الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ترمذي
كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
39. باب مَا جَاءَ فِي الْقِرَاءَةِ عَلَى الْجَنَازَةِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ
39. باب: نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1027
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْفٍ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ صَلَّى عَلَى جَنَازَةٍ فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ ". فَقُلْتُ لَهُ، فَقَالَ: " إِنَّهُ مِنَ السُّنَّةِ أَوْ مِنْ تَمَامِ السُّنَّةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، يَخْتَارُونَ أَنْ يُقْرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ بَعْدَ التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَا يُقْرَأُ فِي الصَّلَاةِ عَلَى الْجَنَازَةِ، إِنَّمَا هُوَ ثَنَاءٌ عَلَى اللَّهِ، وَالصَّلَاةُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالدُّعَاءُ لِلْمَيِّتِ، وَهُوَ قَوْلُ: الثَّوْرِيِّ، وَغَيْرِهِ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ، وَطَلْحَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْفٍ هُوَ: ابْنُ أَخِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، رَوَى عَنْهُ الزُّهْرِيُّ.
طلحہ بن عوف کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی الله عنہما نے ایک نماز جنازہ پڑھایا تو انہوں نے سورۃ فاتحہ پڑھی۔ میں نے ان سے (اس کے بارے میں) پوچھا تو انہوں نے کہا: یہ سنت ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- طلحہ بن عبداللہ بن عوف، عبدالرحمٰن بن عوف کے بھتیجے ہیں۔ ان سے زہری نے روایت کی ہے،
۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے یہ لوگ تکبیر اولیٰ کے بعد سورۃ فاتحہ پڑھنے کو پسند کرتے ہیں یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے،
۴- اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی جائے گی ۱؎ اس میں تو صرف اللہ کی ثنا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ (درود) اور میت کے لیے دعا ہوتی ہے۔ اہل کوفہ میں سے ثوری وغیرہ کا یہی قول ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1027]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الجنائز 65 (1335)، سنن ابی داود/ الجنائز 59 (3198)، سنن النسائی/الجنائز 77 (1989)، (تحفة الأشراف: 5764) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: ان لوگوں کا کہنا ہے کہ جن روایتوں سے پہلی تکبیر کے بعد سورۃ فاتحہ کا پڑھنا ثابت ہوتا ہے ان کی تاویل یہ کی جائیگی کہ یہ قرأت کی نیت سے نہیں بلکہ دعا کی نیت سے پڑھی گئی تھی لیکن یہ محض تاویل ہے جس پر کوئی دلیل نہیں۔ مبتدعین کی حرکات بھی عجیب وغریب ہوا کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے نماز جنازہ میں ثابت سورۃ فاتحہ نماز جنازہ میں نہیں پڑھیں گے اور رسم قُل، تیجا، ساتویں وغیرہ میں فاتحہ کا رٹہ لگائیں گے اور وہ بھی معلوم نہیں کون سی فاتحہ پڑھتے ہیں حقہ کے بغیر ان کے ہاں قبول ہی نہیں ہوتی۔ «فيا عجبا لهذه الخرافات»

قال الشيخ الألباني: صحيح أنظر ما قبله (1026)

   سنن النسائى الصغرىصليت خلف ابن عباس على جنازة فقرأ بفاتحة الكتاب وسورة وجهر حتى أسمعنا فلما فرغ أخذت بيده فسألته فقال سنة وحق
   سنن النسائى الصغرىصليت خلف ابن عباس على جنازة فسمعته يقرأ بفاتحة الكتاب فلما انصرف أخذت بيده فسألته فقلت تقرأ قال نعم إنه حق وسنة
