الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن نسائي
كتاب الإمامة
کتاب: امامت کے احکام و مسائل
16. بَابُ : الاِئْتِمَامِ بِالإِمَامِ
16. باب: امام کی اقتداء (پیروی) کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 795
أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَقَطَ مِنْ فَرَسٍ عَلَى شِقِّهِ الْأَيْمَنِ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ يَعُودُونَهُ فَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَلَمَّا قَضَى الصَّلَاةَ قَالَ:" إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَإِذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ".
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے سے اپنے داہنے پہلو پر گر پڑے، تو لوگ آپ کی عیادت کرنے آئے، اور نماز کا وقت آپ پہنچا، جب آپ نے نماز پوری کر لی تو فرمایا: امام بنایا ہی اس لیے گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ، اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو، اور جب وہ «سمع اللہ لمن حمده» کہے تو تم «ربنا لك الحمد» کہو۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 795]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الصلاة 18 (378)، والأذان 51 (689)، 82 (732)، 128 (805) مطولاً، تقصیر الصلاة 17 (1114)، صحیح مسلم/الصلاة 19 (411)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/إقامة 144 (1238)، (تحفة الأشراف: 1485)، موطا امام مالک/الجماعة 5 (16)، مسند احمد 3/110، 162، سنن الدارمی/الصلاة 44 (1291)، ویأتی عند المؤلف برقم: 1062 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاريالإمام ليؤتم به فإذا صلى قائما فصلوا قياما وإذا ركع فاركعوا وإذا رفع فارفعوا وإذا سجد فاسجدوا وإذا قال سمع الله لمن حمده فقولوا ربنا ولك الحمد
   صحيح البخاريالإمام ليؤتم به فإذا كبر فكبروا
   صحيح البخاريالإمام ليؤتم به فإذا كبر فكبروا وإذا ركع
   صحيح البخاريالإمام ليؤتم به فإذا كبر فكبروا وإذا ركع فاركعوا وإذا سجد فاسجدوا وإن صلى قائما فصلوا قياما ونزل لتسع وعشرين فقالوا يا رسول الله إنك آليت شهرا الشهر تسع وعشرون
   صحيح البخاريالإمام ليؤتم به فإذا صلى قائما فصلوا قياما فإذا ركع فاركعوا وإذا رفع فارفعوا وإذا قال سمع الله لمن حمده فقولوا ربنا ولك الحمد وإذا صلى قائما فصلوا قياما وإذا صلى جالسا فصلوا جلوسا أجمعون
   صحيح البخاريجعل الإمام ليؤتم به فإذا كبر فكبروا وإذا ركع فاركعوا وإذا رفع فارفعوا وإذا قال سمع الله لمن حمده فقولوا ربنا ولك الحمد
   صحيح مسلمالإمام ليؤتم به فإذا كبر فكبروا وإذا سجد فاسجدوا وإذا رفع فارفعوا وإذا قال سمع الله لمن حمده فقولوا ربنا ولك الحمد وإذا صلى قاعدا فصلوا قعودا أجمعون
   جامع الترمذيالإمام ليؤتم به فإذا كبر فكبروا وإذا ركع فاركعوا وإذا رفع فارفعوا وإذا قال سمع الله لمن حمده فقولوا ربنا ولك الحمد وإذا سجد فاسجدوا وإذا صلى قاعدا فصلوا قعودا أجمعون
   سنن أبي داودالإمام ليؤتم به فإذا صلى قائما فصلوا قياما وإذا ركع فاركعوا وإذا رفع فارفعوا وإذا قال سمع الله لمن حمده فقولوا ربنا ولك الحمد وإذا صلى جالسا فصلوا جلوسا أجمعون
   سنن النسائى الصغرىالإمام ليؤتم به فإذا ركع فاركعوا وإذا رفع فارفعوا وإذا قال سمع الله لمن حمده فقولوا ربنا ولك الحمد
   سنن النسائى الصغرىالإمام ليؤتم به فإذا صلى قائما فصلوا قياما وإذا ركع فاركعوا وإذا قال سمع الله لمن حمده فقولوا ربنا لك الحمد وإذا صلى جالسا فصلوا جلوسا أجمعون
   سنن النسائى الصغرىالإمام ليؤتم به فإذا ركع فاركعوا وإذا رفع فارفعوا وإذا سجد فاسجدوا وإذا قال سمع الله لمن حمده فقولوا ربنا لك الحمد
   سنن ابن ماجهالإمام ليؤتم به فإذا كبر فكبروا وإذا ركع فاركعوا وإذا قال سمع الله لمن حمده فقولوا ربنا ولك الحمد وإذا سجد فاسجدوا وإذا صلى قاعدا فصلوا قعودا أجمعين
   موطا امام مالك رواية ابن القاسمركب فرسا فصرع عنه فجحش شقه الايمن فصلى صلاة من الصلوات وهو قاعد وصلينا وراءه قعودا فلما انصرف قال: إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا صلى قائما فصلوا قياما وإذا ركع فاركعوا وإذا رفع فارفعوا وإذا قال سمع الله لمن حمده فقولوا ربنا ولك الحمد. وإذا صلى جالسا فصلوا جلوسا اجمعون
   مسندالحميدي

سنن نسائی کی حدیث نمبر 795 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 795  
795 ۔ اردو حاشیہ: اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ارکان کی ادائیگی میں امامت سے سبقت کرنا تو ناجائز ہے لیکن برابری جائز ہے یعنی امام کے ساتھ ساتھ چلنے میں قباحت نہیں۔ یہ ایک احتمال ہے جو درست نہیں۔ جس طرح امام سے سبقت ناجائز ہے اسی طرح اس کی برابری بھی ممنوع ہے۔ اس کی دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ولا تركَعوا حتّى يركعَ……… ولا تسجُدوا حتّى يسجُدَ………» رکوع نہ کرو جب تک امام رکوع نہ کرے ……… اور نہ سجدہ کرو جب تک وہ سجدہ نہ کرے ……… [سنن أبى داود الصلاة حديث: 603]
یہ اس بات کی بین دلیل ہے کہ امام سے نہ سبقت جائز ہے اور نہ اس کی برابری۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 795   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 88  
´نماز کے بعد کتاب و سنت کی تعلیم دینا `
«مالك عن ابن شهاب عن أنس بن مالك: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ركب فرسا فصرع عنه فجحش شقه الأيمن فصلى صلاة من الصلوات وهو قاعد وصلينا وراءه قعودا فلما انصرف قال: إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا صلى قائما فصلوا قياما وإذا ركع فاركعوا وإذا رفع فارفعوا وإذا قال سمع الله لمن حمده فقولوا ربنا ولك الحمد. وإذا صلى جالسا فصلوا جلوسا أجمعون.»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھوڑے پر سوار ہوئے تو اس سے گر گئے پس آپ کا دایاں پہلو چھل گیا۔ پھر آپ نے نمازوں میں سے ایک نماز بیٹھ کر پڑھائی اور ہم نے آپ کے پیچھے (وہ) نماز بیٹھ کر پڑھی۔ جب آپ (فارغ ہو کر ہماری طرف) پھرے تو فرمایا: امام اس لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے۔ جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو اور جب وہ رکوع کرے تو تم رکوع کرو۔ جب وہ (رکوع سے) اٹھ جائے تو تم (بھی) اٹھ جاؤ۔ جب وہ «سمع الله لمن حمده» کہے تو تم «ربنا ولك الحمد» کہو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم سب بیٹھ کر نماز پڑھو۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 88]
تخریج الحدیث:
[الموطأ رواية يحييٰ بن يحييٰ 135/1، ح 302، كتاب 8 باب 5 حديث 16، التمهيد 129/6، الاستذكار: 273، أخرجه البخاري 689، أخرجه مسلم 411/79، من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشکل کشا نہیں۔۔۔
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب نہیں۔۔۔
➌ رکوع و سجود اور نماز کے ظاہری افعال میں امام کی اقتدأ کرنا چاہئے إلا یہ کہ تخصیص کی واضح دلیل ہو مثلاً مسبوق کے لئے امام کا سلام پھیرنا واجب الاقتدأ نہیں ہے۔
➎ نماز کے بعد کتاب و سنت کی تعلیم دینا مسنون ہے۔
