عمرو بن اوس کہتے ہیں کہ ہمیں قبیلہ ثقیف کے ایک شخص نے خبر دی کہ اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی کو سفر میں بارش کی رات میں «حى على الصلاة، حى على الفلاح، صلوا في رحالكم»”نماز کے لیے آؤ، فلاح (کامیابی) کے لیے آؤ، اپنے ڈیروں میں نماز پڑھ لو“ کہتے سنا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 654]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 654
654 ۔ اردو حاشیہ: ➊ ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ «حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ» اور «حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ» ایک ایک دفعہ کہا جائے گا، لیکن یہ اختصار ہے، عام اذان کی طرح بارش والی اذان میں بھی یہ کلمات دو دو دفعہ ہی کہے جائیں گے بلکہ «صلُّوا في بُيُو تِكُمْ یا أَلا صَلُّوا في رِحالِكُمْ» بھی دو دفعہ کہا جائے گا۔ ➋ «صَلُّوا في رِحالِكُمْ» سے ملتا جلتا کوئی اور لفظ بھی کہا: جا سکتا ہے، مثلا: «صلُّوا في بُيُو تِكُمْ» یا «أَلا صَلُّوا في رِحالِ» وغیرہ۔ یہ الفاظ «حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ» کے منافی نہیں کیونکہ «حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ» کا مقصود ہے ”نماز پڑھو“ اور اگر اس سے مراد یہ ہو کہ نماز کے لیے مسجد میں آؤ تو یہ خطاب بارش کی صورت میں حاضرین سے ہو گا اور غائبین سے خطاب «أَلا صَلُّوا في رِحالِ» ہو گا۔ ➌ یہ الفاظ اس روایت کے مطابق تو «حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ» کے بعد کہے جائیں گے اور یہی انسب ہے تاکہ لوگوں کو رخصت کا علم ساتھ ہو جائے۔ بعض روایات میں یہ الفاظ اذان کے بعد ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کلمات اذان کے بعد الگ کہے جائیں گے تاکہ اذان کی ا صلی صورت میں فرق نہ آئے۔ صحیحین میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کلمات «حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ» کی جگہ کہے جائیں گے۔ [صحیح البخاري، الجمعة، حدیث: 901، و صحیح مسلم، صلاة المسافرین و قصرھا، حدیث: 699] سب روایات صحیح ہیں، لہٰذا تینوں طرح جائز ہے۔ اس مسئلے کی مزید وضاحت کے لیے اسی کتاب کا ابتدائیہ ملاحظہ فرمائیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 654