سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے مؤذن (کی اذان) سن کر یہ کہا: «وأنا أشهد أن لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له وأن محمدا عبده ورسوله رضيت باللہ ربا وبمحمد رسولا وبالإسلام دينا»”اور میں بھی اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں، میں اللہ کے رب ہونے، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے، اور اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوں“ تو اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے“۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 680]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 680
680 ۔ اردو حاشیہ: یقیناًً جو شخص عقیدے میں راسخ ہو اور صدق دل سے ان باتوں کا معترف ہو اسے واقعی اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے، خواہ کتنے ہی گناہوں کا مرتکب ہو۔ بھلا اس کے بخشش اور بندے کے درمیان کون حائل ہو سکتا ہے؟
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 680
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث721
´مؤذن کی اذان کے جواب میں کیا کہا جائے؟` سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے مؤذن کی اذان سن کر یہ دعا پڑھی: «وأنا أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله رضيت بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد نبيا»”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی حقیقی معبود نہیں، وہ تن تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں، میں اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے سے راضی ہوں“ تو اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأذان والسنة فيه/حدیث: 721]
اردو حاشہ: (1) توحیدورسالت کا اقرار اسلام کی بنیاد ہےاور اسی پر نجات کا دارومدار ہے۔
(2) اللہ کی ربویت پر راضی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ربویت پر ایسا ایمان ہو جیسے ایمان کا حق ہے۔ یہ احساس کہ تمام نعمتیں وہی ہمیں دے رہا ہے اور مسلسل ہماری ضرورت کی ہر چیز بہم پہنچا رہا ہے اس سے شکر اور محبت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اس لیے مومن کی اللہ سے محبت بے مثال ہوتی ہے۔ یہ محبت اس کا مزید قرب حاصل کرنے کے لیے ہر نیکی پر آمادہ کرتی اور ہر گناہ سے اجتناب پر مجبور کرتی ہے۔ اس کے بعد ساری امیدیں اللہ ہی سے وابستہ ہو جاتی ہیں جس کو یہ مقام حاصل ہوجائے وہ یقیناً اللہ کی رحمت سے جنت میں جائے گا۔
(3) اسلام کو اپنا دین تسلیم کرلینا یہ ہے کہ یہ یقین پیدا ہو جائےکہ اس دین کی ہر بات حق اور ہر ہدایت بعینہ درست ہے جس میں کسی قسم کی کوئی خامی اور خرابی نہیں۔ غیر مسلموں کا کوئی عقیدہ، کوئی رسم ورواج اور کوئی ادب اسلام کی عظیم تہذیب سے برتر نہیں۔ جب یہ احساس پیدا ہو جاتا ہے پھر یہ ممکن نہیں رہتا کہ ہم کسی معاملہ میں رہنمائی کے لیے غیر مسلموں کی طرف دیکھیں بلکہ ہر شعبۂ حیات اورزندگی کے ہر پہلو میں اسلام کی تعلیمات سے رہنمائی ملتی ہے اور اس پر دل مطمئن ہوتا ہے۔ حقیقت میں یہی وہ ایمان ہے جو آجکل کے اکثر مسلمانوں میں مفقود ہے یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کا ہر معاشرہ عملی طور پر غیر مسلم معاشرہ بنا ہوا ہے اور اسلام کی برکات سے محروم ہے۔
(4) حضرت محمدﷺ کی نبوت ورسالت پر راضی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ کا اسوہ حسنہ ہی اسلام کی اصل تعبیر ہے جس پر عمل کرنا ہمارا مقصود ہے۔ گزشتہ انبیاء کرامؑ کی شریعتیں منسوخ ہوچکی ہیں۔ ہمیں ان پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس طرح کسی امتی کا یہ مقام نہیں کہ اس کی ہر بات آنکھ بند کرکے مان لی جائے۔ مسلمانوں کی اجتماعیت کا مرکز ومحور صرف رسول اکرم ﷺ کی ذات اقدس ہے۔ جیسے کہ علامہ اقبالؒ نے فرمایا ؔ بہ مصطفی برساں خویش راکہ دیں ہمہ اوست اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی ست خود کو مصطفیﷺ تک پہنچاؤ کیونکہ انہی کی ذات سراپا دین ہے۔ اگر تم نبی ﷺ تک نہیں پہنچتے تو باقی سب کچھ ابو لہب ہی کا طریقہ ہے،
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 721