➎ اگر شرعی عذر نہ ہو تو نماز کھڑے ہو کر پڑھنا ضروری ہے۔
➏ جب امام کسی عذر کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھے تو مقتدیوں کو بیٹھ کر نماز پڑھنی چاہئے۔ بعض علماء اس حدیث کو منسوخ سمجھتے ہیں لیکن دوسرے علماء اسے منسوخ نہیں سمجھتے۔
◈ سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ اس حدیث کے راوی ہیں کہ جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بیٹھ کر نماز پڑھو۔ [صحيح مسلم: 413 ترقيم دارالسلام: 928]
◈ ایک دفعہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے بیماری کی وجہ سے بٹھ کر نماز پڑھائی اور لوگوں نے اپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ دیکھئے: [مصنف ابن ابي شيبه 326/1 ح 7173 وسنده صحيح، و صححه ابن حجر فى فتح الباري 76/2 تحت ح 689] اس سے معلوم ہوا کہ منسوخ ہونے کا دعویٰ صحیح نہیں ہے۔
◈ سیدنا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے بیماری میں بیٹھ کر نماز پڑھی اور مقتدیوں کو حکم دیا کہ بیٹھ کر نماز پڑھو تو انہوں نے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ دیکھئے: [الاوسط لا بن المنذر 206/4، اثر: 4045 وسنده صحيح و صححه الحافظ ابن حجر فى فتح الباري 176/2]
◈ عبدالرزاق بن ہمام الصنعانی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میں نے لوگوں کو اسی پر پایا ہے کہ اگر امام بیٹھ کر نماز پڑھتا تو وہ بیٹھ کر نماز پڑھتے۔ [مصنف عبدالرزاق 443/2 ح 4089]
◈ احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ کے نزدیک اگر امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو لوگ اس کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھیں گے۔ دیکھئے: [مسائل الامام أحمد بن حنبل و اسحاق بن راهويه، روايته اسحاق بن منصور الكوسج: 348، سنن الترمذي: 361]
◈ اہل الحدیث کے ایک گروہ کا یہی قول ہے۔ [الاعتبار فى بيان الناسخ و المنسوخ من الآثار للحازمي ص 111]
➐ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرض وفات والی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر ایک امام کھڑے ہوکر نماز پڑھائے اور لوگ کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہے ہوں تو پھر پہلا امام آ جائے اور بیٹھ کر نماز پڑھائے تو لوگ کھڑے ہو کر ہی نماز پڑھیں گے۔ اس خاص جزیئے سے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کا منسوخ ہونا ثابت نہیں ہوتا۔
➑ راجح یہی ہے کہ امام، مقتدی اور منفرد سب «سمع الله لمن حمده ربنا والك الحمد» پڑھیں۔ محمد بن سیرین رحمہ اللہ اس کے قائل تھے کہ مقتدی بھی «سمع الله لمن حمده» کہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن ابي شيبه 253/1 ح 2600 وسنده صحيح]
◈ امام ابن سیرین کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إذ قال الإمام: سمع الله لمن حمده، فليقل من وراءه: سمع الله لمن حمده» جب امام «سمع الله لمن حمده» کہے تو اس کے مقتدی کو بھی «سمع الله لمنن حمده» کہنا چاہئے [سنن الدراقطني 339/1 ح 1270، وسنده حسن لذاته] ۔ یہ روایت موقوفاً بھی حسن ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 1   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 833  
´امام بیٹھ کر نماز پڑھتا ہو تو مقتدی بھی بیٹھ کر نماز پڑھیں۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھوڑے پر سوار ہوئے تو آپ اس سے گر گئے اور آپ کے داہنے پہلو میں خراش آ گئی، تو آپ نے کچھ نمازیں بیٹھ کر پڑھیں، ہم نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی، جب آپ سلام پھیر کر پلٹے تو فرمایا: امام بنایا ہی اس لیے گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، تو جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر پڑھو، اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، اور جب وہ «سمع اللہ لمن حمده» کہے تو تم «ربنا لك الحمد» کہو، اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم سب بھی بیٹھ کر پڑھو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 833]
833 ۔ اردو حاشیہ:
➊ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بیٹھ کر نماز شروع فرمائی تو صحابہ کھڑے تھے پھر نماز میں آپ نے بیٹھنے کا اشارہ فرمایا تو وہ بھی بیٹھ گئے۔ [صحیح مسلم الصلاة حدیث: 412]
➋ تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔ اہل ظاہر نے ان الفاظ سے استدلال کرتے ہوئے جالس امام کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھنے کو واجب کہا ہے جب کہ اہل علم نے اس روایت کو اس روایت سے منسوخ قرار دیا ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تھے جب کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کی دائیں جانب کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے اور لوگ پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے کیونکہ وہ مجمع عام میں آپ کی آخری نماز ہے۔ بعد والی روایت پہلی روایت کے لیے ناسخ ہے مگر اس میں اشکال ہے کہ بعد والی روایت فعلی ہے جب کہ پہلی روایت قولی ہے۔ قول و فعل کے تعارض کے وقت قول کو ترجیح دی جاتی ہے مگر پہلی روایت سے چونکہ بیٹھنے کا وجوب ثابت ہوتا ہے اور دوسری روایت سے بیٹھ کر نماز پڑھانے والے امام کے پیچھے کھڑے رہنے کا جواز ثابت ہوتا ہے اس لیے یہ فعل وجوب کا بہرحال ناسخ ہے البتہ امام احمد رحمہ اللہ اور بعض دیگر محدثین نے ان دونوں روایات میں یہ تطبیق دی ہے کہ اگر نماز کی ابتدا بیٹھنے سے ہوئی تو پھر مقتدیوں کو قولی روایت کے مطابق بیٹھ کر ہی نماز پڑھنی چاہیے لیکن اگر درمیان میں امام بیٹھے ابتدا کھڑے ہونے سے ہوئی ہو تو مقتدی کھڑے ہو کر نماز پڑھیں۔ اس طرح دونوں روایات پر مل ہو جائے گا۔ یوں بھی تطبیق دی گئی ہے کہ پہلی روایت کے امر «فصلوا جلوسا» کو استحباب پر محمول کر لیا جائے یعنی بیٹھے امام کے پیچھے بہتر ہے کہ مقتدی بیٹھ کر نماز پڑھیں لیکن اگر کھڑے ہو کر بھی پڑھ لیں تو جائز ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کسی روایت کو منسوخ کہنے کی بجائے یہ تطیق مناسب ہے تاکہ کوئی روایت عمل سے خالی نہ رہے۔ بہرحال امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ کی توجیہ و تطبیق راجح معلوم ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔
➌ بعض لوگوں نے آخری جملے کے معنیٰ یہ کیے ہیں کہ جب امام قعدے کے لیے بیٹھے تو تم بھی بیٹھو۔ مگر یہ بات اپنی جگہ صحیح ہونے کے باوجود اس جملے کا صحیح مفہوم نہیں کیونکہ نماز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ فرما کر مقتدیوں کو بٹھانا اس کے خلاف ہے۔ دیکھیے: [صحیح مسلم الصلاة حدیث: 412]

   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 833   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1062  
´مقتدی جب رکوع سے سر اٹھائے تو کیا کہے؟`
