نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر پڑھائی، اس میں آپ نے سورۃ الروم کی تلاوت فرمائی، تو آپ کو شک ہو گیا، جب نماز پڑھ چکے تو آپ نے فرمایا: ”لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ ہمارے ساتھ نماز پڑھتے ہیں، اور ٹھیک سے طہارت حاصل نہیں کرتے، یہی لوگ ہمیں قرآت میں شک میں ڈال دیتے ہیں“۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 948]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 948
948 ۔ اردو حاشیہ: ➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صبح کی نماز میں قرأت لمبی کرنی چاہیے جس طرح کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم سے صبح کی نماز میں سورۂ مومنون، سورۂ یوسف، سورۂ یونس اور سورۂ کہف وغیرہ پڑھنا ثابت ہے۔ ➋ ظاہری کوتاہیوں کا اثر باطن پر بھی ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت بہت اعلیٰ اور لطیف تھی۔ ہلکی سی آلائش بھی آپ کو محسوس ہوتی تھی۔ نماز باجماعت میں امام کا روحانی اثر مقتدیوں پر اور مقتدیوں کا روحانی اثر امام پر اور آپس میں ایک دوسرے پر پڑتا ہے اور واضح طور پر محسوس ہوتا ہے۔ ➌ وضو مکمل اور اطمینان سے کرنا چاہیے۔ اگر وضو ناقص ہو تو اس کا اثر نمازپر پڑتا ہے۔ اگر کوئی جگہ خشک رہ جائے تو نماز نہیں ہوتی حتیٰ کہ ایک ناخن کے برابر بھی جگہ خشک رہ جائے تو اس پر بھی سخت وعید ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 948