الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن نسائي
كتاب الأذان
کتاب: اذان کے احکام و مسائل
34. بَابُ : ثَوَابِ ذَلِكَ
34. باب: اذان کا جواب دینے کے ثواب کا بیان۔
حدیث نمبر: 675
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قال: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، أَنَّ بُكَيْرَ بْنَ الْأَشَجِّ حَدَّثَهُ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ خَالِدٍ الزُّرَقِيَّ حَدَّثَهُ، أَنَّ النَّضْرَ بْنَ سُفْيَانَ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ بِلَالٌ يُنَادِي، فَلَمَّا سَكَتَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ قَالَ مِثْلَ هَذَا يَقِينًا دَخَلَ الْجَنَّةَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ بلال رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر اذان دینے لگے، جب وہ خاموش ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے یقین کے ساتھ اس طرح کہا، وہ جنت میں داخل ہو گا۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 675]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 14641)، مسند احمد 2/352 (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

   سنن النسائى الصغرىمن قال مثل هذا يقينا دخل الجنة
   صحيح مسلمأشهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله لا يلقى الله بهما عبد غير شاك فيهما إلا دخل الجنة
   صحيح مسلملقنوا موتاكم لا إله إلا الله
   سنن ابن ماجهلقنوا موتاكم لا إله إلا الله
   المعجم الصغير للطبرانيلقنوا موتاكم لا إله إلا الله وقولوا الثبات الثبات ولا قوة إلا بالله

سنن نسائی کی حدیث نمبر 675 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 675  
675 ۔ اردو حاشیہ: اس حدیث کے معنی بظاہر وہی ہے جو مؤلف رحمہ اللہ نے مراد لیے ہیں کہ جو شخص اذان کا جواب دے وہ جنت میں جائے گا۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 675   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1444  
´جان نکلنے کے وقت میت کو «لا الہ الا اللہ» کی تلقین کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے مردوں کو «لا إله إلا الله» کی تلقین کرو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1444]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
اس حدیث میں مرنے والے سے مراد قریب الوفات شخص ہے۔

(2)
تلقین سے عام طور پر علماء نے یہ مراد لیا ہے۔
کہ قریب الوفات شخص کے پاس (لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ)
پڑھا جائے۔
تاکہ وہ بھی سن کر پڑھ لے۔
علامہ محمد فواد عبد الباقی رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح مسلم کے حاشہ میں یہی فرمایا ہے۔
دیکھئے: (صحیح مسلم، الجنائز، باب تلقین الموتیٰ لا الٰہ الا اللہ)
نواب وحید الزمان خان نے سنن ابن ماجہ کے حاشہ میں اس مقام پر فرمایا مستحب ہے کہ میت یعنی جومر رہا ہو۔
اس کو نرمی سے یہ کلمہ یاد دلائیں۔
اور زیادہ اصرار نہ کریں۔
ایسا نہ ہوکہ انکار کر بیٹھے۔
البتہ علامہ ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ کی رائے اس سے مختلف ہے۔
وہ فرماتے ہیں کہ تلقین سے مراد کلمہ توحید پڑھ کر صرف سنانا ہی نہیں بلکہ اس سے کہا جائے وہ بھی پڑھے۔
اس کی دلیل میں انھوں نے یہ حدیث پیش کی ہے۔
جس کے الفاظ یہ ہیں۔
رسول اللہ ﷺ ایک انصاری کی عیادت کوتشریف لے گئے تو فرمایا ماموں جان! (لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ)
کہیے۔
اس نے کہا میں ماموں ہوں یا چچا؟ آپ نے فرمایا بلکہ ماموں اس نے کہا تو (لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ)
کہنا میرے لئے بہتر ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا ہاں (مسند احمد: 152/3)

(3)
اس حدیث سے دفن کے بعد تلقین مراد لینا درست نہیں کیونکہ نبی کریمﷺ نے ایسے نہیں کیا اور نہ کسی صحابی سے صحیح سند سے یہ عمل مروی ہے۔
لہٰذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
البتہ دفن کے بعد میت کے حق میں استقامت کی دعا کرنامسنون ہے۔ (سنن أبی داؤد، الجنائز، باب الإستغفار عند القبر للمیت فی وقت الإنصراف، حدیث: 3231)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1444   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2125  
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے مرنے والوں کو لاالٰه الا اللہ کہنے کی تلقین کرو۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2125]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
موتٰی سے مراد وہ لوگ ہیں جو مر رہے ہوں یعنی ایسے لوگ جن کی موت کے آثار نمایاں ہو چکے ہوں اب چونکہ وہ دنیا کو چھوڑ کر آخرت کو سدھار رہے ہیں اور آخرت میں کام آنے والی چیز توحید ہی ہے اس لیے مرنے والے کے سامنے لاالٰه الا اللہ پڑھنا چاہیے تاکہ وہ بھی اس کلمہ کو پڑھے اور اس کا خاتمہ اس کلمہ پر ہو اور وہ جنت کا حقدار ٹھہرے اور اگر وہ دوسروں کے پڑھنے سے اس طرف متوجہ نہ ہواور کلمہ اخلاص نہ پڑھے تو پھر اس کو لاالٰه الا اللہ پڑھنے کے لیے کہا جائے گا اور جب اس نے لاالٰه الا اللہ پڑھ لیا ہے تو پھر بار بار اس کو پڑھنے کے لیے نہیں کہا جائے کہیں خدانخواستہ وہ بیماری کی شدت اور گھبراہٹ کی بنا پرجھنجھلا کر یہی نہ کہہ دے میں نہیں پڑھتا۔
اعاذنا اللہ منہ۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2125