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے سے اپنے داہنے پہلو پر گر پڑے، تو لوگ آپ کی عیادت کرنے آپ کے پاس آئے کہ (اسی دوران) نماز کا وقت ہو گیا، (تو آپ نے انہیں نماز پڑھائی) جب آپ نے نماز پوری کر لی تو فرمایا: امام بنایا ہی اس لیے گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، تو جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ، اور جب وہ «سمع اللہ لمن حمده» کہے، تو تم «ربنا ولك الحمد» کہو ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1062]
1062۔ اردو حاشیہ:
➊ جمہور اہل علم نے اس سے استدلال کیا ہے کہ مقتدی صرف «رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» کہے۔ امام شافعی کا خیال ہے کہ مقتدی کو «سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» بھی کہنا چاہیے تاکہ امام کی اقتدا ہو جائے، پھر «رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» کہے۔ بظاہر یہی موقف راجح ہے کیونکہ مذکورہ حدیث میں «سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» پڑھنے کی نفی نہیں۔ بلکہ اس میں تو «رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» کے محل کا تعین ہے۔ مقصد یہ ہے کہ مقتدی امام کے سمع اللہ کے ساتھ یا اس سے قبل یہ کلمات نہ کہے بلکہ اس کے بعد کہے۔ اب رہا یہ مسئلہ کہ آیا مقتدی بھی «سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کے گا یا نہیں؟ اس حوالے سے اس حدیث میں کوئی صراحت نہیں بلکہ مقتدی کے لیے ان کلمات کی مشروعیت دوسری احادیث کے عموم سے اخذ ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے «صلُّوا كما رأيتُموني أصلِّي» نماز اسی طریقے سے پڑھو جیسے تم نے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیئی الصلاۃ (نماز کو جلدی جلدی اور غلط طریقے سے پڑھنے والے) سے مخاطب ہو کر فرمایا: «إنه لا تتمُّ صلاةٌ لأحدٍ من الناسِ حتّى يتوضأ ……… ثمَّ يقولُ: سمِع اللهُ لمن حمِدَهُ، حتّى يستويَ قائمًا……» حقیقت یہ ہے کہ لوگوں میں سے کسی ایک کی بھی نماز اس وقت تک ممکن نہیں ہوتی جب تک کہ وہ اچھی طرح وضو نہ کرے ……، پھر سمع اللہ لمن حمدہ نہ کہے، یہاں تک کہ برابر اور اعتدال کے ساتھ کھڑا ہو جائے ……… [سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 857، و صفة الصلاة، ص: 118] اس حدیث کی رو سے امام اور مقتدی وغیرہ سب ا کلمات کے کہنے کے مکلف ہیں۔ واللہ أعلم۔
«رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» بعض روایات میں بغیر واؤ کے آیا ہے۔ اور بعض میں اللھم اور واو کے اضافے کے ساتھ بھی، یعنی «رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ، رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» اور «اللھم رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» تینوں کلمات میں سے کوئی بھی کہے جا سکتے ہیں سب جائز ہے بہتر ہے کہ ادائیگی میں تنوع ہو۔ مزید دیکھیے: [صفة صلاة، النبي، ص: 118 للألباني]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1062   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1238  
´امام اس لیے مقرر ہوا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے سے گر گئے، تو آپ کے دائیں جانب خراش آ گئی، ہم آپ کی عیادت کے لیے گئے، اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بیٹھ کر نماز پڑھائی، اور ہم نے آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پوری کر لی تو فرمایا: امام اس لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، لہٰذا جب وہ «الله أكبر» کہے، تو تم بھی «الله أكبر» کہو، اور جب رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، اور جب «سمع الله لمن حمده‏» کہے، تو تم لوگ «ربنا ولك الحمد‏» کہو، ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1238]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1) (جحش)
سے مراد ہلکا زخم ہے جس سے صرف جلد متاثر ہوتی ہے۔

(2)
اس سے یہ دلیل لی گئی ہے کہ امام صرف (سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَه‏)
کہے اور مقتدی صرف (رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْد۔
۔
۔)

 کہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے امامت کی حالت میں دونوں اذکار پڑھنا ثابت ہے۔ (سنن ابن ماجة، حدیث: 878، 875)
اس لئے تقسیم اذکار والا موقف قوی محسوس نہیں ہوتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1238   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 361  
´جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو مقتدی بھی بیٹھ کر پڑھیں۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے سے گر پڑے، آپ کو خراش آ گئی ۱؎ تو آپ نے ہمیں بیٹھ کر نماز پڑھائی، ہم نے بھی آپ کے ساتھ بیٹھ کر نماز پڑھی۔ پھر آپ نے ہماری طرف پلٹ کر فرمایا: امام ہوتا ہی اس لیے ہے یا امام بنایا ہی اس لیے گیا ہے تاکہ اس کی اقتداء کی جائے، جب وہ «الله أكبر» کہے تو تم بھی «الله أكبر» کہو، اور جب وہ رکوع کرے، تو تم بھی رکوع کرو، اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ، اور جب وہ «سمع الله لمن حمده‏» کہے تو تم «ربنا لك الحمد‏» کہو، اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 361]
اردو حاشہ:
1؎:
یعنی دائیں پہلو کی جلد چھل گئی جس کی وجہ سے کھڑے ہو کر نماز پڑھنا مشکل اور دشوار ہو گیا۔

2؎:
اور یہی راجح قول ہے،
اس حدیث میں مذکور واقعہ پہلے کا ہے،
اس کے بعد مرض الموت میں آپ ﷺ نے بیٹھ کر امامت کی تو ابو بکر اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے کھڑے ہو کر ہی نماز پڑھی،
اس لیے بیٹھ کر اقتداء کرنے کی بات منسوخ ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 361   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1223  
1223- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے سے گرگئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دایاں پہلو زخمی ہوا ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عیادت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے نماز کا وقت ہوگیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر ہمیں نماز پڑھائی۔ ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھ کر نماز ادا کی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مکمل کرلی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک امام کو اس لیے مقرر کیا گیا ہے تاکہ اس کی پیروی کی جائے، جب وہ تکبیر کہے، تو تم بھی تکبیر کہو جب وہ رکوع میں جائے تو تم بھی رکوع میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1223]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسان تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زندگی میں چوٹیں بھی آئیں، نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشکل کشا نہیں تھے۔ پہلے حکم یہ تھا کہ جب امام بیٹھ کر نماز پڑھائے تو مقتدی کو بھی بیٹھ کر پڑھنی چاہیے، اور امام کی اقتدٱ میں ہی پوری نماز مکمل کرنی چاہیے۔ البتہ یہ حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری عمل سے منسوخ ہو چکا ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1221   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 732  
732. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ گھوڑے پر سوار ہوئے (اور گر پڑے) تو آپ کی بائیں جانب کچھ زخمی ہو گئی۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ ہمیں ان دنوں آپ نے نمازوں میں سے جو نماز بھی پڑھائی وہ بیٹھ کر پڑھائی۔ ہم نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ پھر جب آپ نے سلام پھیرا تو فرمایا: امام اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، لہذا جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو، جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی اٹھاؤ، جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور جب وہ سمع الله لمن حمده کہے تو تم ربنا ولك الحمد کہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:732]
حدیث حاشیہ:
جب امام بخاری ؒ جماعت اور امامت کے ذکر سے فارغ ہوئے تو اب صفت نماز کا بیان شروع کیا۔
بعض نسخوں میں باب کے لفظ کے پہلے یہ عبارت ہے:
أبواب صفة الصلوٰة لیکن اکثر نسخوں میں یہ عبارت نہیں ہے۔
ہمارے امام احمد بن حنبل ؒ اور شافعیہ اور مالکیہ سب کے نزدیک نماز کے شروع میں اللہ أکبر کہنا فر ض ہے اور کوئی لفظ کافی نہیں اور حنفیہ کے نزدیک کوئی لفظ جو اللہ کی تعظیم پر دلالت کرے کافی ہے۔
جیسے اللہ أجل یا اللہ أعظم (وحیدی)
مگر احادیث واردہ کی بنا پر یہ خیال صحیح نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 732   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1114  
1114. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ گھوڑے سے گر پڑے تو آپ کا دایاں پہلو زخمی ہو گیا۔ ہم لوگ آپ کی تیمار داری کے لیے حاضر ہوئے تو نماز کا وقت آ گیا۔ آپ نے بیٹھ کر نماز پڑھائی۔ ہم نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: امام اسی لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، لہٰذا جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو، جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، جب وہ رکوع سے سر اٹھائے تو تم بھی اس وقت سر اٹھاؤ اور جب وہ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہے تو اس کے بعد تم رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ کہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1114]
حدیث حاشیہ:
ہر دو احادیث میں مقتدیوں کے لیے بیٹھنے کا حکم پہلے دیا گیا تھا۔
بعد میں آخری نماز مرض الموت میں جو آپ ﷺ نے پڑھائی اس میں آپ ﷺ بیٹھے ہوئے تھے اور صحابہ ؓ آپ ﷺ کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔
اس سے پہلا حکم منسوخ ہو گیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1114   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 378  
378. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ گھوڑے سے گر گئے تو آپ کی پنڈلی یا کندھا مجروح ہو گیا اور آپ نے ایک ماہ تک اپنی ازواج مطہرات کے پاس نہ جانے کی قسم اٹھائی، اس بنا پر اپنے بالا خانے میں تشریف فر ہوئے جس کی سیڑھی کھجور کے تنوں کی تھی، چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپ کی تیمارداری کے لیے آئے، آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بیٹھ کر نماز پڑھائی جبکہ وہ کھڑے تھے۔ جب آپ نے سلام پھیرا تو فرمایا: امام تو اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، لہذا جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، اسی طرح جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور اگر وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر اس کی اقتدا کرو۔ پھر آپ نے انتیس دن پورے ہونے پر بالاخانے سے نزول فرمایا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:378]
حدیث حاشیہ:
5ھ میں آپ ﷺ اتفاقاً گھوڑے سے گرگئے تھے اور ایک موقع پر آپ نے ازواج مطہرات سے ایک مہینہ کے لیے 9ھ میں علیحدگی کی قسم کھالی تھی۔
ان دونوں مواقع پر آپ نے بالاخانے میں قیام فرمایا تھا۔
زخمی ہونے کی حالت میں اس لیے کہ صحابہ کو عیادت میں آسانی ہو اور ازواج مطہرات سے جب آپ نے ملنا جلنا ترک کیا تواس خیال سے کہ پوری طرح ان سے علیحدگی رہے، بہرحال ان دونوں واقعات کے سن وتاریخ الگ الگ ہیں۔
لیکن راوی اس خیال سے کہ دونوں مرتبہ آپ نے بالاخانہ پر قیام فرمایا تھا، انھیں ایک ساتھ ذکر کردیتے ہیں۔
بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ امام اگر بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو۔
قسطلانی ؒ فرماتے ہیں:
'' والصحیح أنه منسوخ بصلاتهم في آخرعمره علیه الصلوة والسلام قیاما خلفه وهوقاعد۔
'' یعنی صحیح یہ ہے کہ یہ منسوخ ہے اس لیے کہ آخر عمر میں (آنحضرت ﷺ)
نے بیٹھ کر نماز پڑھائی، اور صحابہ ؓ آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 378   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 689  
689. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ گھوڑے پر سوار ہوئے تو اس پر سے گر پڑے، جس سے آپ کے دائیں پہلو میں چوٹیں آئیں، چنانچہ آپ نے ایک نماز بیٹھ کر پڑھی تو ہم نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر وہ نماز پڑھی۔ جب آپ نے سلام پھیرا تو فرمایا: امام اس لیے مقرر کیا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، لہذا جب وہ کھڑا ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو۔ جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو۔ جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ اور جب وہ سمع الله لمن حمده کہے تو تم ربنا ولك الحمد کہو۔ اور جب وہ کھڑا ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔ ابوعبداللہ (امام بخاری ؓ) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے فرمان: "جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔ اس کے متعلق امام۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:689]
حدیث حاشیہ:
صاحب عون المعبود رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
قَالَ الْخَطَّابِيُّ قُلْتُ وَفِي إِقَامَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا بَكْرٍ عَنْ يَمِينِهِ وَهُوَ مَقَامُ الْمَأْمُومِ وَفِي تَكْبِيرِهِ بِالنَّاسِ وَتَكْبِيرُ أَبِي بَكْرٍ بِتَكْبِيرِهِ بَيَانٌ وَاضِحٌ أَنَّ الْإِمَامَ فِي هَذِهِ الصَّلَاةِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ صَلَّى قَاعِدًا وَالنَّاسُ مِنْ خَلْفِهِ قِيَامٌ وَهِيَ آخِرُ صَلَاةٍ صَلَّاهَا بِالنَّاسِ فَدَلَّ عَلَى أَنَّ حَدِيثَ أَنَسٍ وَجَابِرٍ مَنْسُوخٌ وَيَزِيدُ مَا قُلْنَاهُ وُضُوحًا مَا رَوَاهُ أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَكَرَ الْحَدِيثَ قَالَتْ فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى الله عليه وَسَلَّمَ حَتَّى جَلَسَ عَنْ يَسَارِ أَبِي بَكْرٍ فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ جَالِسًا وَأَبُو بَكْرٍ قَائِمًا يَقْتَدِي بِهِ وَالنَّاسُ يَقْتَدُونَ بِأَبِي بَكْرٍ حَدَّثُونَا بِهِ عَنْ يَحْيَى بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى قَالَ أَخْبَرَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ وَالْقِيَاسُ يَشْهَدُ لِهَذَا الْقَوْلِ لِأَنَّ الْإِمَامَ لَا يُسْقِطُ عَنِ الْقَوْمِ شَيْئًا مِنْ أَرْكَانِ الصَّلَاةِ مَعَ الْقُدْرَةِ عَلَيْهِ أَلَا تَرَى أَنَّهُ لَا يُحِيلُ الرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ إِلَى الْإِيمَاءِ وَكَذَلِكَ لَا يُحِيلُ القيام إلى القعود وإلى ذَهَبَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَأَصْحَابُ الرَّأْيِ وَالشَّافِعِيُّ وَأَبُو ثَوْرٍوَقَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَؤُمَّ النَّاسَ قَاعِدًا وَذَهَبَ أَحْمَدُ بن حنبل وإسحاق بن رَاهْوَيْهِ وَنَفَرٍ مِنْ أَهْلِ الْحَدِيثِ إِلَى خَبَرِ أَنَسٍ فَإِنَّ الْإِمَامَ إِذَا صَلَّى قَاعِدًا صَلَّوْا مِنْ خَلْفِهِ قُعُودًا وَزَعَمَ بَعْضُ أَهْلِ الْحَدِيثِ أَنَّ الرِّوَايَاتِ اخْتَلَفَتْ فِي هَذَا فَرَوَى الْأَسْوَدُ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِمَامًا وَرَوَى شَقِيقٌ عَنْهَا أَنَّ الإمام كان أبو بكر فلم يجزان يُتْرَكَ لَهُ حَدِيثُ أَنَسٍ وَجَابِرٍ (عون المعبود، ج: 1ص: 234)
یعنی امام خطابی نے کہا کہ حدیث مذکورہ میں جہاں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں جانب کھڑا ہونا ذکر ہے جو مقتدی کی جگہ ہے اور ان لوگوں کا تکبیر کہنا اور ابوبکر کی تکبیروں کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تکبیر کے پیچھے ہونا اس میں واضح بیان موجود ہے کہ اس نماز میں امام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے اور آپ بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے اور سارے صحابہ آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر پڑھ رہے تھے اور یہ آخری نماز ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھائی۔
جو اس بات پر دلیل ہے کہ حضرت انس اور جابر کی احادیث جن میں امام بیٹھا ہو تو مقتدیوں کو بھی بیٹھنا لازم مذکور ہے۔
وہ منسوخ ہے اور ہم نے جو کہا ہے اس کی مزید وضاحت اس روایت سے ہوگئی ہے جسے ابومعاویہ نے اعمش سے، انھوں نے ابراہیم سے، انھوں نے اسود سے انھوں نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ جب آپ ﷺ زیادہ بیمار ہو گئے تو آپ تشریف لائے اور ابوبکر کی بائیں جانب بیٹھ گئے اور آپ بیٹھ کر ہی لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے اور ابوبکر کھڑے ہو کر آپ کی اقتدا کر رہے تھے اور دیگر جملہ نمازی کھڑے ہو کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اقتدا کر رہے تھے۔
اور قیاس بھی یہی چاہتا ہے کہ امام ارکان صلوۃمیں سے مقتدیوں سے جب وہ ان پر قادر ہوں کسی رکن کو ساقط نہیں کرسکتا۔
نہ وہ رکوع سجود ہی کو محض اشاروں سے ادا کرسکتا ہے تو پھر قیام جو ایک رکن نماز ہے اسے قعود سے کیسے بدل سکتا ہے۔
امام سفیان ثوری اور اصحاب رائے اور امام شافعی اور ابوثور وغیرہ کا یہی مسلک ہے اور حضرت امام مالک بن انس کہتے ہیں کہ مناسب نہیں کہ کوئی بیٹھ کر لوگوں کی امامت کرائے اور امام احمد بن حنبل اور اسحق بن راہویہ اور ایک گروہ اہل حدیث کا یہی مسلک ہے جو حدیث انس میں مذکور ہے کہ جب امام بیٹھ کر نماز پڑھائے تو مقتدی بھی بیٹھ کر ہی پڑھیں۔
واللہ أعلم بالصواب۔
راقم کہتا ہے کہ میں اس تفصیل کے لیے سخت حیران تھا۔
تحفۃ الاحوذی، نیل الاوطار، فتح الباری وغیرہ جملہ کتب سامنے تھیں مگر کسی سے تشفی نہ ہو رہی تھی کہ اچانک اللہ سے امر حق کے لیے دعا کرکے عون المعبود کو ہاتھ میں لیا اور کھولنے کے لیے ہاتھ بڑھایا کہ پہلی ہی دفعہ فی الفور تفصیل بالا سامنے آگئی جسے یقیناً تائید غیبی کہنا ہی مناسب ہے۔
والحمد للہ علی ذلك۔
(راز)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 689   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 805  
805. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ گھوڑے سے گر پڑے تو آپ کی دائیں جانب زخمی ہو گئی۔ ہم لوگ آپ کی خدمت میں تیمارداری کے لیے حاضر ہوئے، اتنے میں نماز کا وقت آ گیا تو آپ نے ہمیں بیٹھ کر نماز پڑھائی اور ہم بھی بیٹھ گئے۔۔ سفیان راوی نے ایک مرتبہ یہ الفاظ بیان کیے کہ ہم نے بیٹھ کر نماز پڑھی۔۔ جب آپ نماز ادا کر چکے تو فرمایا: امام اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، لہٰذا جب وہ اللہ أکبر کہے تو تم بھی اللہ أکبر کہو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ اور جب وہ سمع الله لمن حمده کہے تو تم ربنا ولك الحمد کہو اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو۔ حضرت سفیان نے کہا: کیا معمر نے اس طرح بیان کیا؟ میں نے کہا: ہاں۔ سفیان نے کہا: اس نے خوب یاد رکھا۔ زہری فرماتے ہیں کہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:805]
حدیث حاشیہ:
زہری نے کبھی تو پہلو کہا، کبھی پنڈلی، بعضوں نے یوں ترجمہ کیا ہے سفیان نے کہا جب ہم زہری کے پاس سے نکلے تو ابن جریج نے اس حدیث کو بیان کیا۔
میں ان کے پاس تھا ابن جریج نے پہلو کے بدلے پنڈلی کہا۔
حافظ ؒ نے اس ترجمہ کو ترجیح دی ہے۔
اس حدیث میں یہ مذکور ہے کہ جب امام تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور ظاہر ہے کہ مقتدی امام کے بعد سجدہ میں جاتا ہے تو اس کی تکبیر بھی امام کے بعد ہی ہوگی۔
اور جب دونوں فعل اس کے امام کے بعد ہوئے تو تکبیر اسی وقت پر آن کر پڑے گی جب مقتدی سجدہ کے لیے جھکے گا اور یہی ترجمہ باب ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 805   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:378  
378. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ گھوڑے سے گر گئے تو آپ کی پنڈلی یا کندھا مجروح ہو گیا اور آپ نے ایک ماہ تک اپنی ازواج مطہرات کے پاس نہ جانے کی قسم اٹھائی، اس بنا پر اپنے بالا خانے میں تشریف فر ہوئے جس کی سیڑھی کھجور کے تنوں کی تھی، چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپ کی تیمارداری کے لیے آئے، آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بیٹھ کر نماز پڑھائی جبکہ وہ کھڑے تھے۔ جب آپ نے سلام پھیرا تو فرمایا: امام تو اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، لہذا جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، اسی طرح جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور اگر وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر اس کی اقتدا کرو۔ پھر آپ نے انتیس دن پورے ہونے پر بالاخانے سے نزول فرمایا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:378]
حدیث حاشیہ:

ابن بطال نے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ نے حدیث (مَشْرُبَة)
اس لیے پیش کی ہے تاکہ لکڑی پر نماز پڑھنے کا جواز ثابت ہو، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے بالا خانے کی چھت لکڑیوں کی تھی۔
(شرح ابن بطال42/2)
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ چھت پر نماز ادا کرنے کے جواز میں اس حدیث کو پیش کیا ہے، کیونکہ ضروری نہیں کہ بالا خانے کی چھت تمام لکڑیوں ہی پر مشتمل ہو۔
(فتح الباری: 632/1)