   جامع الترمذيصلى على جنازة فقرأ بفاتحة الكتاب فقلت له فقال إنه من السنة أو من تمام السنة
   جامع الترمذيقرأ على الجنازة بفاتحة الكتاب
   سنن ابن ماجهقرأ على الجنازة بفاتحة الكتاب
   بلوغ المرامصليت خلف ابن عباس رضي الله عنهما على جنازة فقرا بفاتحة الكتاب قال: لتعلموا انها سنة
   سنن أبي داودصليت مع ابن عباس على جنازة، فقرا بفاتحة الكتاب، فقال: إنها من السنة
   صحيح البخاريصليت خلف ابن عباس رضي الله عنهما على جنازة، فقرا بفاتحة الكتاب , قال: ليعلموا انها سنة

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 1027 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1027  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ان لوگوں کاکہناہے کہ جن روایتوں سے پہلی تکبیرکے بعدسورۂ فاتحہ کاپڑھنا ثابت ہوتا ہے ان کی تاویل یہ کی جائیگی کہ یہ قرأت کی نیت سے نہیں بلکہ دعاکی نیت سے پڑھی گئی تھی لیکن یہ محض تاویل ہے جس پر کوئی دلیل نہیں۔
مبتدعین کی حرکات بھی عجیب وغریب ہواکرتی ہیں،
نبی اکرمﷺ اور صحابہ کرام سے صلاۃِ جنازہ میں ثابت سورۃ الفاتحہ صلاۃِ جنازہ میں نہیں پڑھیں گے اور رسم قُل،
تیجا،
ساتویں وغیرہ میں فاتحہ کا رٹہ لگائیں گے اور وہ بھی معلوم نہیں کون سی فاتحہ پڑھتے ہیں حقہ کے بغیر اُن کے ہاں قبول ہی نہیں ہوتی۔
فيا عجبا لهذه الخرافات۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1027   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 456  
´نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ اونچی آواز سے پڑھنا بھی جائز ہے`
سیدنا طلحہ بن عبداللہ بن عوف رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی۔ انہوں نے اس میں سورۃ «فاتحه» پڑھی اور فرمایا (میں نے اس لئے سورۃ «فاتحه» پڑھی ہے) تاکہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ یہ سنت ہے۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 456]
لغوی تشریح:
«لِتَعْلَمُو اَنَّها سُنَّةٌ» تاکہ تمہیں معلوم ہو کہ یہ طریقہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ماخوذ ہے۔ یہاں سنت سے وہ سنت مراد نہیں جو فرض کے مقابلے میں ہوتی ہے۔ یہ فقہائے کرام کی جدید اصطلاح ہے، لہٰذا یہ اس کے وجوب کے منافی نہیں۔

فائدہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سورہ فاتحہ بلند آواز سے پڑھی اور وجہ بھی بیان کر دی کہ تمہیں بتانے کے لیے میں نے ایسا کیا ہے کہ یہ مسنون ہے، گویا نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ اونچی آواز سے پڑھنا بھی جائز ہے۔

راوی حدیث:
[ طلحہ بن عبداللہ بن عوف رحمہ اللہ ] یہ (حضرت طلحہ بن عبداللہ بن عوف رحمہ اللہ) زہری قرشی مدنی تھے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف مشہور و معروف صحابی کے بھتیجے تھے۔ طلحہ ندی کے لقب سے مشہور تھے۔ ثقہ اور بڑے پائے کے فقیہ تھے۔ اوساط تابعین میں شمار کیے گئے ہیں۔ ۹۷ ہجری میں ۷۲ برس کی عمر میں پا کر فوت ہوئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 456   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1989  
´جنازے کی دعا کا بیان۔`
طلحہ بن عبداللہ بن عوف کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے جنازہ کی نماز پڑھی، تو انہوں نے سورۃ فاتحہ اور کوئی ایک سورت پڑھی، اور جہر کیا یہاں تک کہ آپ نے ہمیں سنا دیا، جب فارغ ہوئے تو میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور پوچھا: (یہ کیا؟) تو انہوں نے کہا: (یہی) سنت (نبی کا طریقہ) ہے، اور (یہی) حق ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1989]
