ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز پڑھ چکتے تو بنی عبدالاشہل کے لوگوں میں جاتے اور ان سے گفتگو کرتے یہاں تک کہ مغرب کی نماز کے لیے اترتے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی نماز کے لیے تیزی سے جا رہے تھے کہ ہم بقیع سے گزرے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”افسوس ہے تم پر، افسوس ہے تم پر“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات مجھے گراں لگی، اور یہ سمجھ کر کہ آپ مجھ سے مخاطب ہیں، میں پیچھے ہٹ گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں کیا ہوا؟ چلو“، تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا کوئی بات ہو گئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”وہ کیا؟“، تو میں نے عرض کیا: آپ نے مجھ پر اف کہا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں! (تم پر نہیں) البتہ اس شخص پر (اظہار اف) کیا ہے جسے میں نے فلاں قبیلے میں صدقہ وصول کرنے کے لیے بھیجا تھا، تو اس نے ایک دھاری دار چادر چرا لی ہے ؛ چنانچہ اب اسے ویسی ہی آگ کی چادر پہنا دی گئی ہے“۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 863]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 863
863 ۔ اردو حاشیہ: ➊ اگر وقت تنگ ہو یا جماعت کھڑی ہو چکی ہو تو نما زکے لیے ایسی تیزی سے چلا جا سکتا ہے جس سے مسجدونماز کی توہین ہو نہ انسانی وقار ہی کے خلاف ہو۔ ➋ فوت شدہ کو تصور میں حاضر کر کے اظہار افسوس و ملامت کے لیے اس سے خطاب کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح سلام و دعا میں اس سے خطاب کیا جا سکتا ہے، جیسے السلام علیکم یا اھل القبور وغیرہ، دعا ہے، بشرطیکہ میت کو حقیقتاً حاضر ناظر نہ سمجھے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 863