بہر حال امام بخاری ؒ اپنے قائم کردہ عنوان کو ثابت کرنے کے لیے اس حدیث کو لائے ہیں، یہ ضروری نہیں کہ عنوان کے تمام اجزاء اس سے ثابت ہوں، بلکہ اگر بعض اجزاء بھی ثابت ہو جائیں تو کافی ہے۔

اس حدیث میں دو واقعات کو یکجا بیان کردیا گیا ہے، حالانکہ ان دونوں کے درمیان تقریباًچار سال کا دورانیہ ہے۔
پہلا واقعہ رسول اللہ ﷺ کا گھوڑے سے گرنے کا ہے جو ذوالحجہ 5ہجری بمطابق مئی 627ء کو پیش آیا۔
آپ قیام مدینہ کے دوران میں گھوڑے پر سوار ہو کر غابہ جانا چاہتے تھے کہ گھوڑے نے شوخی میں آکر آپ کو ایک کھجور کے درخت پر گرادیا جس سے قدم مبارک کی ہڈی اپنے جوڑسے الگ ہو گئی، اس کے علاوہ آپ کا پہلو بھی زخمی ہوا چوٹ معمولی نہیں، بلکہ زیادہ تھی، اس لیے آپ نے بالاخانے میں قیام فرمایا، معذوری کی وجہ سے مسجد میں نہ جا سکے، بلکہ وہیں نمازیں پڑھتے رہے، صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین عیادت کے لیے تشریف لاتے اور موقع پاکر نماز میں شریک ہو جاتے تھے۔
دوسرا واقعہ ایلا کا ہے جو 9 ہجری میں پیش آیا۔
اس میں بھی آپ نے بالا خانے میں قیام فرمایا، مگر معذور نہ تھے اس لیے نماز یں مسجد ہی میں ادا کرتے تھے، اس سے ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین سے تخلیہ مقصود تھا، اس میں حسب معمول اوقات نماز میں مسجد میں آتے اور امامت کے فرائض سر انجام دیتے۔
انھی دنوں حضرت عمر ؓ کے نماز فجر رسول اللہ ﷺ کی اقتدا میں ادا کرنے کا بیان بخاری میں ہے، ان دونوں واقعات میں مابه الاشتراک دو چیزیں تھیں جس سے بعض راویوں کو دھوکا ہوا اور انھوں نے دونوں واقعات کو ایک ہی سیاق میں بیان کردیا۔
دونوں واقعات میں قیام بالاخانے میں رہا۔
دونوں واقعات میں مدت قیام انتیس دن تھی۔
لیکن کچھ چیزیں مابه الافتراق (الگ الگ)
بھی ہیں، مثلاً:
سقوط (کرنے والے واقعے)
میں انفکاک قدم (پیرمیں چوٹ لگنے)
کی وجہ سے مسجد میں تشریف نہیں لے جاتے تھے، جبکہ واقعہ ایلا میں حسب معمول مسجد میں تشریف لے جاتے رہے۔
نیز واقعہ ایلا میں ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین اور ان کے متعلقین کو جو پریشانی اور بے چینی لاحق تھی وہ واقعہ سقوط میں نہیں تھی۔
واقعہ ایلا میں ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین اور ان کے متعلقین کو تھی اس کی جھلک صحیح بخاری کی حدیث (2468)
میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے اپنی زندگی میں صرف تین مرتبہ بیٹھ کر نماز ادا فرمائی۔
غزوہ احد میں جب آپ کو زخم آئے تو ظہرکی نماز بیٹھ کر ادا فرمائی۔
یہ 3ہجری کا واقعہ ہے۔

ہجری میں سقوط عن الفرس (گھوڑے سے گرنے)
کے وقت بھی آپ بیٹھ کر نمازیں ادا کرتے رہے، ان دونوں مواقع پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر نمازیں ادا کیں۔
11ہجری مرض وفات میں آپ نے بیٹھ کر نمازیں پڑھائیں جبکہ مقتدی حضرات کھڑے ہو کر آپ کی اقتدا کرتے تھے۔
آئندہ اس کی تفصیل ہدیہ قارئین ہوگی۔

حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ ایک ماہ کی مہاجرت اور ترک روابط کی حکمت یہ ہے کہ ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کی تعداد نو تھی زیادہ سے زیادہ تین دن تک کسی دوسرے سے ترک کلام کیا جا سکتا ہے۔

ازواج کے لیے تین دن کے حسب سے 27 دن ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کے ہوئے اور آپ کی ایک لونڈی ماریہ قبطیہ بھی تھیں، دودن اس کی مہاجرت شامل کرنے سے کل انتیس دن ہوتے ہیں۔
اس طرح رسول اللہ ﷺ نے صرف تین دن کی مہاجرت کی ہے۔
(فتح الباري: 233/9)
ترکلام میں باری مقرر کرنا رسول اللہ ﷺ کے اخلاق عالیہ کے خلاف تھا، اس لیے ایک ساتھ تمام سے ترک کلام فرمایا۔
واللہ علم۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھی تھی۔
آپ نے فراغت کے بعد انھیں سمجھایا، اگر امام کھڑا ہو کر نماز پڑھائے تو مقتدی بھی کھڑے ہوں جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر امام بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے تو مقتدی بھی بیٹھ کر نماز پڑھیں۔
ابو داود میں اس کی تفصیل ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جب تیماداری کے لیے آئے تو رسول اللہ ﷺ نوافل بیٹھ کر ادا کر رہے تھے۔
انھوں نے بطور تبرک شمولیت اختیار کر لی، لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھی پھر دوبارہ عیادت کے لیے آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز بیٹھ کر ادا کر رہے تھے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین بھی ساتھ شامل ہو گئے۔
رسول اللہ ﷺ نے انھیں ارشاد فرمایا کہ تم میرے پیچھے بیٹھ کر نماز ادا کرو، چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز ادا کی (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 602)
اس سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو مقتدی حضرات بھی اس کے پیچھے بیٹھ کر نماز ادا کریں۔
جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کے قول اور عمل سے ثابت ہے، لیکن امام بخاری ؒ کے نزدیک یہ عمل منسوخ ہے۔
آپ نے صحیح بخاری میں دو مقام پر اس کی وضاحت فرمائی ہے۔
شیخ حمیدی ؒ سے منقول ہے کہ ارشاد نبوی:
جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔
مرض قدیم میں تھا اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے مرض وفات میں بیٹھ کر نماز پڑھی اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کھڑے ہو کر اقتدا کی۔
آپ نے اس وقت انھیں بیٹھنے کا حکم نہیں دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری فعل ہی کو معمول بنایا جا سکتا ہے۔
(صحیح البخاری، الأذان، حدیث: 689)
شیخ حمیدی نے کہا ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہے، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے آخری نماز بیٹھ کر پڑھائی جب کہ لوگ آپ کے پیچھے کھڑے تھے۔
(صحیح البخاري،المرض، حدیث: 5658)
ہمارا رجحان بھی یہی ہے کہ اگر امام کسی عذر کی بنا پر بیٹھ کر نماز ادا کرتا ہے تو مقتدی حضرات تو معذور نہیں ہیں۔
انھیں کھڑے ہو کر نماز پڑھنی چاہیے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 378   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:689  
689. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ گھوڑے پر سوار ہوئے تو اس پر سے گر پڑے، جس سے آپ کے دائیں پہلو میں چوٹیں آئیں، چنانچہ آپ نے ایک نماز بیٹھ کر پڑھی تو ہم نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر وہ نماز پڑھی۔ جب آپ نے سلام پھیرا تو فرمایا: امام اس لیے مقرر کیا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، لہذا جب وہ کھڑا ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو۔ جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو۔ جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ اور جب وہ سمع الله لمن حمده کہے تو تم ربنا ولك الحمد کہو۔ اور جب وہ کھڑا ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔ ابوعبداللہ (امام بخاری ؓ) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے فرمان: "جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔ اس کے متعلق امام۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:689]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ امام کی اقتدا سے مراد صرف ظاہری افعال واعمال میں اقتدا کرنا ہے، نیت میں اقتدا ضروری نہیں، چنانچہ متنفل کے پیچھے فرض نماز اور متفرض کے پیچھے نفل پڑھنا جائز ہے اور ایسا کرنا متعدد احادیث سے ثابت ہے۔