1989۔ اردو حاشیہ: ثابت ہوا کہ جنازے می بھی قرأت ِ فاتحہ ضروری ہے۔ سنت سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقرر کردہ طریقہ ہے۔ یہاں سنت وجوب کے مقابلے میں نہیں جیسا کہ لفظ حق سے صاف ظاہر ہے۔ «لا صلاۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب» (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 756، و صحیح مسلم، الصلاۃ، حدیث: 394) کا عموم بھی قرأت ِ فاتحہ کو واجب کرتا ہے۔ جمہور اہل علم اسی کے قائل ہیں۔ احناف بلاوجہ قرأت کے مخالف ہیں۔ اس حدیث کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سورۂ فاتحہ اور دوسری سو رت قرأت کی نیت سے نہیں بلکہ دعا کی نیت سے پڑھی ہوں گی۔ مگر اس ہوں گی کی کوئی دلیل بھی تو ہونی چاہیے۔ آخر قرأت ِ فاتحہ سے مانع کیا ہے؟ کیا جنازے کا دعا ہونا قرأت کی ضد ہے؟ عام نمازوں میں بھی قرأت ِ فاتحہ ہوتی ہے، دعائیں بھی، یہ کون سا جمع بین النقیصین ہے؟
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1989   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3198  
´جنازے میں قرآت کا بیان۔`
طلحہ بن عبداللہ بن عوف کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھ ایک جنازہ کی نماز پڑھی تو انہوں نے سورۃ فاتحہ پڑھی اور کہا: یہ سنت میں سے ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3198]
فوائد ومسائل:

صحابی کا یہ کہنا کہ یہ سنت ہے۔
مرفوع حدیث کے معنی میں ہوتا ہے۔
اس کا کوئی تعلق صحابی کے قیاس یا اجتہاد سے نہیں ہوتا۔

پہلی تکبیرکے بعد قراءت فاتحہ ہونی چاہیے۔

اس حدیث میں جنازہ جہری آواز سے پڑھنے کی بھی دلیل ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3198   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1495  
´نماز جنازہ میں قرآت قرآن کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1495]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے۔
لیکن معناً ومتناً صحیح ہے۔
کیونکہ نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کے پڑھنے کی بابت صحیح بخاری میں حضرت طلحہ بن عبد اللہ بن عوف سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےساتھ ایک جنازہ پڑھا توانھوں نے سورۃ فاتحہ کی قراءت کی اور کہا یہ سنت ہے (صحیح البخاري، الجنائز، باب قراۃ فاتحة الکتاب علی الجنازۃ، حدیث: 1335)
اور صحابی کا یہ کہنا کہ یہ سنت ہے مرفوع حدیث کے معنی میں ہوتا ہے۔
اس کا صحابی کے قیاس اور اجتہاد سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
لہٰذا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول یہ سنت ہے سے معلوم ہوا کہ رسول اللہﷺ بھی نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھا کرتے تھے۔
جیسا کہ سنن نسائی کی روایت میں بھی موجود ہے۔
دیکھئے: (سنن نسائي، الجنائز، باب الدعاء، حدیث: 1991)
بنا بریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر احادیث کی روشنی میں قابل عمل اور قابل حجت ہے نیز آئندہ آنے والی حدیث سے بھی اسی مسئلے کا اثبات ہوتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1495   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1026  
´نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازے میں سورۃ فاتحہ پڑھی۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1026]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(اگلی اثر کی متابعت کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے،
ورنہ اس کے راوی ابراہیم بن عثمان ضعیف ہیں)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1026   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1335  
1335. حضرت طلحہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:میں نے حضرت ابن عباس ؓ کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی۔ اس میں آپ نے سورہ فاتحہ کی قرآءت فرمائی۔ فراغت کے بعد فرمایا (کہ میں نے اس لیے پڑھی ہے) تاکہ تمھیں اس کے سنت ہونے کاعلم ہوجائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1335]
حدیث حاشیہ:
جنازہ کی نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنی ایسی ہی واجب ہے جیسا کہ دوسری نمازوں میں کیونکہ حدیث:
«لاَ صَلاَةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ» ہر نماز کو شامل ہے۔
اس کی تفصیل حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث ؒ کے لفظوں میں یہ ہے۔
والحق والصواب أن قراءة الفاتحة في صلاة الجنازة واجبة، كما ذهب إليه الشافعي وأحمد وإسحاق وغيرهم؛ لأنهم أجمعوا على أنها صلاة، وقد ثبت حديث لا صلاة، إلا بفاتحة الكتاب، فهي داخلة تحت العموم، وإخراجها منه يحتاج إلى دليل، ولأنها صلاة يجب فيها القيام فوجبت فيها القراءة كسائر الصلوات، ولأنه ورد الأمر بقراءتها صريحاً، فقد روى ابن ماجه بإسناد فيه ضعف يسير عن أم شريك قالت:
أمرنا رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أن نقرأ على الجنازة بفاتحة الكتاب، وروى الطبراني في الكبير الكبير أيضاً من حديث أسماء بنت يزيد قالت:
قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -:
إذا صليتم على الجنازة فاقرؤا بفاتحة الكتاب. قال الهيثمي:
وفيه معلى بن حمران ولم أجد من ذكره، وبقية رجاله موثقون وفي بعضهم كلام، هذا وقد صنف حسن الشرنبلالي من متأخري الحنفية في هذه المسألة رسالة سماها "النظم المستطاب لحكم القراءة في صلاة الجنازة بأم الكتاب"، وحقق فيها أن القراءة أولى من ترك القراءة، ولا دليل على الكراهة، وهو الذي اختاره الشيخ عبد الحي اللكنوي في تصانيفه كعمدة الرعاية والتعليق الممجد وإمام الكلام، ثم إنه استدل بحديث ابن عباس على الجهر بالقراءة في الصلاة على الجنازة؛ لأنه يدل على أنه جهر بها حتى سمع ذلك من صلى معه. وأصرح من ذلك ما ذكرنا من رواية النسائي بلفظ:
صليت خلف ابن عباس على جنازة فقرأ بفاتحة الكتاب وسورة وجهر حتى أسمعنا، فلما فرغ أخذت بيده فسألته، فقال:
سنة وحق. وفي رواية أخرى له أيضا:
صليت خلف ابن عباس على جنازة فسمعته يقرأ فاتحة الكتاب الخ. ويدل على الجهر بالدعاء حديث عوف بن مالك الآتي، فإن الظاهر أنه حفظ الدعاء المذكور لما جهر به النبي - صلى الله عليه وسلم - في الصلاة على الجنازة. وأصرح منه حديث واثلة في الفصل الثاني. واختلف العلماء في ذلك، فذهب بعضهم إلى أنه يستحب الجهر بالقراءة والدعاء فيها. واستدلوا بالروايات التي ذكرناها آنفاً. وذهب الجمهور إلى أنه لا يندب الجهر بل يندب الإسرار. قال ابن قدامة:
ويسر القراءة والدعاء في صلاة الجنازة، لا نعلم بين أهل العلم فيه خلافاً-انتهى. واستدلوا لذلك بما ذكرنا من حديث أبي أمامة قال:
السنة في الصلاة على الجنازة أن يقرأ في التكبيرة الأولى بأم القرآن مخافتة. الحديث أخرجه النسائي، ومن طريقه ابن حزم في المحلى (ج5ص129)
. قال النووي في شرح المهذب:
رواه النسائي بإسناد على شرط الصحيحين، وقال:
أبوأمامة هذا صحابي-انتهى. وبما روى الشافعي في الأم (ج1ص239)
، والبيهقي (ج4ص39 من طريقه)
عن مطرف بن مازن عن معمر عن الزهري قال:
أخبرني أبوأمامة بن سهل أنه أخبره رجل من أصحاب النبي - صلى الله عليه وسلم - أن السنة في الصلاة على الجنازة أن يكبر الإمام، ثم يقرأ بفاتحة الكتاب بعد التكبيرة الأولى سراً في نفسه-الحديث. وضعفت هذه الرواية بمطرف، لكن قواها البيهقي بما رواه في المعرفة والسنن من طريق عبيد الله بن أبي زياد الرصافي عن الزهري بمعنى رواية مطرف، وبما روى الحاكم (ج1ص359)
، والبيهقي من طريقه (ج4ص42)
عن شرحبيل بن سعد قال:
حضرت عبد الله بن عباس صلى على جنازة بالأبواء فكبر ثم قرأ بأم القرآن رافعاً صوته بها، صلى على النبي - صلى الله عليه وسلم -، ثم قال:
اللهم عبدك وابن عبدك-الحديث. وفي آخره ثم انصرف, فقال:
يا أيها الناس إني لم أقرأ علناً (أي جهراً)
إلا لتعلموا أنها سنة. قال الحافظ في الفتح:
وشرحبيل مختلف في توثيقه-انتهى. وأخرج ابن الجارود في المنتقى من طريق زيد بن طلحة التيمي قال:
سمعت ابن عباس قرأ على جنازة فاتحة الكتاب وسورة وجهر بالقراءة، وقال:
إنما جهرت لأعلمكم أنها سنة. وذهب بعضهم إلى أنه يخير بين الجهر والإسرار. وقال بعضهم أصحاب الشافعي:
إنه يجهر بالليل كالليلية ويسر بالنهار. قال شيخنا في شرح الترمذي قول ابن عباس:
إنما جهرت لتعلموا أنها سنة، يدل على أن جهره كان للتعليم أي لا لبيان أن الجهر بالقراءة سنة، قال:
وأما قول بعض أصحاب الشافعي:
يجهر بالليل كالليلية فلم أقف على رواية تدل على هذا-انتهى. وهذا يدل على أن الشيخ مال إلى قول الجمهور أن الإسرار بالقراءة مندوب، هذا ورواية ابن عباس عند النسائي بلفظ:
فقرأ بفاتحة الكتاب وسورة، تدل على مشروعية قراءة سورة مع الفاتحة في الجنازة. قال الشوكاني:
لا محيص عن المصير إلى ذلك؛ لأنها زيادة خارجة من مخرج صحيح. قلت:
ويدل عليه أيضاً ما ذكره ابن حزم في المحلى (ج5ص129)
معلقاً عن محمد بن عمرو بن عطاء أن المسور بن مخرمة صلى على الجنازة، فقرأ في التكبيرة الأولى بفاتحة الكتاب وسورة قصيرة رفع بهما صوته فلما فرغ قال:
لا أجهل أن تكون هذه الصلاة عجماء ولكن أردت أن أعلمكم أن فيها قراءة.۔
(مرعاة المفاتیح، ج: 2ص: 478)
حضرت مولانا شیخ الحدیث عبیداللہ مبارک پوری ؒ کے اس طویل بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ جنازہ میں پڑھنی واجب ہے، جیسا کہ امام شافعی اور احمد اور اسحاق وغیر ہم کا مذہب ہے۔
ان سب کا اجماع ہے کہ سورۃ فاتحہ ہی نماز ہے اور حدیث میں موجود ہے کہ سورۃ فاتحہ پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
پس نماز جنازہ بھی اسی عموم کے تحت داخل ہے اور اسے اس عموم سے خارج کرنے کی کوئی صحیح دلیل نہیں ہے اور یہ بھی کہ جنازہ ایک نماز ہے جس میں قیام واجب ہے۔
پس دیگر نمازوں کی طرح اس میں بھی قرات واجب ہے اور اس لیے بھی کہ اس کی قرات کا صریح حکم موجود ہے۔
جیسا کہ ابن ماجہ میں ام شریک سے مروی ہے کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کا حکم فرمایا ہے۔
اگرچہ اس حدیث کی سند میں کچھ ضعف ہے مگر دیگر دلائل وشواہد کی بناپر اس سے استدلال درست ہے اور طبرانی میں بھی ام عفیف سے ایسا ہی مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں جمازہ کی نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کا حکم فرمایا اور امر وجوب کے لیے ہوتا ہے۔
طبرانی میں اسماء بنت یزید سے بھی ایسا ہی مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جب تم جنازہ پر نماز پڑھو تو سورۃ فاتحہ پڑھا کرو۔
متاخرین حنفیہ میں ایک مولانا حسن شرنبلانی مرحوم نے اس مسئلہ پر ایک رسالہ بنام النظم المستطاب لحکم القراءة في صلوٰة الجنازة بأم الکتاب لكھا ہے۔