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 851
حضرت سعد بن ابی وقاس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے روایت سنائی کہ آپﷺ نے فرمایا: ”جس نے مؤذن کی اذان سننے کے وقت کہا: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، میں گواہی دیتا ہوں، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ یگانہ ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ رَضِيتُ بِاللهِ رَبًّا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، میں اللہ کو رب مان کر اور محمدﷺ کو رسول مان کر اور اسلام کو دستور زندگی مان کر... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:851]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اذان کے ساتھ اذان کے کلمات کہے جائیں گے یہ اور دوسری دعا اذان کے بعد پڑھی جائے گی اور ابن رمح کے الفاظ (وأنا أشهد) سے معلوم ہوتا ہے کہ کلمات شہادت کے ساتھ اس کو پڑھا جا سکتا ہے۔ ایک استدلال اور، اس کا جواب، احادیث میں، اذان سن کر، مؤذن کےکلمات کہنے کا ذکر ہے۔ (حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ یا حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ) کی جگہ (لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّابِاللَّهِ) کا اور پھر سامع کا حکم ہے کہ وہ اذان کے بعد اکرم نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے، لیکن بعض حضرات نے فقہی کتب کے حوالہ سے لکھا ہے کہ پہلی مرتبہ: (أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ سن کر قَرَّتْ عَيْنِي بِكَ يَا رَسُوْلُ الله) کہنا مستحب ہے، علامہ شامی نے رد المختار 1/ 293۔ (مکتبہ ماجدیہ کوئٹہ) میں اس کی تائید میں ایک حدیث نقل کی ہے جو المقاصد الحسنہ للسخاوي کے حوالہ سے ہے اور پھر جراحی کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ: (لَمْ يَصح فِي الْمَرْفُوعِ مِنْ كُل هَذَا شَئْيٌ) جب حدیث ہی صحیح نہیں تو تائید کیسے ہو گی، اور المقاصد الحسنہ دار الکتاب العربی ص450 میں ایک اور حدیث ہے علامہ ابن عابدین والی روایت موجود ہی نہیں ہے اور ملا علی قاری نے جو بات سخاوی کی عبارت کے بعد کہی ہے وہ درست نہیں ہے۔ ایک متعصب حنفی فاضل عبدالفتاح ابوغدہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کی ایک دوسری کتاب (كتاب الْمَصْنُوع فِي معرفَة الحَدِيث الْمَوْضُوع) مکتبہ المطبوعات الاسلامیہ بحلب ص169 حاشیہ نمبر2 پر علامہ قاری کی عبارت: (وَإِذَا ثَبَتَ رَفَعَه إِلَى الصدّيق فَيَكْفِي العَمَل بِهِ! لِقَولِهِ عَلَيْهِ الصَّلاَةُ وَالسَّلام: عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةَ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِيْن) پر انتہائی تعجب کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں: (فكان تعقبه لا معني له الا الخطاء اذا لم يصح اسناده الي ابي بكر) کہ اس تعاقب کی غلطی کے سوا کوئی حیثیت نہیں ہے کیونکہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف اس کی نسبت ہی صحیح نہیں ہے اور ابو غدہ نے طحطاوی کے استدلال کے بارے میں لکھا ہے۔ (هُوَ كَلَامٌ مَرْدُوْدٌ بِمَا قَالَه الحفاظ) اور ملا علی قاری کے بارے میں میں لکھا ہے۔ (يطيب لَهُ فِي كَثِيْرٍ مِنَ التعقبَاتِ حب استدراك ولو بتاويل بَعِيْدٍ لَا يَقُوْمُ عَلَيْهِ دَلِيْل) کہ وہ محض استدراک کے شوق میں بلا دلیل تاویل بعید سے کام لیتے ہیں۔ (ص170) اور علامہ الصباع نے الموضوعات الکبریٰ کے حاشیہ 316 پر لکھا ہے۔ (كَيْفَ يَقُولَ المؤلِّفُ إِذَا ثَبَتَ وَقَدْ ذَكَرَ قَبْلَ قَلِيْل أَنَّهُ لَايَصِحُّ؟) مولف نے (إذاثبت)(جبکہ ثابت ہے) کیسے کہہ دیا حالانکہ وہ تھوڑا سا پہلے خود کہہ چکے ہیں یہ صحیح نہیں ہے اور بقول امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کتاب الفردوس میں، احادیث موضوعہ یعنی من گھڑت احادیث بہت ہیں۔ (منہاج السنہ: 3/17) اور حدیث میں سامع کو دردو پڑھنے کا حکم ہے اور وہ بھی اذان کے جواب کے بعد اور ظاہر ہے سامع اذان کا جواب آہستہ دیتا ہے اور درود بھی آہستہ پڑھتا ہے لیکن بعض حضرات نے اس حکم میں مؤذن کو بھی شامل کر لیا ہے اور پھر مؤذن کے لیے اذان سے پہلے اور اذان کے بعد بلند آواز سے درود پڑھنا ثابت کیا ہے۔ اور طرفہ تماشہ یہ ہے کہ اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے علامہ سخاوی اور علامہ علائی کی عبارت سے یہ واضح ہو گیا کہ اذان کے بعد صلاۃ و سلام آٹھویں صدی ہجری میں سلطان صلاح الدین ابو المظفر کے حکم سے پڑھنا شروع کیا گیا اور چودھویں صدی کے اخیر سے پانچوں نمازوں کی اذان سے پہلے یا بعد میں صلاوۃ و سلام پڑھا جاتا ہے۔ (شرح صحیح مسلم اردو: 1/ 1093، علامہ غلام رسول سعیدی) سوال یہ ہے اگر یہ خیر کا کام ہے جیسا کہ اللہ کے کلام ﴿وَافْعَلُوا الْخَيْرَ﴾ سے اس کو ثابت کیا گیا ہے تو اس خیر کا پتہ 781 ہجری تک کسی صحابی، تابعی یا محدث وامام کو کیوں نہ چل سکا، اور پھر اس کا علم بھی ہوا تو ایک بادشاہ کو، درود وسلام ایک عمل مطلوب ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و عقیدت کا ایک تقاضا اور علامت ہے، سوال اس مخصوص کیفیت و ہئیت کا ہے جس کا ثبوت دین میں نہیں اور اس کے بارے میں قول فیصل، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا فرمان ہے، جس کو خود علامہ سعیدی نے نقل کیا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے پہلو میں بیٹھے ہوئے آدمی کو چھینک آئی تو اس نے کہا (الحمدلله والسلام علي رسول الله) ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، میں کہتا ہوں شکر کا حقدار اللہ ہے اور سلامتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھینک کے جواب میں اس طرح تعلیم نہیں دی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ ہم کہیں۔ (الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ) اس کے بعد علامہ سعیدی لکھتے ہیں، اس شخص نے جو چھینک کے بعد (الحمدلله والسلام علي رسول الله) کہا تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا تھا اور نہ یہ بات تھی کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض کی بنا پر اس کو چھینک کے بعد درودشریف پڑھنے سے منع کر رہے تھے ان کا مطلب صرف اتنا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو عبادات جس طرح مشروع اور مقرر فرمائی ہیں ان کو کسی ترمیم اورا ضافہ کے بغیر ادا کرنا اتباع رسول اور جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ساتھ وابستگی ہے اور اپنی رائے سے ان میں کسی سابقہ اور لاحقہ کا اضافہ کرنا بہر حال لائق ستائش نہیں۔ (شرح صحیح مسلم اردو: 1/ 1095) اور اس سے پہلے یہ تسلیم کر چکے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مدینہ منورہ میں دس سال اذان دی جاتی رہی خلفائے راشدین کے دور میں تیس سال اذان دی جاتی رہی اور سو سال تک عہد صحابہ و تابعین میں اذان دی جاتی رہی اور کسی دور میں بھی اذان سے پہلے یا بعد فصل کر کے جہراً درود شریف نہیں پڑھا گیا۔ اور آٹھ صدیوں تک مسلمان اس طریقہ سے اذان دیتے رہے۔ (1/ 1094) سوال یہ ہے کہ اب اس میں ترمیم واضافہ کی کیوں ضرورت پیش آ گئی ہے اگر اسی طرح نیکی کے نام سے دین میں اضافہ کی اجازت دے دی جائے تو یہ کام کہیں رکنے کا نام نہیں لے گا۔ اور (كل بدعة ضلالة) کا معنی مطلب ہی ختم ہو جائے گا کیونکہ ہر بدعت نیکی کے نام سے ایجاد کی جاتی ہے کوئی کہہ سکتا ہے اذان کہنا دین کا شعار ہے اور دین کے منشور کا اعلان ہے نماز جمعہ کے لیے اجتماع کی خاطر اذان دی جاتی ہے اور عیدین میں اس سے بڑا اجتماع ہوتا ہے لہٰذا اس کے لیے اذان کہنے میں کیا حرج ہے؟ قرآن پڑھنا نیکی کا عمل ہے لہٰذا سری نمازوں میں بلند قرآءت کرنے میں کیا حرج ہے؟ درود شریف پڑھنا پسندیدہ کام ہے تو اس کو نماز کے قیام یا رکوع یا سجدہ میں پڑھنے میں کیا حرج ہے؟ نماز دین کا ستون ہے اور بہت افضل عمل ہے لہٰذا شام کی رکعات چار اور فجر کی بھی چار کرنے میں کیا حرج ہے؟ آپ نے کب کہا، مغرب کی چاررکعات نہ بنانا، یا فجر میں اضافہ نہ کرنا، اس طرح نیکی کے نام سے جو چاہو اضافہ کرتے جاؤ اور بطور دلیل کہہ دو، اللہ کا فرمان ہے: ﴿وَافْعَلُوا الْخَيْرَ﴾ نیکی کے کام کرو، خلاصہ کلام یہ ہے کہ دین اس کا نام ہے جو کام آپﷺ نے جیسے کیا ہے اس کو ویسے ہی کیا جائے اس میں اپنی طرف سے کمی و بیشی نہ کی جائے یا کسی عمل کے لیے اپنی طرف سے کوئی مخصوص کیفیت اور شکل ایجاد نہ کی جائے۔