(شرح الکرماني: 72/5) (2)
امام حمیدی ؒ کے قول سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام بخاری ؒ کا رجحان بھی اس طرف ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کی بیان کردہ مرض وفات والی حدیث اس حدیث کے لیے ناسخ ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا تھا کہ جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو، لیکن اس حدیث کو منسوخ قرار دینا کئی ایک اعتبار سے محل نظر ہے، چنانچہ امام احمد ؒ نے مذکورہ نسخ کا انکار کیا ہے۔
آپ فرماتے ہیں کہ دومتعارض احادیث میں نسخ کا دعویٰ اس وقت صحیح ہوسکتا ہے جب ان میں تطبیق ممکن نہ ہو، پھر انھوں نے جمع کی دو صورتیں بیان فرمائی ہیں:
٭جب امام ایسی بیماری میں مبتلا ہو جس سے شفایابی کی امید ہو اور وہ بیٹھ کر نماز پڑھائے تو مقتدی بھی بیٹھ کر نماز پڑھیں گے۔
اگر ایسی بیماری ہو جس سے صحت کی امید نہ ہو تو مقتدی کھڑے ہوکر نماز پڑھیں گے۔
٭اگر امام نماز کا آغاز ہوکر کرے تو مقتدی بھی کھڑے ہوکر نماز پڑھیں گے، خواہ بعد میں کوئی ایسی صورت پیش آجائےکہ امام بیٹھ کر نماز پڑھانے لگے اور اگر آغاز نماز ہی بیٹھ کرکرے تو مقتدی بھی بیٹھ کر پڑھیں گے، چنانچہ حضرت ابوبکر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے مرض وفات کے وقت کھڑے ہوکر نماز پڑھنا شروع کی تھی بعد میں جب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو آپ نے بیٹھ کر نماز مکمل فرمائی، ایسے حالات میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے کھڑے رہنے پر آپ نے کوئی انکار نہیں کیا جبکہ گھوڑے سے گرنے کے واقعے میں چونکہ آپ نے بیٹھ کر نماز پڑھانا شروع کی تھی، لہٰذا آپ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو بیٹھ کر نماز پڑھنے کا حکم دیا۔
(فتح الباري: 229/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 689   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:732  
732. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ گھوڑے پر سوار ہوئے (اور گر پڑے) تو آپ کی بائیں جانب کچھ زخمی ہو گئی۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ ہمیں ان دنوں آپ نے نمازوں میں سے جو نماز بھی پڑھائی وہ بیٹھ کر پڑھائی۔ ہم نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ پھر جب آپ نے سلام پھیرا تو فرمایا: امام اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، لہذا جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو، جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی اٹھاؤ، جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور جب وہ سمع الله لمن حمده کہے تو تم ربنا ولك الحمد کہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:732]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں تکبیر تحریمہ کے وجوب کو بیان کیا ہے، کیونکہ بعض حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ ذکر اللہ کے بغیر نماز شروع کی جاسکتی ہے اور بعض ایسے بھی ہیں جو عادت کے طور پر اللہ اکبر کو ضروری نہیں سمجھتے، البتہ مطلق ذکر اللہ کو ضروری کہتے ہیں۔
امام بخاری ؒ نے ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ نماز میں داخل ہونے کے لیے تکبیر، یعنی اللہ اکبر کہنا ضروری ہے۔
اگرچہ اس روایت میں تکبیر کا ذکر نہیں، تاہم دوسری روایات میں صراحت ہے کہ جب امام اللہ أکبر کہے تو تم بھی اللہ أکبر کہو۔
اس میں تکبیر تحریمہ کو امر کے صیغے سے بیان کیا گیا ہے جو وجوب کےلیے ہے، پھر اس میں امام کی تکبیر کے ساتھ مقتدی کی تکبیر کو مشروط کیا گیا ہے، اس لیے امام کے ساتھ ہی تکبیر کہنا پڑے گی۔
اس سے معلوم ہوا کہ افتتاحِ نماز اس تکبیر ہی ے ہوگا۔
اس طرح امام بخاری ؒ نے بیک وقت تکبیر تحریمہ کے وجوب اور افتتاح نماز کو بیان فرمایا ہے۔
چونکہ اگلی روایت میں بھی حضرت انس ؓ سے مروی ہے اور واقعہ بھی ایک ہی ہے اس بنا پر تکبیر کا اعتبار تمام روایات میں کیا جائے گا اگرچہ صراحت کے ساتھ کسی روایت میں اس کا ذکر موجود نہ ہو جیسا کہ پیش کردہ روایت میں ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ نے حدیث انس کے دونوں طریق ایک خاص مقصد کے پیش نظر بیان کیے ہیں:
پہلا طریق جو شعیب راوی سے ہےاس میں اختصار ہے، لیکن اس میں امام زہری ؒ کا حضرت انس ؓ سے سماع بیان ہوا ہے۔
دوسرا طریق جو لیث راوی سے ہے اس میں پہلی روایت کے اختصار کی تفصیل ہے۔
(فتح الباري: 282/2) (2)
نماز شروع کرنے سے پہلے خالص اللہ کے لیے اس کی نیت کرنا ضروری ہے جو دل کا فعل ہے اور نیت دل سے ہونی چاہیے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ﴾ انھیں صرف یہی حکم دیا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کے لیے اپنے دین کو خالص کرتے ہوئے اس کی عبادت کریں۔
(البينة: 98: 5)
اور حدیث میں ہے کہ اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے۔
(صحیح البخاري، بدء الوحي، حدیث: 1)
نیت کے الفاظ زبان سے ادا کرنا بدعت ہے کیونکہ ایسا کرنا رسول اللہ ﷺ، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے ثابت نہیں۔
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ نماز کے لیے نیت کے ضروری ہونے میں کسی کو اختلاف نہیں۔
امام بخاری ؒ نے کتاب الإیمان کے آخر میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔
یہ ارشاد ایمان، وضو، نماز، زکاۃ وغیرہ تمام کو شامل ہے۔
(فتح الباري: 282/2)
واضح رہے کہ نیت، صحت نماز کے لیے شرط ہے، اس کے بغیر نماز صحیح نہ ہوگی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 732   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:733  
733. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ گھوڑے سے گر پڑے تو جسم پر خراشیں آئیں۔ اس وجہ سے آپ نے ہمیں بیٹھ کر نماز پڑھائی تو ہم نے بھی آپ کے ہمراہ بیٹھ کر نماز پڑھی۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: "امام اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے۔ جب وہ اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو، جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی اٹھاو، جب وہ سمع الله لمن حمده کہے تو تم ربنا ولك الحمد کہو اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:733]
حدیث حاشیہ:
جمہور اہل علم کے نزدیک تکبیر تحریمہ، یعنی آغاز نماز میں اللہ أکبر کہنا نماز کے لیے رکن ہے جبکہ کچھ حضرات اسے صحت نماز کے لیے شرط قرار دیتے ہیں۔
یاد رہے کہ رکن اور شرط کا مفہوم تقریبا ایک ہی ہے کہ ان کے بغیر مطلوبہ فعل مکمل نہیں ہوتا، البتہ ان دونوں میں اس طرح فرق کیا جاتا ہے کہ رکن کسی چیز کی ماہیت میں داخل ہوتا ہے، جیسے رکوع اور سجدہ وغیرہ جبکہ شرط اس سے خارج ہوتی ہے، جیسے وضو وغیرہ،نیز تکبیر تحریمہ کا اطلاق صرفاللہ أکبر پر ہوگا جیسا کہ جمہور اہل علم کا موقف ہے۔
