے پہلے طلاق دیدے تو اس کے لیے اس کی بیٹی سے نکاح جائز ہے، اور جب آدمی کسی کی بیٹی سے نکاح کرے اور اسے دخول سے پہلے طلاق دیدے تو اس کے لیے اس کی ماں سے نکاح جائز نہیں ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے «وأمهات نسائكم»(النساء: ۲۳)، یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب النكاح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1117]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 8733) (ضعیف) (مؤلف نے وجہ بیان کر سنن الدارمی/ ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (1879) // ضعيف الجامع الصغير (2242) //
قال الشيخ زبير على زئي: (1117) إسناده ضعيف ابن لھيعة عنعن (تقدم: 10، 714) والمثني ضعيف (تقدم:641)