جس میں ثابت کیا ہے کہ جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنا نہ پڑھنے سے بہتر ہے اور اس کی کراہیت پر کوئی دلیل نہیں ہے۔
ایسا ہی مولانا عبدالحی لکھنؤى ؒ نے اپنی تصانیف عمدۃ الرعایہ اور تعلیق الممجد اور امام الکلام وغیرہ میں لکھا ہے۔
پھر حدیث ابن عباس سے نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کے جہر پر دلیل پکڑی گئی ہے کہ وہ حدیث صاف دلیل ہے کہ انہوں نے اسے بالجہر پڑھا۔
یہاں تک کہ مقتدیوں نے اسے سنا اور اس سے بھی زیادہ صریح دلیل وہ ہے جسے نسائی نے روایت کیاہے۔
راوی کا بیان ہے کہ میں نے ایک جنازہ کی نماز حضرت ابن عباس ؓ کے پیچھے پڑھی۔
آپ نے سورۃ فاتحہ اور ایک سورۃ کو جہر کے ساتھ ہم کو سنا کر پڑھا۔
جب آپ فارغ ہوئے تو میں نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر یہ مسئلہ آپ سے پوچھا۔
آپ نے فرمایا کہ بے شک یہی سنت اور حق ہے اور جنازہ کی دعاؤں کو جہر سے پڑھنے پر عوف بن مالک کی حدیث دلیل ہے۔
جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے آپ کے بلند آواز سے پڑھنے پر سن سن کر ان دعاؤں کو حفظ ویاد کرلیا تھا اور اس سے بھی زیادہ صریح واثلہ کی حدیث ہے۔
اور علماءکا اس بارے میں اختلاف ہے۔
بعض نے روایات مذکورہ کی بناپر جہر کو مستحب مانا ہے، جیسا کہ ہم نے ابھی اس کا ذکر کیا ہے۔
جمہور نے آہستہ پڑھنے کو مستحب گردانا ہے۔
جمہور کی دلیل حدیث امامہ ہے جس میں آہستہ پڑھنے کو سنت بتایا گیا ہے۔
أخرجه النسائي۔
علامہ ابن حزم ؒ نے محلّٰی میں اور امام شافعی نے کتاب الام میں اور بیہقی وغیرہ نے بھی روایت کیا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے ایک صحابی نے فرمایا کہ نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ آہستہ پڑھی جائے۔
شرحبیل بن سعد کہتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے پیچھے ایک جنازہ میں بمقام ابواء شریک ہوا۔
آپ نے سورۃ فاتحہ اور درود اور دعاؤں کو بلند آواز سے پڑھا پھر فرمایا کہ میں جہر سے نہ پڑھتا مگر اس لیے پڑھا تاکہ تم جان لو کہ یہ سنت ہے۔
اور منتقی ابن جارود میں ہے کہ زید بن طلحہ تیمی نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے پیچھے ایک جنازہ کی نماز پڑھی جس میں انہوں نے سورۃ فاتحہ اور ایک سورت کو بلند آواز سے پڑھا اور بعد میں فرمایا کہ میں نے اس لیے جہر کیا ہے تاکہ تم کو سکھلاؤں کہ یہ سنت ہے۔
بعض علماءکہتے ہیں کہ جہر اور سرہردو کے لیے اختیار ہے۔
بعض شافعی حضرات نے کہا کہ رات کو جنازہ میں جہر اور دن میں سر کے ساتھ پڑھا جائے۔
ہمارے شیخ مولانا عبدالرحمن مبارک پوری ؒ قول جمہور کی طرف ہیں اور فرماتے ہیں کہ قرات آہستہ ہی مستحب ہے اور نسائی والی روایات عبداللہ بن عباس ؓ میں دلیل ہے کہ جنازہ میں سورۃ فاتحہ مع ایک سورۃ کے پڑھنا مشروع ہے۔
مسور بن مخرمہ نے ایک جنازہ میں پہلی تکبیر میں سورۃ فاتحہ اور ایک مختصر سی سورت پڑھی۔
پھر فرمایا کہ میں نے قرات جہر سے اس لیے کی ہے کہ تم جان لو کہ اس نماز میں بھی قرات ہے اور یہ نماز گونگی (بغیر قراءت والی)
نہیں ہے۔
انتهی مختصرا خلاصته المرام۔
یہ کہ جنازہ میں سورہ فاتحہ مع ایک سورۃ کے پڑھنا ضروری ہے۔
حضرت قاضی ثناءاللہ پانی پتی حنفی ؒ نے اپنی مشہور کتاب مالا بدمنه میں اپنا وصیت نامہ بھی درج فرمایا ہے۔
جس میں آپ فرماتے ہیں کہ میرا جنازہ وہ شخص پڑھائے جو اس میں سورہ فاتحہ پڑھے۔
پس ثابت ہوا کہ جملہ اہل حق کا یہی مختار مسلک ہے۔
علمائے احناف کا فتوی! فاضل محترم صاحب تفہیم البخاری نے اس موقع پر فرمایا ہے کہ حنفیہ کے نزدیک بھی نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنی جائز ہے۔