بعض حضرات کہتے ہیں کہ اللہ أکبر کے بجائے اللہ أجل، اعظم یا الرحمٰن أکبر یا کوئی بھی تسبیح وتہلیل وغیرہ کلمات تعظیم بھی کافی ہیں، یعنی لاإله إلااللہ وغیرہ سے بھی کام چل سکتا ہے۔
مؤخر الذکر موقف صحیح احادیث کے خلاف ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جب تم نماز کا ارادہ کرو تو پہلے اچھی طرح وضو کرو، پھر قبلہ رخ ہوکر اللہ اکبر کہو۔
(صحیح البخاري، الاستئذان، حدیث: 6251)
حضرت ابو حمید ساعدی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو قبلے کی طرف منہ کرتے، اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر اللہ أکبر کہتے۔
(سنن ابن ماجة، إقامة الصلوات، حدیث: 803)
امام بزار ؒ نے صحیح سند کے ساتھ حضرت علی ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تواللہ أکبر کہتے۔
اس کے علاوہ مسند امام احمد اور سنن نسائی میں ہے کہ واسع بن حبان نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے رسول اللہ ﷺ کی نماز کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے فرمایا:
نماز شروع کرتے وقت اللہ أکبر کہو جیسا کہ طبرانی وغیرہ میں صراحت ہے۔
ان تمام آثاروروایات سے معلو م ہوا کہ نماز کا آغازاللہ أکبر سے کیا جائے، اس کے بجائے دیگر کلمات تعظیم یا تسبیح وتہلیل سے کام نہ چلایا جائے۔
(فتح الباري: 281/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 733   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:805  
805. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ گھوڑے سے گر پڑے تو آپ کی دائیں جانب زخمی ہو گئی۔ ہم لوگ آپ کی خدمت میں تیمارداری کے لیے حاضر ہوئے، اتنے میں نماز کا وقت آ گیا تو آپ نے ہمیں بیٹھ کر نماز پڑھائی اور ہم بھی بیٹھ گئے۔۔ سفیان راوی نے ایک مرتبہ یہ الفاظ بیان کیے کہ ہم نے بیٹھ کر نماز پڑھی۔۔ جب آپ نماز ادا کر چکے تو فرمایا: امام اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، لہٰذا جب وہ اللہ أکبر کہے تو تم بھی اللہ أکبر کہو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ اور جب وہ سمع الله لمن حمده کہے تو تم ربنا ولك الحمد کہو اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو۔ حضرت سفیان نے کہا: کیا معمر نے اس طرح بیان کیا؟ میں نے کہا: ہاں۔ سفیان نے کہا: اس نے خوب یاد رکھا۔ زہری فرماتے ہیں کہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:805]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس روایت کا تقاضا ہے کہ امام کے سجدے کے وقت ہی مقتدی کا سجدہ ہونا چاہیے۔
چونکہ رسول اللہ ﷺ کا سجدہ جھکتے وقت اللہ أکبر کہتے ہوئے ہوتا تھا۔
حدیث کی مطابقت بھی بایں طور پر ہی ہے جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے کہ سجدے کے لیے جھکنے کی دونوں صفات ہیں:
صفت فعلی اور صفت قولی۔
اس اعتبار سے مذکورہ حدیث سجدے کے لیے جھکنے کی دو صفات پر دلالت کرتی ہے۔
(عمدة القاري: 543/4)
واللہ أعلم۔
یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ ﷺ کی اقتدا میں رہتے ہوئے اس وقت سجدے کے لیے جھکتے تھے جب آپ اپنا سر مبارک زمین پر رکھ دیتے تھے جیسا کہ صراحت کے ساتھ حدیث میں اس کا ذکر ہے، اس لیے مقتدی کو سجدہ کرتے وقت جھکنے کے ساتھ ساتھ اللہ أکبر کہتے ہوئے اس بات کا بطورِ خاص خیال رکھنا ہو گا۔
(2)
امام بخاری ؒ نے متن حدیث ختم ہونے کے بعد كذا جاء به معمر سے تین ایسی باتوں کا ذکر کیا ہے جن کا تعلق سند حدیث یا بیان روایت سے ہے۔
اس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
٭ یہ حضرت سفیان بن عیینہ کا مقولہ ہے۔
انہوں نے اپنے شاگرد علی بن عبداللہ المدینی سے دریافت کیا کہ جیسے میں نے حدیث بیان کی ہے حضرت معمر بن راشد نے بھی اسی طرح بیان کی تھی؟ علی بن مدینی کہتے ہیں کہ میں نے جواب میں ہاں کہا۔
حضرت سفیان نے علی بن مدینی سے یہ اس لیے پوچھا کہ جس طرح وہ سفیان کے شاگرد ہیں اسی طرح معمر کے بھی شاگرد ہیں۔
اس کے بعد حضرت سفیان نے حضرت معمر کی توثیق کرتے ہوئے فرمایا کہ اس نے خواب یاد رکھا ہے۔
٭ امام زہری کے بعض شاگرد، مثلاً:
لیث وغیرہ ربنا لك الحمد یا اللهم ربنا لك الحمد ذکر کرتے تھے، یعنی "واؤ" کا ذکر نہیں کرتے جیسا کہ حدیث: 733 میں گزرا ہے۔
یہ بات حضرت سفیان بن عیینہ نے بطور تنبیہ فرمائی ہے۔
٭ سفیان فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شیخ امام زہری سے شقه الأيمن، کے بجائے ساقه الأيمن نقل کرنے لگا، جبکہ میں خود اپنے شیخ کے پاس تھا تو انہوں نے مذکورہ الفاظ کب اور کیسے سنے ہیں؟ یہ اس صورت میں ہے جب عنده میں ضمیر کا مرجع امام زہری ہوں۔
اگر اس کا مرجع ابن جریج ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں تو ابن جریج کے ساتھ رہا ہوں اور ان سے جدا نہیں ہوا تو انہوں نے کب سنے ہیں؟ اس طرح کہنے سے یہ احتمال ختم ہو گیا کہ شاید انہوں نے بعد میں امام زہری سے پوچھ لیا ہو، تاہم پہلی توجیہ زیادہ قرین قیاس ہے۔
(عمدة القاري: 544/4)
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 805   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1114  
1114. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ گھوڑے سے گر پڑے تو آپ کا دایاں پہلو زخمی ہو گیا۔ ہم لوگ آپ کی تیمار داری کے لیے حاضر ہوئے تو نماز کا وقت آ گیا۔ آپ نے بیٹھ کر نماز پڑھائی۔ ہم نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: امام اسی لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، لہٰذا جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو، جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، جب وہ رکوع سے سر اٹھائے تو تم بھی اس وقت سر اٹھاؤ اور جب وہ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہے تو اس کے بعد تم رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ کہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1114]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے متعلق وضاحت پہلے بیان ہو چکی ہے، ملاحظہ ہو:
(حدیث: 888 اور 889)
امام بخاری ؒ نے ان احادیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ عذر کی بنا پر بیٹھ کر نماز پڑھنا مشروع ہے، البتہ عذر کے بغیر بیٹھ کر نماز پڑھنا جیسا کہ اس روایت میں ہے، منسوخ ہے، جیسا کہ امام بخاری ؒ نے امام حمیدی ؒ کے حوالے سے لکھا ہے، وہ فرماتے ہیں:
آپ کے پیچھے صحابۂ کرام ؓ کا بیٹھ کر نماز پڑھنا نماز قدیم میں تھا۔
اس کے بعد مرض وفات میں آپ نے لوگوں کو بیٹھ کر نماز پڑھائی اور لوگوں نے آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز ادا کی اور آپ نے انہیں بیٹھنے کا حکم نہیں دیا، اس لیے آپ ﷺ کا آخری عمل یہی ہے کہ امام اگر عذر کی وجہ سے بیٹھ کر نماز ادا کرتا ہے تو اس کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز ادا کرنی چاہیے۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 688)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1114