جب دوسری دعاؤں سے اس میں جامعیت بھی زیادہ ہے تو اس کے پڑھنے میں حرج کیا ہوسکتا ہے۔
البتہ دعا اور ثناءکی نیت سے اسے پڑھنا چاہئے قرات کی نیت سے نہیں۔
(تفہیم البخاری‘ پ5 ص: 122)
فاضل موصوف نے آخر میں جو کچھ ارشاد فرمایا ہے وہ صحیح نہیں، جب کہ سابقہ روایات مذکورہ میں اسے قرات کے طور پر پڑھنا ثابت ہے۔
پس اس فرق کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔
بہر حال خدا کرے ہمارے محترم حنفی بھائی جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنی شروع فرمادیں، یہ بھی ایک نیک اقدام ہوگا۔
روایات بالا میں حضرت ابن عباس ؓ وغیرہ نے جو یہ فرمایا کہ یہ سنت اور حق ہے اس کی وضاحت حضرت مولانا شیخ الحدیث مدظلہ العالی ؒ نے یوں فرمائی ہے۔
والمراد بالسنة:
الطريقة المألوفة عنه - صلى الله عليه وسلم - لا ما يقابل الفريضة، فإنه اصطلاح عرفي حادث. قال الأشرف:
الضمير المؤنث لقراءة الفاتحة، وليس المراد بالسنة أنها ليست بواجبة بل ما يقابل البدعة، أي أنها طريقة مروية. وقال القسطلاني:
إنها أي قراءة الفاتحة في الجنازة سنة. أي طريقة للشارع، فلا ينافي كونها واجبة. وقد علم أن قول الصحابي:
من السنة كذا، حديث مرفوع عند الأكثر. قال الشافعي في الأم:
وأصحاب النبي - صلى الله عليه وسلم - لا يقولون:
السنة إلا لسنة رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إن شاء الله تعالى-انتهى. (مرعاة المفاتیح، ص: 477)
یعنی یہاں لفظ سنت سے طریقہ مالوفہ نبی کریم ﷺ مراد ہے نہ وہ سنت جو فرض کے مقابلہ پر ہوتی ہے۔
یہ ایک عرفی اصطلاح استعمال کی گئی ہے یہ مراد نہیں کہ یہ واجب نہیں ہے بلکہ وہ سنت مراد ہے جو بدعت کے مقابلہ پر بولی جاتی ہے۔
یعنی یہ طریقہ مرویہ ہے اور قسطلانی نے کہا کہ جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنی سنت ہے یعنی شارع کا طریقہ ہے اور یہ واجب ہونے کے منافی نہیں ہے۔
امام شافعی ؒ نے کتاب الام میں فرمایا ہے کہ صحابہ کرام لفظ سنت کا استعمال سنت یعنی طریقہ رسول اللہ ﷺ پر کرتے تھے۔
اقوال صحابہ میں حدیث مرفوع پر بھی سنت کا لفظ بولا گیا ہے۔
بہرحال یہاں سنت سے مراد یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ نماز میں پڑھنا طریقہ نبوی ہے اور یہ واجب ہے کہ اس کے پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی جیسا کہ تفصیل بالا میں بیان کیا گیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1335   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1335  
1335. حضرت طلحہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:میں نے حضرت ابن عباس ؓ کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی۔ اس میں آپ نے سورہ فاتحہ کی قرآءت فرمائی۔ فراغت کے بعد فرمایا (کہ میں نے اس لیے پڑھی ہے) تاکہ تمھیں اس کے سنت ہونے کاعلم ہوجائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1335]
حدیث حاشیہ:
(1)
چونکہ جنازہ بھی ایک نماز ہے، جیسا کہ باب: 56 میں اس کی وضاحت ہو چکی ہے، اس لیے دیگر نمازوں کی طرح اس میں بھی سورہ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے۔
جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جس شخص نے سورہ فاتحہ نہ پڑھی اس کی کوئی نماز نہیں۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 756)
پھر مذکورہ حدیث میں اس کی صراحت ہے کہ نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنا رسول اللہ ﷺ کا طریقہ ہے۔
سنن نسائی میں یہ الفاظ ہیں کہ حضرت ابن عباس ؓ نے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کے ساتھ مزید ایک سورت بھی پڑھی اور اونچی آواز سے قراءت کی، جب فارغ ہوئے تو فرمایا کہ یہ سنت اور حق ہے۔
(سنن النسائي، الجنائز، حدیث: 1989)
اس روایت میں یہ بھی صراحت ہے کہ سورہ فاتحہ پہلی تکبیر کے بعد پڑھی جائے۔
(2)
اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز جنازہ بآواز بلند پڑھنی جائز ہے۔
اس موقف کی تائید حضرت عوف بن مالک ؓ سے مروی ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے، آپ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز جنازہ پڑھائی تو ہم نے آپ کی پڑھی ہوئی دعا یاد کر لی۔
(مسند أحمد: 23/6)
نماز جنازہ آہستہ آواز سے بھی پڑھی جا سکتی ہے۔
جیسا کہ حضرت ابو امامہ بن سہل ؓ فرماتے ہیں:
نماز جنازہ میں سنت یہ ہے کہ پہلی تکبیر کے بعد سورہ فاتحہ آہستہ پڑھی جائے، پھر تین تکبیریں کہی جائیں اور آخری تکبیر کے ساتھ سلام پھیر دیا جائے۔
(سنن النسائي، الجنائز، حدیث: 1991)
جمہور اہل علم کا یہ موقف ہے کہ نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنی چاہیے، البتہ امام مالک اور اہل کوفہ کا موقف ہے کہ نماز جنازہ میں کوئی قراءت نہیں، البتہ احناف نے سورہ فاتحہ بطور دعا پڑھنے کو مشروع قرار دیا ہے۔
(4)
ایک حدیث میں نماز جنازہ کا مکمل طریقہ بایں الفاظ بیان ہوا ہے:
نماز جنازہ میں سنت طریقہ یہ ہے کہ امام تکبیر کہے، پھر سورہ فاتحہ پڑھے، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ پر درود پڑھا جائے، اس کے بعد خلوص نیت سے تیسری تکبیر کے بعد میت کے لیے دعا کرے۔
(المستدرك للحاکم: 1/360)
چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیر دیا جائے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1335   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، سنن نسائی 1989  
نماز جنازہ میں سورۂ فاتحہ پڑھنا
نماز جنازہ میں سورۂ فاتحہ پڑھنا سنت ہے۔ [صحيح بخاري ج1 ص178 ح1335]
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور اس حدیث میں سورۂ فاتحہ کے بعد ایک سورت پڑھنے کا بھی ذکر ہے۔ [سنن النسائي ج1 ص281 ح1989، وسنده صحيح، المنتقي لابن الجارود: 534، 536]
جنازہ سراً بھی جائز ہے۔ [منتقي ابن الجارود: 504]
اور جہراً بھی جائز ہے۔ [سنن النسائي: 1989]
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف منسو ب ایک روایت میں آیا ہے کہ ہمارے لئے جنازہ میں نہ کوئی قرأت مقرر کی گئی ہے اور نہ کوئی خاص کلام مقرر کیا گیا ہے۔ صاحمد؟ بحوالہ [مجمع الزوائد ج3 ص32]
یہ روایت مسند احمد میں نہیں ملی لہٰذا بے سند ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔ اس طرح کی ایک روایت عبداللہ بن احمد بن حنبل سے مروی ہے۔ [المعجم الكبير للطبراني 373/9 ح9604]
اس کی سند شریک القاضی (مدلس) کے عن کی وجہ سے ضعیف ہے۔
ایک روایت المعجم الکبیر [373/9 ح9606]، الثقات لابن حبان [259/9] میں شریک مدلس کے علاوہ جابر (الجعفی) سخت ضعیف ہے۔
نیز دیکھئے: [العلل للدارقطني 262/5 س867]
خلاصہ یہ کہ یہ روایت غیر ثابت اور مردود ہے۔
ظہور احمد نے چہل حدیث کے آخری صفحے پر اس سلسلے میں ضعیف و غیر ثابت آثار بھی نقل کئے ہیں، جن کی علمی میدان میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔
تفصیل کے لئے دیکھئے [هدية المسلمين ص89۔ 90 ح40]
۔۔۔ اصل مضمون دیکھیں۔۔۔
فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام) ج2 ص77
   فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)، حدیث/صفحہ نمبر: 77